گندم کی کٹائی، ونگارکی روداداوربارچوائی

یہ اس دورکی بات ہے جب ہم گھرسے ڈیڑھ کلومیٹر کافاصلہ طے کرکے روزانہ پرائمری سکول جایا کرتے تھے۔یہ وہ دورتھا جب ایک دوسرے کااحساس کیا جاتاتھا۔ یہی وہ دورتھا جب ایک دوسرے کے دکھ دردکو محسوس بھی کیاجاتا اوراسے ختم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔یہی تووہ دورتھا جب دلوں میں خلوص، لہجوں میں اپنائیت ،دوستوں میں مروت اوررشتوں میں محبت باقی تھی۔یہ وہ دورتھا جب بڑوں میں شفقت اورچھوٹوں میں ادب کی خوبصورت عادت تھی۔لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے میلوں سفرکرکے جایا کرتے تھے۔آج کل پنجاب اورسندھ سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کی کٹائی جاری ہے۔ایسا اس سال نہیں ہرسال ہوتاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں جدید ٹیکنالوجی کااستعمال بڑھتا جارہا ہے ۔ اسی طرح گندم کی کٹائی کے اندازبھی بدلتے جارہے ہیں۔پہلے پانچ بچوں کاباپ پانچ سے سات ایکڑگندم تنہا کاشت بھی کرلیتاتھا۔ اس کی دیکھ بھال بھی کرتااوربھراس فصل کوکاٹ بھی لیتاتھا۔ اب پانچ ہٹے کٹے جوان اسی طرح ایک ایکڑپربھی محنت نہیں کرسکتے۔جس دورکی ہم بات کررہے ہیں۔ اس دورمیں ایک دیہی علاقے میں ایک کاشتکاررہا کرتاتھا۔ اب وہ وہاں سے اٹھ کرکسی اورجگہ منتقل ہوچکاہے۔وہ کھیتی باڑی کاکام بھی کرتا تھا۔ اس نے گھرکے نزدیک کریانہ کی ایک دکان بنائی ہوئی تھی۔وہ علاقہ کے بچوں کوقرآن پاک کی تعلیم بھی مفت دیتاتھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔وہ مویشی پالنے کاشوقین بھی تھا۔ درخت بھی لگائے ہوئے تھے۔ کبھی ایک دومویشی فروخت کرکے اورکبھی تین چاردرخت بیچ کرگزربسرکرتاتھا۔بیرون ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندارکی چھ ایکڑقابل کاشت زمین اس کے پڑوس میں تھی۔نہ جانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے اس سے اس کی چھ ایکڑزمین کاشت کرنے کے لیے ٹھیکہ پرلے لی۔اس نے اس زمین میں گندم کاشت کرلی۔ابھی گندم نے کونپلیں ہی نہ نکالیں تھیں کہ بارش آگئی۔ بارش کی وجہ سے زمین پرسخت تہہ جم گئی۔اسے گندم کی بوائی پھرکرنا پڑگئی۔وہ کاشتکاردن رات کھیتوں میں رہتا۔کیونکہ تنہاشخص کے لیے چھ ایکڑفصل میں کام کرناآسان کام نہیں ہے۔اس کے بچے ابھی چھوٹے تھے جواس کاکھیتوں میں ہاتھ نہیں بٹاسکتے تھے۔اس کی فصلات کوسیراب کرنے کے لیے نہری پانی بھی میسرتھا ۔ مگروہ ناکافی تھا۔ اس لیے اسے ٹیوب ویل کے پانی سے فصلوں کوسیراب کرناپڑتاتھا۔اکثروہ کھیتوں میں تنہا کام کرتاتھا۔ اس کی بیوی بھی اس کے کام میں اس کاہاتھ بٹایاکرتی۔ کبھی اس کے رشتہ داربھی اس کی مددکرنے آجایاکرتے تھے۔گندم کی فصل پک کرتیارہوگئی۔آس پاس کے کھیتوں میں گندم کی کٹائی شروع ہوگئی۔ ایک دن وہ گھرمیں بیٹھا مشورہ کررہاتھا کہ چھ ایکڑگندم ہم دوافرادسے تونہیں کاٹی جاسکتی۔اگرہم دوافرادہی اسے کاٹتے رہے تونئی فصل کاوقت بھی گزرجائے گا۔گندم بھی خراب ہونے کااندیشہ ہے۔ اب کیا کیاجائے اورکیا نہ کیاجائے۔ اگرمزدوری بھی کٹواتے ہیں توٹھیکہ بھی دیناہے ۔ وہ کیسے دیں گے۔کافی سوچ بچارکے بعد یہ طے پایا کہ ایک دن کے لیے ونگاربلالی جائے۔ دن طے کرلیاگیا۔پھرسب رشتہ داروں کواس ونگارکی اطلاع دے دی گئی۔ونگارکے کھانے پینے اوران کے دوپہرکے وقت سستانے کے انتظامات بھی کرلیے گئے۔مقررہ دن صبح سورج نکلتے ہی کم وبیش پچاس افراداکٹھے ہوگئے۔نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت کی گونج میں بسم اﷲ شریف پڑھ کرگندم کی کٹائی شروع کردی۔ظہرکی نمازسے پہلے وہ یہ چھ ایکڑگندم کاٹ چکے تھے۔ظہرکی نمازکے وقت وہ اس کاشتکارکے گھرآگئے۔ سب نے وضوکرکے جماعت کے ساتھ نمازاداکی۔اس ونگارمیں مردوں کے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ مردگندم کاٹتے رہے۔ جبکہ خواتین ان کے کھانے پینے کاانتظام کرتی رہیں۔جب وہ نمازپڑھ چکے توان کے لیے بچھائی گئی چارپائیوں پروہ دودو،تین تین اورچارچاافرادایک ایک چارپائی پربیٹھ گئے۔چارپائیاں درختوں کے سائے کے نیچے بچھائی گئی تھیں۔چارپائیون کے نیچے اوراردگرداچھی طرح پانی سے چھڑکاؤکیاگیاتھا تاکہ ونگاریوں کوزیادہ گرمی محسوس نہ ہو۔اس دن آہستہ آہستہ ہوابھی چل رہی تھی۔ جواس پانی کے چھڑکاؤ سے گزرکرونگاریوں کوبھلی معلوم ہورہی تھی۔برف کاٹھنڈاپانی اوردیہات کی روایتی لسی لاکررکھ دی گئی۔دولڑکے ان ونگاریوں کوپانی اورلسی پلانے پرمامورکردیے گئے۔اتنی دیرمیں تنورپرپکائی گئی گرم گرم نرم ملائم روٹیاں اورخرگوش کے گوشت کامزے دارسالن سب کے سامنے رکھ دیاگیا۔ونگاری کھانا بھی کھاتے رہے اورتھکان دورکرنے کے لیے خوش گپیوں میں بھی مصروف رہے۔جب وہ کھاناکھاچکے توان کے لیے گائے کے دودھ کی چائے بنائی گئی۔ چائے پی کروہ سستانے کے لیے لیٹ گئے۔عصرکاوقت ہوا۔ تووہ بیدارہوگئے۔ سب نے ایک بارپھرتازہ وضوکیا۔عصرکی نمازجماعت کے ساتھ اداکی۔ پھرکھیتوں کوروانہ ہوگئے۔وہ کھیتوں میں کاٹی گئی گندم کی گٹھیاں بنانے میں لگ گئے ۔ کوئی گٹھیوں کوباندھنے کے لیے کھجورکے نرم نرم تنوں سے بنائی گئی رسیاں بچھائے جارہا تھا۔اٹھا اٹھاکراس پرڈال رہا تھا۔ دودوافرادمل کران گٹھیوں کوباندھے جارہے تھے۔ادھرنمازمغرب کی اذانین بلندہوئیں ادھروہ گندم کی گٹھیاں باندھ کرفارغ ہوگئے۔ سب نے نمازمغرب جماعت کے ساتھ اداکی۔ پھروہ سب اپنے اپنے گھروں کودعائیں دیتے ہوئے اوروصول کرتے ہوئے چلے گئے۔رات ہوئی تووہ کاشت کاربڑاخوش تھا کہ جوکام وہ کئی ہفتوں میں بھی نہ کرسکتا تھا۔وہ ایک ہی دن میں ہوگیا۔عشاء کی نمازاداکرکے وہ کاشتکاراوراس کے گھروالے گہری نیندسوگئے۔صبح ہوئی توسب گھروالے بیدارہوئے۔ حسب معمول نمازفجراداکی۔ قرآن پاک کی تلاوت کی۔کاشتکاراوراس کے بچوں نے مل کرگھرمیں باندھے ہوئے مویشیوں کی دیکھ بھال کی۔ ان کاگوبروغیرہ صاف کیا۔ کاشتکارکی بیوی نے پہلے دیہات کی روایتی لسی تیارکی۔ پھر ناشتہ بنایا۔ابھی وہ ناشتہ کرہی رہے تھے کہ ونگاریوں میں سے پانچ سات رشتہ دارپھر آگئے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔کاشتکارنے ان رشتہ داروں کی خاطرتواضع کے بعدآنے کاسبب پوچھا تووہ کہنے لگے کہ کل (گذشتہ) توگندم کی گٹھیاں باندھ دی گئیں تھیں۔ شام ہوگئی تھی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے تھے۔ گندم کی گٹھیاں زیادہ ہیں ان کے ڈھیربھی لگانے ہیں۔ہم نے سوچا یہ کام بھی تم لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ تمہیں چارسے پانچ دن لگ جائیں گے۔ہم جاکران گٹھیوں کاڈھیرلاگادیتے ہیں۔کھیتوں میں جاکرانہوں نے ان گٹھیوں کے دوبڑے بڑے ڈھیرلگادیے۔عصرکی نمازکے وقت وہ ڈھیرلگاچکے تھے۔ نمازاداکرکے یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوگئے کہ جس دن تھریشربلواناہمیں ضروراطلاع کرنا۔ ہم تمہاری مددکرنے ضرورآئیں گے۔گندم کی گہائی کے سیزن میں تھریشریں دن رات مصروف ہوتی ہیں۔وہ کسی کودن اورکسی کورات کاوقت دیتے ہیں۔وہ قریب قریب کے ڈھیروں کی گہائی ایک ہی ترتیب سے کرتے ہیں۔اس کاایک فائدہ تویہ ہوتا ہے کہ تھریشروالوں کوبارباران کھیتوں میں آنانہیں پڑتا۔ جس سے ان کووقت اورڈیزل کی بچت ہوتی ہے۔دوسرافائدہ یہ ہوتاہے کہ جب کسی ایک ڈھیرکی گہائی شروع ہوتی توآس پاس کے کاشتکارچوکس ہوجاتے تھے۔جس کاڈھیراس ڈھیرکے نزدیک ہوتاتووہ تھریشروالوں سے پوچھتا رہتا کہ یہاں سے کب فارغ ہوکراس کے ڈھیرکی گہائی کرنے آرہے ہو۔ وہ اندازے سے وقت بتادیتے۔نزدیکی کاشتکارمقررہ وقت سے پہلے اپنی تیاریاں مکمل کرلیتاتھا۔اسی طرح اس کاشتکارکے کھیتوں میں بھی ایک دن تھریشرآگئی۔اس دورمیں گندم کاڈھیرلگایا جاتاتھا۔ گندم زیادہ ہوتی تودودوتین تین ڈھیربھی لگادیے جاتے تھے۔ جس کے لیے زمین پرپہلے سے صفائی کردی جاتی تھی تاکہ گندم صاف رہے۔ تھریشرسے نکالتے ہی بوریوں میں نہیں ڈالی جاتی تھی۔تھریشربھی آگئی۔گندم کی گہائی میں اس کاہاتھ بٹانے کے لیے رشتہ داربھی آگئے۔ریت اڑاکرہواکارخ معلوم کیا گیا تاکہ بوسہ اس طرف چھوڑاجائے جس طرف ہواہو۔ٹریکٹرکی مدد سے تھریشر چل رہی تھی۔دوافرادباری باری گندم کی گٹھیاں تھریشرمیں ڈال رہے تھے۔ ایک تھک جاتاتودوسراگٹھیاں ڈالنے لگتا۔دوتین افرادگٹھیاں ان کے نزدیک کررہے تھے۔تاکہ انہیں اٹھانے میں مشکل کاسامنانہ کرناپڑے۔گندم خوشوں سے الگ ہوکرتھریشرکے نیچے بنائی گئی مخصوص جگہ سے باہرآرہی تھی۔اس مخصوص جگہ کے نیچے برتن رکھنے کے لیے چھوٹاساگڑھاکھوداگیاتھا۔ چارلڑکے تھریشرسے نکلی ہوئی گندم تغاریوں میں بھربھرکرچندقدم کے فاصلے پرڈھیرلگاتے جارہے تھے۔انہوں نے اس گٹھیوں کے اس ڈھیرسے گندم کے دوڈھیربنائے۔جب اس ڈھیرکی گہائی مکمل ہوئی توسب نے کھاناکھایا ۔ چائے پی۔ پھر تھریشر دوسرے ڈھیرکی گہائی کے لیے اس کے پاس لے جائی گئی۔گٹھیوں کے دوسرے ڈھیرکی گہائی بھی پہلے ڈھیرکی طرح مکمل ہوئی۔دوافرادنے مل کرگندم کے وزن کااندازہ لگایااس کے مطابق تھریشر والے کوگہائی کی مزدوری دی گئی۔تھریشر والے اوراس کاشتکارکی مددکے لیے آئے ہوئے اس کے رشتہ داراپنے اپنے گھروں کوچلے گئے۔اس کاشتکاراوراس کے بچوں نے گندم کے ڈھیروں کوہرطرف سے درست کیا۔کاشتکارنے ڈھیرکے اردگردلکڑی سے لکیرلگائی جسے کڑادیناکہتے ہیں۔ کہتے ہیں اس طرح گندم حفاظت میں رہتی ہے۔ دل میں کچھ پڑھ کے گندم کے ڈھیرپرتین پھونکیں ماریں۔ گندم کے چاروں ڈھیروں پریہی عمل کرکے وہ گھرآگیا۔چارسے پانچ دن کے بعد اس نے بستی میں اعلان کردیا کہ کل صبح دن چڑھے ہم اپنی گندم اٹھائیں گے۔دوسرے دن مقررہ وقت پروہ کاشتکارگھرسے ہاتھ میں پکڑنے والابڑاترازو،پانچ کلوگرام، دوکلوگرام ،ایک کلوگرام، پانچ سوگرام اوردوسوگرام کے اوزان لے کرگندم کے ڈھیروں کے پاس پہنچ گیا۔اس کے بچے اوربیوی خالی بھی بوریاں اورپولی تھین بیگ لے کرپہنچ گئی۔وہ ترازوسے گندم کاوزن کرکرکے بیوی بچوں کی مددسے بوریوں میں ڈالتاگیا۔چوتھاڈھیرنصف وزن کیا تھا کہ اس نے وزن کرنابندکردیا۔محلہ کے بچے ،بچیاں، اﷲ کے نام پرمانگنے والے اکٹھے ہوچکے تھے۔ اس کاشتکارنے سب سے پہلے چھوٹے بچوں میں سے ہرایک کودوکلوگرام گندم دی۔اس کے بعد اﷲ کے نام پرمانگنے والوں کوفی کس ایک کلوگرام گندم دی۔پھراس نے بہنوں ، بھتیجیوں، بھانجیوں اوردیگررشتہ دارخواتین کے لیے ہرایک کے لیے پانچ پانچ کلوگرام الگ کرلی۔اس کے بعد اس نے گاؤں کے ہیرڈریسر کے لیے دس کلوگرام گندم الگ کرلی۔اس کے بعد بچوں کوقرآن پاک پڑھانے والے معلم قرآن کے لیے ساٹھ کلوگرام ، بستی کی مسجد کے امام پیش کے لیے چالیس کلوگرام ، علاقے کے مولوی صاحب کے لیے بیس کلوگرام،غرباء اورفقراء کے لیے پچاس کلوگرام گندم الگ کرلی ۔اس عمل کودیہاتی زبان میں بارچوائی کہتے ہیں ۔اس کے بعد جوگندم بچ گئی ۔ وہ اس نے وزن کرکے بوریوں میں بندکرلی۔اس کے بعد اس نے گھرکے استعمال کے لیے سال بھرکے لیے گندم گھرروانہ کردی۔اس کے بعدجوگندم بچی وہ اس نے گدھاریڑھی پرلوڈکراکے شہرفروخت کرنے کے لیے شہرمیں آڑھتی کے پاس بھیج دی۔

اس دورمیں اوراس سے پہلے دیہات میں رہنے والے سادہ مسلمان صبح کے وقت گندم کی کٹائی کے ایام میں نمازفجر اداکرتے،مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے، ناشتہ کرکے گندم کاٹنے کے لیے کھیتوں کوروانہ ہوجاتے۔اکژدیہاتی گندم کی کٹائی مزدوری پرکرتے ہیں ۔ فی ایکڑ ایک بوری گندم کٹائی کی مزدوری میں دی جاتی ہے۔لیکن اب جدیدٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے گندم کی کٹائی کے اندازبھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔اب تومشینیں آتی ہیں ۔ ایک ہی دن میں ایکڑوں گندم کاٹ کرچلی جاتی ہیں۔اب مزدوری پرگندم کی کٹائی کارواج کم ہوتاجارہا ہے۔اب ونگارکادوربھی نہیں رہا۔پہلے گندم کے ڈھیرلگائے جاتے تھے۔پھرکئی دن بعد گندم کاوزن بھی کیاجاتاتھا ۔ اس تحریر میں ونگارکی رودادمیں جن کرداروں کاذکرہوچکاہے۔ ان سب کو گندم دی جاتی تھی۔اب گندم کے ڈھیرنہیں لگائے جاتے تھریشرسے نکالتے ہی بوریوں میں بھرکر اسی وقت منڈیوں میں بھیج دی جاتی ہے۔اب چھوٹے بچوں، مولوی صاحب، رشتہ داروں اورغریبوں کوگندم نہیں دی جاتی۔پہلے گندم کی خیرات کی جاتی تھی۔جس کی وجہ سے گھرمیں برکت ہوتی تھی۔ کھیتوں میں بھی برکت ہواکرتی تھی۔اب تھریشر سے نکالتے ہی بوریوں میں ڈال کرمنڈیوں میں بھیج دی جاتی ہے۔پہلے فی ایکڑپیداوارکم تھی تاہم اس میں برکت ہواکرتی تھی۔اب فی ایکڑپیداوارمیں اضافہ ہوچکاہے ۔لیکن اس میں برکت نہیں رہی۔صدقہ خیرات کرنے سے گندم سمیت کوئی چیزکم نہیں ہوجاتی بلکہ اس میں خیروبرکت آجاتی ہے۔اﷲ پاک، اس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اورمخلوق خداکے حقوق اداکرنے سے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کااستعمال ضرورکیاجائے تاہم اپنی ثقافت اوراقدارکونہیں چھوڑناچاہیے۔بارچوائی ہماری ثقافت کاحصہ بھی ہے اورہماری اقدارکاتسلسل بھی۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300156 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.