روخان صاحب کی نئی کاوش

سوات کے ادبی تاریخ میں فضل محمود روخان صاحب کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ موصوف نے اپنی زندگی سوات میں ادب کی خدمت کے لئے وقف کررکھی ہے ۔ اس حوالے سے گاہے بہ گاہے ان کی کچھ کاﺅشیں نظر سے گزرتی رہیں لیکن شائد ادب کے حوالے سے ہماری کم مائیگی سمجھ لیں کہ ہم روخان صاحب کے بارے میں کچھ زیادہ آگاہی نہ رکھ سکے ۔ ہم تو بس یہ جانتے تھے کہ مین بازار کے پرانی سبزی منڈی کے چو ک میں ”روخانہ پیز ار زائے“ کے نام سے جوتوں کی ایک دُکان ہے جس میں ایک منش بیٹھا رہتا ہے اور جو سرخ رنگ سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دُکان کا بورڈ بھی سرخ رنگ کا ہے اور اس پر پشتو زبان میں پورا پتہ لکھا گیا ہے(جوان کی پشتو زبان سے محبت کا مظہر ہے) بس اس سے زیادہ کی ہم نے ان کے بارے میں جاننے کی جستجو نہیں کی ۔ روزنامہ چاند کے ایڈیٹوریل صفحے کے انچار ج کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ان سے شناسائی کا آغاز ہوا کہ موصوف اس میدان کے بھی اچھے خاصے شہسوار ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب ” “ جو تحفہ کے طورپر مجھے دی،پڑھ کر دل پر ایک سحر طاری ہوا لیکن معذرت خواہ ہوں کہ اس پر کچھ لکھنے کا موقع نہ ملا ۔پھر انہوں نے گزشتہ دن اپنی نئی کتاب ”دانتظار آخری لمحہ “ مرحمت فرمائی جس پر ہم نے ان سے گلہ بھی کیا کہ بہت دیر سے کتاب ہم تک پہنچی جس پر انہوں نے اپنی مخصوص پر مشفق ہنسی کے ساتھ معذرت کرلی ۔”دانتظار آخری لمحہ“ اپنے اندر ایک جامع داستان سموئے ہوئے ہے اور کیوں نہ ہو کہ انتظار کی زحمت سے میرے خیال میں آج کا ہرانسان کسی نہ کسی صورت میں گزرتا رہتا ہے ۔فراقِ یار کے انتطار کے قصے تو اب پرانے ہوگئے ہیں۔ اب تو زندگی کے ہر لمحے میں انسان کو کسی نہ کسی صورت انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں بیاں کروں تو شائد کسی کی دل آزاری ہوجائے۔ لیکن روخان صاحب کی”دانتظارآخری لمحہ“ نے تو انتظار کے حوالے تمام سوچوں کا رُخ ہی تبدیل کردیا ۔ کتاب ہاتھ لگتے ہی اپنی گوناگوں مصروفیات کے باﺅجود پڑھنے بیٹھ گیا ۔پہلا شہ پارہ ”باچا سڑیہ“ پڑھتے ہیں ذہن کے دریچے میں ہوا کے تازہ جھونکوں کی طرح روخان صاحب کے خیالات نے ایک سمندر موجزن کردیا۔ جس میں انہوں نے اعمال کے حوالے انسان کے گناہوں کا بوجھ گردن پر لادھنے اور پھر اس سے نجات کے حوالے سے خوبصورت نقشہ کھینچا ہے ۔ اس کے بعد تو بس پڑھنے کی جستجو نے کتاب رکھنے ہی نہیں دیا ۔اور پڑھتا ہی گیا۔سوچ کی محور میں ”کا لکی اوتار“ نے توجیسے ہتھوڑے کی طرح ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کی دستک دی ۔نجانے روخان صاحب کے پاس اتنا وقت کہاں سے آیا جس میں انہوں نے اتنی خوبصورت تحریر کے لئے اتنا قیمتی مواد حاصل کیا۔ میرے خیال میں کتاب کی ہر تحریر اپنی جگہ مثال آپ ہے لیکن اس ایک تحریر نے تو میری تمام سوچوں کو جھنجھوڑلیا ۔ روخان صاحب نے ہر موضوع کو سخن کا حصہ بناتے ہوئے مزاح کو بھی نہیں بخشا ۔”چی دے ھم سکھ دے“ نے بے ساختہ ہونٹوں پر مسکراہٹ کو لاکر قہقہے میں تبدیل کردیا ۔اسی طرح ”لاشعور“ ”زما دباغ گلونہ “ ”داسی پاگل زان لہ بل اوگورہ“”سوات دپختو پہ دور کے“ اور دیگر موضوعات ایسے ہیں جنہیں لفظوں میں بیان کرتے ہوئے شائد میں انصاف نہ کرسکوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فضل محمود روخان صاحب نے ادب اور باالخصوص پشتو ادب کی جو خدمت کی ہے اس حوالے سے اپنے مختصر سے مطالعے کے دوران مجھے کسی اور کی خدمات ان کے مقابلے میں نظر نہیںآسکی ہےں ۔کسی قوم کے عروج وزوال میں اس زبان کے اد ب کا بڑا حصہ ہوتا ہے جس کی رکھوالی روخان صاحب جیسے صاحب ذوق ہی کرتے ہیں۔ سوات ادبی سانگہ کی بنیا د کا رکھنا اور پھر اس پلیٹ فارم سے پشتو ادب کی خدمت کرنا روخان صاحب ہی کا خاصہ ہے جس کی نظیر کا ملنا مشکل ہے ۔دانتظار آخری لمحہ میں روخان صاحب کے زندگی کے بارے میں اور ان کے ذاتی زندگی کے کئی پہلوﺅں کے ”در“ وا ہوتے ہیں۔ نفیس شخصیت کے حامل روخان صاحب کی اس کتاب نے میرے خیالات میں بھی ایک تغیر برپا کردیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہی مصنف کی کامیابی ہے جس کی تحریر کے باعث قاری کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔”دانتظار آخری لمحہ“ میں بعض مضامین کے سحر میں کھو کر انسان کچھ دیر کے لئے دُنیا ومافیہا سے بے خبر ہوکر جیسے تصوف کی دُنیا میں قدم رکھ لیتا ہے جو مصنف کے عمیق مطالعے اور دل سے لکھنے کی دلیل ہے۔ اندازبیاں بھی بڑ اآسان اور شگفتہ ہے جس کی وجہ سے قاری شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کے دوران اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ ہر تحریر کے بعد اگلی تحریر پڑھنے کا شوق مزید بڑھتا ہے۔ جس کے باعث پوری کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ اسی بناءپر میں تو ادب کا ذوق رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کے پڑھنے کی دعوت دوں گا کہ یہ محض روخان صاحب کے خیالات نہیں بلکہ ہر اس دل کی آواز ہے جس کے کسی بھی کونے میں احترام انسانیت کی عمیق سی رمق بھی موجود ہو ۔ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اس میں کسی نہ کسی شکل میں موضوعات موجود ہیں ۔ کسی بھی ذوق کے قاری کے لئے اس میں دل چسپی کا سامان وافر مقدار میںملے گا ۔اور جو خاص بات میں بھول گیا جسے شروع میں بیان کرنا چاہئے تھا وہ اس کا خوبصورت سرورق ہے جس کی ڈیزائننگ اتنے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے کہ فوراً دل کو موہ لیتا ہے اور جو” دانتظار آخری لمحہ“ کا پورا منظر اپنے اند ر سموئے ہوئے ہے ۔ ”د انتظار آخری لمحہ“ کسی نہ کسی شکل میں میری ذاتی زندگی کے ایک حصے کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ ہم بھی کبھی انتظار کی زحمت سے بہت بری طرح گزرے ہیں۔ بہ ہر حال ”دانتظار آخری لمحہ “روخان صاحب کی ایک بہترین کاﺅش ہے جس پر انہیں جتنا بھی داد دیا جائے کم ہوگا۔
 
Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 42 Articles with 25988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.