ہم نے گاڑی چلانا سیکھی

جب ہم پاکستان میں تھے تو ہمیں گاڑی تو کیا، موٹر سائیکل بلکہ حق تو یہ ہے کہ سائیکل بھی چلانا نہیں آتی تھی۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ پبلک ٹرایسپورٹ کی اتنی ریل پیل تھی کہ سٹاپ پر پہنچنے کی دیر ہوتی تھی۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے تھے کے مصداق ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھانے پر مصر۔بٹھانے تو ہم مروت میں لکھ گئے، بس والے بس میں کھڑا کرنے اور ویگنوں والے ویگن میں مرغا بنانے پر تیار۔ اس میں کلام نہیں کہ کبھی کبھی مقدر کی یاوری سے سیٹ بھی مل جاتی تھی ۔ اور کچھ نہ ہو تو ٹیکسی کی سہولت تو تھی ہی ۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمیں جہاں پہنچنا ہوتا تھا، پہنچ ہی جاتے تھے۔

سعودی عرب آکر ہمیں پہلا دھچکا یہ لگا کہ پبلک ٹرانسپورٹ نا ہونے کے برابر۔ یہاں بریدہ میں تو نام کو بھی نہیں۔ ٹیکسی یہاں "اجرہ" کہلاتی ہے، وہ مل سکتی ہے مگر خاصی تگ و دو سے۔ یہ مشقت تو بندہ اٹھا لے مگر جب وہ "اجرہ" والے اجرت مانگتے تھے تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے کیا، سارے ہی پرندے اڑ جاتے ہیں۔سر پر بال تو بچے نہیں کہ وہ بھی کھڑے ہو جاتے۔ کیونکہ رقم وہ ریالوں میں بتاتے اور ہم پاکستان سے اپنی محبت کی بنا پر اسے روپے میں گنتے۔ ۔نتیجتًا رقم کچھ زیادہ ہی دکھتی تھی۔

پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی ٹیکس نہیں سو گاڑیاں پاکستان کی نسبت سستی ہیں اور پھر پٹرول ایک ریال کا دو لٹر۔ انجام اس کا یہ کہ تقریبًا ہر کسی کے پاس ہی اپنی گاڑی ہے سو پبلک ٹرانسپورٹ کے حاجتمند نہ ہونے کے برابر۔
اس صورتحال کا حل یہ سوچا کہ ہم اپنی گاڑی لے لیں۔ سوچ تو لیا مگر
میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا منیر
مجھے ایک اور دریا کا سامنا تھا

گاڑی یہاں تب ملتی ہے جب آپ کے پاس "رخصہ قیادہ" یعنی کہ ڈرائیونگ لائسنس ہو۔ اب ہم نے گاڑی چلائی ہوتی تو یہ شرط پوری کرتے۔ ہم لائسنس والے دفتر گئے۔ انھوں نے ہم سے ایک فارم پر کروایا، ہمارا طبی معائنہ ہوا کہ کچھ نظر بھی آتا ہے اسے کہ نہیں حالانکہ ایسی احمقانہ شرائط ہمارے پیارے ملک میں نہیں۔ وہاں نظر آنا ایک لحاظ سے اضافی قابلیت ہے۔ بلکہ حقیقی معنوں میں خامی کہیے۔

خیر طبی معائنے کے بعد ہمارا ڈرائیونگ کا امتحان لیا گیا جو ہم امتیازی نمبروں سے ناکام ہو گئے۔ ہوا یوں کہ ہم سے گاڑی چلانے کا کہا گیا۔۔۔۔۔۔ ہم نے چلا دی مگر گاڑی ایک قدم آگے جا کے رک گئی۔ اس میں ہمارا قصور نہیں تھا۔ بس ہم دستی بریک کو ہٹانا بھول گئے اور ان بے مروت لوگوں نے ہمیں ایک مہینے کی گاڑی چلانے کی تربیت پر لگا دیا۔ زرِ کثیر بطور ٹریننگ فیس الگ سے لے لیا۔

آخر کار ہم نے داخلہ لے لیا اس سکول میں اور لگے سیکھنے گاڑی چلانے۔ ہمارے گروپ میں آٹھ لوگ تھے۔ اور ہمارا استاد ہندوستانی تھا۔ ہمارے گروپ کو ڈیزل والی "ہائی لکس" دی گئی جو ہمارے ہاں سامان ڈھونے کے کام آتی ہے۔ خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں تھوڑی بہت گاڑی چلانا آ گئی۔ ہمیں بریک، ایکسیلیریٹر، کلچ اور گئیر کا پتہ چل گیا اور گاڑی اس میدان میں ہم چلا اور روکنے میں بھی کامیاب ہونے لگے۔
اب تین ہفتے کے بعد ہمارا امتحان ہوا تو ہمارے ساتھ ایک بھیانک سازش کی گئی۔ ہمیں تربیت تو دی گئی تھی "ہائی لکس " پر مگر امتحان میں " کرولا" پکڑا دی گئی۔ انجام یہ کہ گاڑی تو ہم نے چلا دی مگر پارکنگ میں لگانے میں ناکام رہے۔ تاہم اشاروں کے امتحان میں ہم سرخرو ہو ہی گئے۔

اب کے بار ہمیں صرف دو ہفتوں کی تربیت دی گئی۔ اور دی بھی چھوٹی گاڑی پر۔ مگر قسمت نے اس بار بھی وفا نہیں کی اورامتحان میں ہمیں وہ گاڑی ملی جس کی ڈرائیونگ سیٹ خاصی پیچھے تھی اور مزید آگے بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہماری ٹانگیں بمشکل کلچ، بریک اور ایکسلریٹر تک پہنچ پا رہی تھیں۔ اس بار پارکنگ لگاتے ہوئے کلچ زیادہ چھوٹ گیا اور گاڑی بند ہو گئی۔ ہمارے بدترین خدشے اس بار بھی صحیح ثابت ہوئے۔ تا ہم اس بار ہمیں پرانا طالب علم ہونے کی رعایت ملی اور صرف ایک ہفتے کی تربیت دی گئی۔

ایک ہفتے بعد ہم نے دوبارہ امتحان دیا۔ اس بار بھی ہم نے کوئی بہت اچھی ڈرائیونگ نہیں کی اور آس تو اب بھی نہیں تھی کامیابی کی مگر جب نتیجہ نکلا تو ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انھوں نے ہمیں کامیاب قرار دیا اور ہمیں لائسنس ہمیں تھمادیا۔ ہمیں تو اپنی خوش بختی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوگ ہمیں مبارکباد دے رہے تھے اور ہم سکول والوں کی عقل کا ماتم کر رہے تھے کہ ہمیں لائسنس دے کر اپنی مستقل آمدنی کا زریعہ ختم کر دیا۔
Ibne Riaz
About the Author: Ibne Riaz Read More Articles by Ibne Riaz: 35 Articles with 29178 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.