لاپرواہی

کئی والدین سے دنیا کے جھمیلوں اور اپنی انا کے خول میں جکڑا ہونے کے سبب اپنی اولاد سے جان بوجھ کر یا ناتجربہ کار ہونے اور انجانے میں ناقابل تلافی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں جس کا خمیازہ ان کی اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے ،والدین کی کسی بھی دنیاوی غلطی کے ذمہ دار ان کی اولاد نہیں پھر بھی اکثر والدین اپنی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا ذمہ دار اولاد کو ٹھہراتے ہوئے ان پر غم و غصہ کے علاوہ تشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے حالانکہ سب جانتے ہیں بچوں کو کسی بھی قسم کی گزند پہنچانا انسانی حقوق اور بالخصوص انسانیت کے خلاف ہے بچوں پر تشدد کے خلاف انیس سو اٹھانوے میں ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جسے ای۔ پی ۔ او۔ سی۔ایچ ۔یعنی بچوں پر جسمانی تشدد یا سزا کا اختتام کا نام دیا گیا،تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور انہیں بدستور جسمانی اور نفسیاتی چوٹیں پہنچائی جارہی ہیں۔لاپر واہی اور بچوں پر تشدد کے حوالے سے پندرہ سال قبل جرمنی میں قانون بنا دیا گیا تھا کہ اگر بچوں کو کسی بھی قسم کی سزا دی گئی تو حکومتی ادارے متاثرہ بچوں کو والدین سے علیحدہ کر دیں گے اور انہیں اپنی تحویل میں لے لیں گے،والدین کا کہنا تھا اکثر بچے شرارتی ہوتے ہیں یا بے جا ضد کرنے کی صورت میں ہاتھ پھسل جاتا ہے ،اڑتالیس فیصد کا کہنا تھا بچوں کو طمانچہ مارنے کو برا نہیں سمجھتے ،دو تہائی جرمن کبھی کبھار بچوں پر اس لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کی تیز رفتار زندگی اور کشیدگی سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں،اس قسم کے آرگومنٹس کے خلاف جرمن چائلڈ پروٹیکشن ایجنسی نے شدید مذمت کی اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے والدین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت سے اپیل کی ہے کہ بچوں کی پرورش میں کوتاہی ،لاپرواہی اور دنیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے زندگی گزارنے کا ڈسپلن بنایا جائے۔پندرہ سال قبل بچوں کے حقوق، جسمانی سزا، نفسیاتی چوٹ اور دیگر ذلت آمیز اقدامات پر پابندی عائد ہونے کے باوجود بہت کم لوگ قوانین پر عمل کرتے ہیں،حالیہ رپورٹ کے مطابق نوے فیصد جرمن غیر متشدد پرورش کو مثالی قرا ر دیتے ہیں ،لیکن ادارے کا کہنا ہے جرمن یوتھ ویلفیئر آفس زیادہ تر بچوں کو اپنی تحویل میں لے رہا ہے کئی والدین سخت قوانین کے باوجود بچوں پر تشدد کرنے سے باز نہیں آتے اور لاپرواہی برتتے ہوئے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس سے بچے شدید متاثر ہوتے ہیں اور انہی وجوہات کے پیش نظر یوتھ آفس کئی والدین سے بچے زبردستی بھی چھین لیتے ہیں یوتھ آفس کا کہنا ہے دوہزار تیرہ سے بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بیالیس ہزار سے زائد بچوں کو ادارے کی تحویل میں دیا گیا جس کے نتیجے میں کئی والدین لاپر واہی اور پرورش میں غفلت برتنے پر کچھ عرصے کے لئے بچوں سے دور رکھے گئے اور کچھ ہمیشہ کیلئے اپنی اولاد سے ہاتھ دھو بیٹھے،ادارے کا کہنا ہے دوہزار آٹھ کے مقابلے میں اب تک اکتیس فیصد اضافہ ہوا ہے کئی والدین نے اپنی مرضی سے بھی بچوں کو یوتھ آفس کی پناہ میں دیا کیونکہ وہ ان کی پرورش نہیں کر سکتے،پرورش نہ کرنے کی کئی وجوہات ناقابل تذکرہ ہیں، چائلڈ پروٹیکشن ایجنسی کا کہنا ہے حکومت بچوں کے حقوق کے لئے مزید سخت قانون نافذ کرے تاکہ اگر وہ والدین سے علیحدہ ہوں تو سماج میں دلچسپی لینے کو ترجیح دیں اور کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر اپنی نئی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے خود مختار ہوں۔

بچوں کو قوانین کی ضرورت ہے ، سزا دینا لازمی ہے ، بچے پیار سے نہیں مار سے سمجھتے ہیں وغیرہ والدین دوران پرورش اکثر اس قسم کے دلائل دیتے ہیں،لیکن والدین کو کس حد تک بچوں کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنا ہے کوئی نہیں جانتا،بچوں کو کس حد تک نظم و ضبط اور قوانین کی طرف متوجہ کرنا ہے یہ بھی کوئی نہیں جانتا،بچوں کے حقوق پر ایک جریدے نے بچوں کی پرورش پر چند والدین کے پاگل پن کے بیانات شائع کئے جو شاید شائع نہیں کرنا چاہئے تھے۔بچوں پر تحقیق کرنے والے ایک پروفیسر کاکہنا ہے بغیر ڈسپلن ، مخصوص ضرویات زندگی اور تحفظات کے کوئی خاندان بچوں کی پرورش نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں کی پرورش اور والدین کے درمیان تعاون ایک اہم جز ہے یہ تعاون دیگر روز مرہ معاملات سے قدرے مختلف ہے کیونکہ بچے والدین سے سوائے پیار، وقت اور بھر پور توجہ کے اور کچھ نہیں چاہتے اور اچھے برتاؤ کی امید رکھتے ہیں، روزمرہ زندگی کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ ہم بچوں کو بھول جاتے ہیں ، ان کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں، خوفزدہ کرتے اور غیر منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، بچوں کو نہیں معلوم ڈسپلن یا قانون کیا ہوتا ہے جب تک ہم انہیں ہر بات کو انہیں کے انداز، طریقے، اچھے برتاؤ اور تفصیل سے نہیں بتائیں گے وہ شش وپنج میں مبتلا رہیں گے کہ آخر ایسی کونسی چیز ہے جسے ہم سے چھپایا جا رہا ہے،بچوں کی پرورش پر تحقیق کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے بتایا کہ آج بھی دنیا بھر میں کئی والدین بچوں کو شدید جسمانی سزا دیتے ہیں ،امریکا میں اسی فیصد والدین بچوں کو جسمانی سزا دیتے ہیں چالیس فیصد بچوں کو پیٹھ پر مارتے ہیں، گیارہ فیصد منہ پر تھپڑ رسید کرتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے بچوں پر تشدد کا رحجان محض ان کی شرارتیں یا ضد نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے معاملات حل نہ ہونے پر والدین اپنا تمام تر غصہ بچوں پر اتارتے ہیں اور پیٹنا شروع کر دیتے ہیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ والدین کے اس ناروا برتاؤ سے بچوں کو شدید ذہنی ٹھیس پہنچتی ہے ان میں خود مختاری اور خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہوتا ہے اور مستقبل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ جو والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں انکی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے مارتے اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ تم بہت بہادر ہو ، بہت ذہین ہو بڑے ہو پائلٹ یا ڈاکٹر بنو گے وغیرہ ان آرگومنٹس سے بھی بچوں کو مستقبل میں شدید نقصان پہنچتا ہے جب وہ اپنی من پسند یا والدین کی کہی باتوں پر عمل نہیں پاتے ، اپنی کار کردگی ثابت نہیں کر پاتے اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں والدین کو چاہئے محض اپنی دنیاوی خواہشات کی خاطر اپنے بچوں کا مستقبل اور زندگی داؤ پر لگانے سے گریز کریں۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.