مدینہ منورہ میں وادِی جِن ۔آنکھوں دیکھی ، کانوں سنی کچھ باتیں

 سعودی عرب کے متعدد شہرو ں خصوصاً مکہ المکرمہ، مدینہ منورہ میں خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کے علاوہ بے شمار جگہیں ایسی ہیں کہ جن کی زیارت اور ان مقامات پر حاضری کو مسلمان اپنے لیے باعث عبادت و برکت تصور کرتے ہیں۔مکہ میں عمرہ کی ادائیگی یا حج کے بعد زائرین پیدائش گاہ آنحضرت محمد ﷺ ، مختلف مساجد، مختلف پہاڑ جیسے جبل حرا، جبل ثور، منیٰ، مذدلفہ، قبرستان جیسے جنت المعلیٰ،جدہ میں مقبرہ اماں حوا، مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺپر سلام ِعقیدت پیش کرنے کے بعد شہدائے احد،جبل احد، مساجد، کوئیں، باغات(حضرت سلمان فارسی کا باغ)، حتیٰ کے مدینہ سے دور بدر جیسے مقامات کی زیارت کو اپنے لیے متبرک اور باعث ثواب تصور کرتے ہیں۔ مَیں جب بھی مکہ و مدینہ جاتاہوں کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایسی یادگار اور متبرک جگہوں کو دیکھا جائے اور ان کی زیارت کی جائے ، میں یہ سعادت حاصل کرتا رہاہوں۔غار حرا کی زیارت کے لیے میرا جبل حرا پر چڑھنا ممکن نہیں اس لیے تاحال یہ سعادت حاصل نہ کرسکا ، تاہم خواہش موجود ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے کبھی ہمت و طاقت دی تو یہ سعادت بھی حاصل کرونگا۔اسی طرح جبل ثور کے دامن میں تو کچھ وقت گزارا لیکن غارثور تک پہنچنا اب میرے بس کی بات نہیں۔ بدر کی خواہش تھی اس بار پروردگار نے وہ پوری کی اور بدر کا شہر، بدر کا میدان اور شہدائے بدر کی قبروں کو دیکھا اورسلام عرض کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کی تفصیل انشاءاﷲعلیحدہ سے لکھوں گا۔

مدینہ منورہ میں ’وادی جن‘ کے نام سے ایک جگہ ایسی بھی مشہور ہے جو نہ تو متبرک ہے اور نہ ہی اس میں زیارت کا کوئی پہلو نکلتا ہے ۔اسے سعو دیوں کے لیے تفریحی مقام کا درجہ حاصل ہے ۔ اس وادی کا اصل نام ’وادی البیدا‘(Wadi Al-Baida) ہے ۔ یہ وادی مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں 30 کلومیٹر کے فاصلے پر شاہرہ ِ ’خلیل ‘ پر واقع ہے ۔اس کی مزید تفصیل آگے چل کر بیان کرونگا۔ ویسے تو پورا مدینہ ہمارے لیے متبرک اور قابل احترام ہے۔ اس کی ایک ایک گلی، ایک ایک پہاڑ،اس کی مٹی کا ایک ایک زرہ یہاں کا چپہ چپہ ہمارے لیے محترم اور عقیدت لیے ہوئے ہے ۔ سر کارِ دوعالم حضرت محمد ﷺ کے اس شہر مدینہ کی فضاؤں میں، گلیوں میں ، سڑکوں پر، زمین پر ،پہاڑوں پر ، درختوں پر جو نور اور مسحورکن مہک و راحت کی بھینی بھینی خوشبو پائی جاتی ہے وہ دنیا میں کہی اور نہیں۔ یہاں آکر ٹھنڈنک، قلبی سکون، راحت، اطمینان کا احساس جسم میں سرائیت ہوتا محسوس ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ ہم بس اسی مٹی کے ہورہیں۔

گزشتہ برس(2014) جب میں سعودی عرب آیا اور مدینہ میں ایک ہفتہ قیام کیا تو دیگر زیارات کے علاوہ میری خواہش تھی کہ’ وادی جن‘ کو بھی دیکھا جائے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اگر اس جگہ جن موجود ہیں تو لوگ یہاں کیوں اور کس لیے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہاں گاڑیاں انجن بند ہونے کے باوجود خود بہ خود سڑک پر دوڑتی ہیں، بقول لوگوں کے انہیں جنات دوڑاتے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ یہاں کی زمین میں ، یہاں کے پہاڑوں میں مخصوص مقناطیسی قوتMegnetism Force) ( موجود ہے ، کوئی کہتا ہے کہ یہاں کوئی روحانی یا غیر جسمانی قوت(Spiritual Force) ہے جو ایسا کرتی ہے، کیا راز (Mystery) ہے کہ یہاں پہنچ کر گاڑیاں جن کا انجن بند کردیا جاتا ہے سڑک پر دوڑتی ہیں۔میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا، لوگوں کی سنی سنائی باتیں تھیں، کچھ چیزیں لوگوں نے ’یو ٹیوب‘پر بھی ڈالی ہوئی ہیں لیکن تجسس اور حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی لگن تھی ۔ گزشتہ برس مدینہ میں ایک ہفتہ قیام کے دوران شہناز میرے ہمراہ تھیں جب میں نے ان سے وادی جن جانے کا ذکرکیا تو بس ’No ‘ کے سوا کچھ اور سننے کو نہیں ملا، لفظ جن ہمارے لیے خوف لیے ہوئے ہے۔ مختصر یہ کہ میری یہ خواہش دل ہی میں رہ گئی تھی۔ تمام ہی جگہ گئے مسجد قبا، مسجد قبلاطین، سبا ح مساجد، جبل احد، حضرت سلمان فارسی کا باغ، حضرت عثمان ؓ کا’کنواں‘اور دیگر زیارات شامل تھیں ۔اس سال بھی بلاوا آیا اور ہم 8اپریل 2015کو جدہ پہنچے۔ عمرہ کی سعادت حاصل کی اور زیارات بھی کیں۔

یکم مئی بروز جمعہ کی نماز پڑھ کر جدہ سے ہم عدیل کی کارنما جیپ میں مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ شہناز ، میری بڑی بہو مہوش، پوتا صائم اور پوتی حبیبہ پر مشتمل یہ قافلہ عدیل کی رہنمائی میں اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے روضہ مبارک پر سلام عرض کرنے کے ارادے سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں ذکر نبی ﷺ کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ حرم شریف میں نماز مغرب ہورہی تھی اور ہم مدینہ میں داخل ہوکر حرم کے قریب تر اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ نماز مغرب ادا کی اور سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ اگلے روز ہفتہ 2مئی کومدینہ منورہ میں مختلف زیارات کا پروگرام تھا۔ صبح ہی نکل کھڑے ہوئے۔ پھر بھی نکلتے نکلتے دیر ہوگئی، نماز ظہر مسجد قباءمیں باجماعت ادا کی، دو نفل بھی ادا کیے جس سے ہمیں ایک عمرہ کا ثواب بھی مل گیا۔ یہاں سے شہداے احد کو سلام عرض کرنے کا پروگرام تھا، جبل احد کے دامن میں رکے ، شہدا ئے احد کی قبور کی زیارت کی اور سلام پیش کیا۔ اب ہماری منزل ’وادی جن‘ تھی۔ یہ تجویز عدیل کی جانب سے تھی میں تو یہ سن کر دل ہی دل میں خوش ہوگیا، بیگم نے اپنے بیٹے کی بات پر قدر ِ تردد کیا لیکن پھر خاموش ہورہیں یعنی رضامندی تھی ۔ اب ہم جبل احد سے وادی جن یعنی وادی بیدا کی جانب روانہ ہوئے۔

سفر کا مزاہ ہی کچھ اور تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے، موسم ابر آلود تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور مدینہ کے شمال جنوب کی جانب ہماری گاڑی دوڑی چلی جارہی تھی۔ گاڑی میں گفتگو کا مہور جنوں کی وادی ہی تھا۔ شہناز مسلسل اپنے خوف کا اظہار کررہی تھیں لیکن اپنے بیٹے کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم ایک ایسی سڑک پر پہنچ گئے کہ جس کے دونوں جانب کھجور کے خوشنما درخت اوربعد میں اونچے اونچے پہاڑ تھے ۔ سعودی عرب میں عام طور پا سڑکیں دو رویا ہوتیں ہیں یعنی ایک جانے والے دوسری آنے والی لیکن یہ سڑک ایک رویا ہی تھی لیکن صاف شفاف ، اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان دور تک یہ منظر اپنی جاذبیت دکھا رہا تھا۔ دونوں جانب پہاڑو کے بالکل دامن میں جگہ جگہ شیڈ( سائیابان )لگے ہوئے تھے ان سائیابانوں کے نیچے چارو جانب پکی سیمنٹ کی بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی تھیں۔کسی کسی سائیا بان میں کچھ سعودی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے نظر بھی آرہے تھے۔ اندازہ ہوا کہ یہ جگہ باقاعدہ تفریح کے لیے بنائی گئی ہے۔ فضاءمیں پراسرار خاموشی تھی لیکن یہ خاموشی خوف ناک نہیں تھی بلکہ پرسکون تھی۔ اس کی وجہ گاڑیوں کا کم ہونا تھا۔ کوئی اور خوف کی بات نہیں تھی۔ جوں ہی ہم اس علاقے میں داخل ہوئے عدیل نے کہا کہ ابو گاڑی کی اسپیڈ اس طرح کم ہو رہی جیسے ہم اونچائی پر چڑھ رہے ہوں، حالانکہ سامنے جو سڑک نظر آرہی تھی وہاں ایسی کوئی صورت نہیں تھی۔ سڑک ہموار تھی۔ رفتہ رفتہ گاڑی کی رفتار کم سے کم ہوتی گئی لیکن چلتی رہی، دیگر ساتھ چلنے والی گاڑیاں بھی ہماری گاڑی کی طرح سست رفتاری کا شکار تھیں۔ یہ اس بات کااشارہ تھا کہ وہ مقام شروع ہوچکا ہے جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں۔ سٹرک کے کنارے بعض لوگ گاڑی روک کر سڑک پر پانی ڈال کر یہ دیکھ رہے تھے کہ پانی کس رخ پر بہہ رہا ہے۔ یعنی یہاں یہ بھی ہے کہ اگر پانی سڑک پر ڈالا جائے تو وہ سامنے کی سمت نہیں جائیگا بلکہ وہ اس کے بر خلاف بہے گا۔ بعض لوگوں نے گاڑی روک کر بند کردی ، جب ہینڈ بریک نیچے کیا تو گاڑی سامنے کے بجائے پیچھے کی جانب چلنا شروع ہورہی تھی۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا، گاڑی بند کی، جوں ہی ہینڈ بریک نیچے کیا گاڑی پیچھے کی جانب چلنا شروع ہوگئی۔ ہم اس نظارے سے لطف اندوز بھی ہورہے تھے کچھ کچھ خوف بھی ہمیں پریشان کررہا تھا۔اب ہم اور آگے بڑھے ، دیگر گاڑیاں بھی آگے جارہی تھیں۔ آگے جاکر یہ سڑک پہاڑ کے دامن میں ختم ہوجاتی ہے۔ اب تمام گاڑیاں واپس ہونا شروع ہوئیں ہم نے بھی اپنی گاڑی کا رخ واپسی کی جانب کیا اور اب عدیل نے گاڑی بند کردی، سوئچ بھی بند تھا، جوں ہی ہینڈ بریک نیچے کیا گاڑی نے آہستہ آہستہ آگے کی جانب چلنا شروع کردیا، رفتہ رفتہ گاڑی کی رفتار سو سے اوپر تھی۔ اگر بریک لگایا جائے تو گاڑی رک جاتی ، ورنہ اس کی رفتار میں مسلسل تیزی آتی ہے ، ہم نے ایک جگہ سائیابان میں پڑاؤ ڈالا، گاڑی ایک پہاڑ کے دامن میں لے گئے اور اتر کر اس سائیابان میں سب لوگ بیٹھ گئے، مو ضوع یہی وادی اوریہاں کی صورت حال تھی۔ کچھ دیر اس سائیابان میں رکے، کھایا پیا بھی، واپسی کا سفر شروع ہوا، عدیل نے کہا کہ ابو اب آپ گاڑی چلائیں ۔ میں نے اب تک سعودی عرب میں گاڑی نہیں چلائی تھی۔ اس کی وجہ گاڑیوں میں بائیں جانب اسٹیرنگ کا ہونا اور گاڑیوں کا دائیں جانب چلنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ نظام بالکل اس کے برعکس ہے۔ دوسرے میں اب تک آٹو میٹک گاڑی چلانے کا عادی نہیں تھا۔ سعودی عرب آنے سے قبل میں نے چھوٹی آٹو میٹک گاڑی لے لی تھی اور چلانے بھی لگ گیا تھا۔ یہ گاڑی ایک تو بڑی طاقت ور ٹویو ٹا فارچیونر(Fortuner) جیب ہے۔ میں اسے چلانے کا عادی بھی نہیں پھر بھی اس جگہ پر خود کار طریقے سے گاڑی چلنے کا تجربہ از خود بھی کرنا چاہتا تھا۔ ایک روایت یہاں کے بارے میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ بند گاڑی کو ’ جن‘ چلاتے ہیں۔چنانچہ میں نے اسٹیرنگ تک آنے سے قبل گاڑی کے پیچھے اچھی طرح دیکھا کہ کوئی غیر جسمانی مخلوق تو موجود نہیں ، مجھے اس قسم کی کوئی چیز نظر نہیں آئی، اگر موجود بھی ہوگی تو جنات عام لوگوں کو نظر نہیں آتے۔ یہاں ہم نے سڑک پر کچھ پانی بھی گرایا ، پانی کا رخ چڑھائی پر تھا کیونکہ گاڑی قدرِ چڑھائی پر کھڑی تھی۔ یہاں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ واقعی پانی کا رخ بھی ڈھلان کے بجائے اوپر کی جانب ہے۔اب میں نے اسٹیرنگ سنبھالا، ہینڈ بریک نیچے کیا، گاڑی آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگئی، گاڑی کی رفتار دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی، میں بیچ بیچ میں بریک لگا کر اطمینان کررہا تھا کہ گاڑی رک بھی جائے گی یا نہیں، جب بھی بریک لگاتا گاڑی آہستہ ہوجاتی۔ اس طرح میں نے 70 کی اسپیڈ تک گاڑی چلائی، خود ہی محتاط رہا، اب محسوس ہوا کہ گاڑی کی رفتار آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔ گویا یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ وہ مخصو ص جگہ اختتام ہونے جارہی ہے اور گاڑی کی رفتار 20 تک آگئی ، اب میں نے اکسیلیٹر کے ذریعہ گاڑی کو چلانا شروع کیا اور تھوڑی دور جاکر اس تجربے کو ، مشاہدے کوخدا حافظ کہا، اسٹیرنگ سے نیچے آکر پیچھے کی جانب پھر نظر دوڑائی کے شاید کوئی جن بھائی جو یہاں اس قدر محنت کررہے ہیں نظر آجائیں لیکن کوئی بندہ بشر نہیںتھا۔

یہ تو تھا وادی جن کا آنکھو دیکھا حال، جس میں کسی بھی طرح کی مبالغہ آمیزی نہیں اور ضرورت بھی نہیں کہ بلاوجہ وہ بات کی جائے جو نظر نہیں آرہی۔جہان تک کانوں سنی باتوں کا تعلق ہے تو اس سفرسے پہلے اور بعد میں اکثر یہاں کے رہنے والے جو اردو سمجھتے تھے سے اس وادی اور جنات کے بارے میں بات کی اور حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ مجھے مختلف جوابات ملے ، بعض کا کہنا تھا کہ اس خطہ زمین میں یایہاں کے پہاڑوں میں مخصوص مقناطیسی قوتMegnetism Force) ( موجود ہے جوکسی بھی ایسی لوہے کی چیز جس میں ویل لگے ہوں کو مخالف سمت میں چلاتی ہے،لیکن پانی میں تو لوہا نہیں ہوتا وہ کس طرح مخالف سمت بہتا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ یہاں کوئی روحانی یا غیر جسمانی قوت(Spiritual Force) ہے جو ایسا کرتی ہے اس سے مراد جنات ہیں،آخر راز (Mystery) کیا ہے۔اس کا جواب یہاں آکر از خود دیکھ کر ، مشاہدہ کرکے بھی حاصل نہ ہوسکا۔ بعض احباب کا کہنا تھا کہ یہاں ایکسیڈنٹ بہت ہوتے ہیں، مجھے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ واپسی پر جب گاڑیاں بغیر انجن اسٹارکیے، ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھے چل رہی ہوتی ہیں تو چلانے والے کے کنٹرول میں ہوتی ہیں، جو ہی ہم ایکسیلیٹر سے پاؤں اٹھاتے ہیں انجن اپنی طاقت واپس لے لیتا ہے گاڑی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور بریک لگانا آسان ہوتا ۔ ایسی صورت حال میں جب گاڑی بغیر اسٹارٹ کیے 120سے اوپر چلائی جائے گی تو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوگا، یہی وجہ حادثات کا باعث ہوتی ہوگی۔ یہاں پہاڑوں کے دامن میں سٹرک کے کنارے جو سائیابان اور بیٹھنے کی جگہیں بنائی گئیں ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر سعودی رات میں ٹہرتے بھی ہیں، بار بی کیو بھی کرتے ہیں کیونکہ یہاں جگہ جگہ لکڑی کے جلنے اور راکھ کی موجودگی کے آثار پائے جاتے تھے۔ بعض نے یہ بھی بتا یا کہ یہاں رات میں مختلف قسم کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ایک صاحب نے جو زبان سے بنگلہ دیشی لگ رہے تھے نے بتایا کہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہاں جانے والوں میں سے کوئی کوئی ذہنی توازن بھی کھو بیٹھا ہے۔ ایک صاحب نے بتا یا کہ شاہرہ خلیل پہاڑ وں کے اوپر اس طرح بنائی گئی ہے کہ یہ محسوس نہیں ہوتا کہ سٹرک اوپر جارہی ہے جب گاڑی واپس آتی ہے توڈھلان کے باعث گاڑی خود بہ خود چلنے لگتی ہے۔ مجھے یہاں ایسی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ میں نے سعودی عرب کے شہر جیذان سے پہاڑو پر موجود شہر ’فیفائ‘ کا سفر کئی مرتبہ بذریعہ کار کیا پہاڑ کی چڑھائی الگ محسوس ہوجاتی ہے۔ یہ سب سنی سنائی باتیں تھیں، اگر ہمیں عربی زبان آتی تو اس کی حقیقت وہاں کے سعودیوں سے معلوم کرتے لیکن اس چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ وادی کے صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ یہاں جنات وغیرہ یا کوئی غیر جسمانی قوت پائی جاتی ہے جو یہاں آنے والی ہر گاڑی کو دھکا دے کر دوڑاتی ہے۔ویسے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا، جن تو پھر جن ہی ہوتے ہیں ، ہوسکتا ہے ان کے کسی سردارجن نے اپنی قوم کو یہاں اس کام پر لگا دیا ہو۔لیکن یہاں موجود رہتے ہوئے کسی بھی قسم کا ڈر یا خوف محسوس نہیںہوا، جب کہ ہمارے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس پر مزید بہتر تحقیق کرسکتے ہیں۔

اس شاہراہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے شروع میںدونوں جانب کھجوروں کے گھنے باغ موجود ہیں۔ سٹرک کے دونوں جانب جگہ جگہ اونٹوں کے اسٹال لگے تھے جہاں پر اونٹنیاں تھیں۔یہاں پر دراصل اونٹنی کا دودھ بیچا جاتا ہے۔ بعض لوگ اونٹنی کا دودھ لے کر اسی وقت پی بھی رہے تھے۔ ہم نے بھی ایک جگہ رک کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ دودھ ہے یا کوئی اور چیز، تھا تو دودھ ہی لیکن حفظان صحت کے اصولوں کے برخلاف ، صفائی کے فقدان کے ساتھ، اونٹنیاں ہر باڑے میں کئی کئی موجود تھیں اس جگہ میز پر گندے برتنوں میں دودھ بھی تھا۔ بعض لوگ اسی وقت دودھ نکلوا کر لے جارہے تھے۔ اونٹنی کے دودھ کی کیا تاسیر ہے، فوائد کیا ہیں ؟نقصانات کیا ہیں؟۔ اونٹ تو یہاں کی روایتی سواری ، اور تاریخی جانور ہے، یہ یہاں سڑک کے کنارے بڑی تعداد میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اونٹنی پر ہی تو ہمارے نبی ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ جب آپ ﷺ مدنیہ شہر میں داخل ہوئے تو ہر ایک انصاری کی یہ خواہش تھی کہ حضور ﷺ اس کے مہمان بنیں ،ہر کوئی اس بات کو اپنے لیے اعزاز تصور کررہا تھا۔ آپﷺ نے اس موقع پر اونٹنی کو حکم دیا کہ وہ مجھے جہاں ٹہرنے کوکہے گی وہ اس جگہ کو ہی میزبانی کا شرف بخشیں گے۔ ابتدا میں اونٹنی ایک خالی میدان میں رکی، پھر آگے بڑھ کر اس کا منہ حضرت ایوب انصاری کے گھر کی جانب ہوگیا ۔ گویا نبی ﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاری کو یہ اعزاز بخشا ۔ اونٹنی کو ہمارے نبی ﷺ نے استعمال کیا، یقینا وہ انہیں پیاری بھی ہوگی، اس کا گوشت اور اس کا دودھ فائدہ مند ہی ہوسکتا ہے، نقصان دہ نہیں۔مدینہ کی ’وادی جن‘ جس کا تاریخی نام ’وادی البیدا‘(Wadi Al-Baida) ہے، جو شاہرہ خلیل پر واقع ہے کا سفر اختتام کو پہنچا اور ہم اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ (5 مئی 2015، جدہ)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278650 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More