آلوؤں کی نئی قسم٬ پاکستانی کسانوں کی خوش قسمتی

دنیا میں آلوؤں کی پانچ ہزار سے زائد اقسام ہیں لیکن ماہرین نے اب آلوؤں کی ایک ایسی قسم تیار کی ہے جسے آلوؤں کی دنیا میں انقلاب پرپا کردیا ہے- جی ہاں حال ہی میں ہالینڈ میں آلوؤں کی ایک ایسی قسم تیار کی گئی ہے، جس کی پیداوار نمکین یا کھارے پانی سے بھی ممکن ہے۔ یہ تجربہ لاکھوں پاکستانی کسانوں کے حالات تبدیل کر سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے شمالی ساحلی جزیرے ٹیکسل پر واقع کھیت اُس سوال کا جواب ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو کس طرح پورا کیا جائے؟ اس جزیرے پر ایسی سبزیوں اور آلوؤں کی اقسام پیدا کرنے کے تجربے کیے جاتے ہیں، جن کی میٹھے کے بجائے نمکین اور سمندری پانی سے بھی پیداوار ممکن ہو سکے۔ اس جزیرے پر سائنسدانوں کی جو ٹیم اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے سربراہ مارک فان رائسل بیرخا ہیں اور انہوں نے وہاں تیس اقسام کے آلو اُگا رکھے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر انتہائی سادہ ہے، ’’ہر وہ پودا جو نمکین پانی میں ختم ہو جاتا ہے، اسے پھینک دیا جائے اور جو زندہ رہتا ہے، اس پر تحقیق جاری رکھی جائے۔‘‘
 

image


وہ بتاتے ہیں کہ تجربات صرف آلوؤں پر نہیں کیے جا رہے بلکہ نمکین پانی سے کئی دیگر فصلیں بھی اُگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مثال کے طور پر گاجر، سٹرابیری، پیاز اورسلاد وغیرہ۔ ساٹھ سالہ فان رائسل بیرخا نے ’نمکین آلو فارم‘ کا آغاز دس برس پہلے کیا تھا اور انہیں ایمسٹر ڈیم یونیورسٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کے مطابق دنیا بھر میں آلوؤں کی پانچ ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ دنیا کی چوتھی مرغوب ترین غذا بھی ہے۔

تحیقق کی دنیا میں زیادہ تر توجہ فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے پر مرکوز ہے لیکن ہالینڈ کی یہ ٹیم ایسی زمین پر فصلیں اُگانے کے لیے کام کر رہی ہے،جسے ناقابل کاشت سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پانی، ماحولیات اور صحت کے مطابق دنیا کے 75 ممالک میں روزانہ پانچ ہزار ایکڑ رقبہ نمکین پانی کی وجہ سے ناقابل کاشت ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں کامیاب تجربہ
ماہرین کے مطابق پاکستان کے دریائے سندھ، چین کے دریائے زرد اور شام و عراق کے دریائے فرات کے مضافات میں ناکارہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے طریقے انتہائی مہنگے ہیں۔ مارک فان رائسل بیرخا کے مطابق ان کی ٹیم نے ہزاروں آلو پاکستان بھیجے تھے، جہاں ان کا تجربہ ’’کامیاب‘‘ رہا ہے جبکہ آئندہ برس زیادہ پودے بھیجے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ آلوؤں کی یہ قسم متاثرہ علاقوں میں ہزاروں کسانوں کی زندگیاں تبدیل کر دے گی۔
 

image

یورپ میں آلوؤں کی پیداور کا آغاز سولہویں صدی میں اس وقت ہوا تھا، جب یہ لاطینی امریکی ملک پیرو سے درآمد کیے گئے تھے۔ یورپ میں یہ اس وجہ سے بھی مشہور ہوئے کہ یہ سستے تھے اور ان کی پیداوار بھی مشکل نہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مغربی باشندوں کا اس فصل پر انحصار اس قدر بڑھ چکا تھا کہ انیسویں صدی میں آئرلینڈ میں آلوؤں کے قحط کی وجہ سے حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔

محققین کے مطابق نمکین ماحول میں پیدا ہونے والے آلو زرخیز زمین پر اگنے والے آلوؤں کی نسبت زیادہ میٹھے ہوتے ہیں کیونکہ یہ پودوں کو نمکیں ماحول کے خلاف مزاحمت کے لیے زیادہ شوگر پیدا کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جذب کیا گیا نمک پتوں اور تنے تک محدود رہتا ہے جبکہ آلو اس سے محفوظ رہتے ہیں۔

عام آلوؤں کی نسبت ان آلوؤں کی قیمت بھی کم ہے جبکہ عام حالات میں ان کی پیداوار فی ہیکٹر تقریباﹰ تیس ہزار کلو جبکہ سازگار حالات میں ساٹھ ہزار کلو رہتی ہے۔ مارک فان رائسل بیرخا کے مطابق بنگلہ دیش، مصر اور بھارت نے بھی سالٹ پروف فصلوں کے لیے ان کی مدد مانگی ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

A small field on an island off the Netherlands' northern coast promises one answer to the problem of how to feed the world's ever-growing population: potatoes and other crops that grow in saltwater.