کارِخیر سے الخیر فاؤنڈیشن تک

اس مادہ پرستی کے دورمیں سودوزیاں سے بے نیازاور اپنے صادق جذبوں کے ساتھ انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنیوالی شخصیات کادم غنیمت ہے۔ضرورت مندوں اور مصیبت زدوں کی حقیقی خدمت وہی ہے جو شہرت کی بھوک مٹانے کیلئے نہ کی جائے۔دوسروں کے آرام کیلئے خود بے آرام ہونیوالے انسانیت کے ماتھے کاجھومر ہیں ۔عبدالستار ایدھی کی طرح الخیرفاؤنڈیشن کے سربراہ امام قاسم رشیداحمد آفت زدہ اورمصیبت زدہ انسانوں کیلئے مسیحاکی حیثیت رکھتے ہیں۔پاکستان میں قدرت کاغضب ز لزلے کی صورت میں ظاہرہو یا ہمارے کھیت کھلیانوں کوسیراب کرنیوالے دریاؤں کاپانی موت بن جائے الخیرفاؤنڈیشن کے سربراہ امام قاسم رشید احمدکسی نجات دہندہ کی طرح اپنے ٹیم ممبرزکے ہمراہ مصیبت زدگان کی بحالی وآبادکاری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔الخیرفاؤنڈیشن کوجنوبی پنجاب میں سیلاب سے شہیدہونیوالی سینکڑوں مساجد کی تعمیرنوکابیش قیمت اعزازحاصل ہے۔برطانیہ اوریورپی ملکوں میں مقیم اوورسیزپاکستانیوں سمیت انسانیت کادردمحسوس کرنیوالے لوگ عطیات اورصدقات کے سلسلہ میں امام قاسم رشیداحمد کے نام اورکام پربھرپوراعتمادکرتے ہیں ۔کوٹ ادو کے نزدیک احسان پورمیں ایک شاندارجامعہ مسجداورمڈل سکول کی عمارت سمیت تقریباً چارسوپختہ گھروں کی تعمیر اوران گھروں کی متاثرین سیلاب میں مفت تقسیم الخیرفاؤنڈیشن کاایک اہم اوربڑامنصوبہ ہے ۔پچھلے برس ایک خوبصورت تقریب میں امام قاسم رشیداحمد، سابق گورنرپنجاب چودھری محمدسرور اورملتان سے سابق ایم این اے رانامحمودالحسن نے متاثرین سیلاب کوگھروں کی چابیاں دیں اوراس کے بدلے میں انہیں ڈھیروں دعائیں ملیں ۔اس تقریب کے بعد سابق گورنرچودھری محمدسرورنے امام قاسم رشیداحمد کے ہمراہ بذریعہ ہیلی کاپٹر مدرسہ دارلعلوم اسلامیہ جتوئی جانا تھا مگراچانک موسم کی خرابی کے سبب چودھری محمد سرور وہاں سے واپس لاہورکیلئے روانہ ہوگئے جبکہ امام قاسم رشیداحمد مسلسل اورشدیدبارش کے باوجود بذریعہ سڑک دارلعلوم اسلامیہ کی تقریب میں شریک ہوئے ۔ دارلعلوم اسلامیہ جتوئی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں صرف یتیم اورمسکین بچے داخل کئے جاتے ہیں ،ان بے سہارا بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی مفت دی جاتی ہے ۔اس مدرسہ میں زیرتعلیم بچوں کو رہائش اورتین وقت خوراک سمیت دوسری ضروریات زندگی کی فراہمی الخیرفاؤنڈیشن کے سربراہ امام قاسم رشیداحمد کرتے ہیں۔کارِخیر کے سلسلہ میں الخیرفاؤنڈیشن کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔الخیرفاؤنڈیشن کی ماہانہ مالی اعانت سے سینکڑوں گھروں میں چولہے جلتے اوربچے زیورتعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں جبکہ کئی بیمارانسانوں کوان کی دہلیزپر ہرقسم کی ا دویات ملتی ہیں۔کوٹ ادو،مظفرگڑھ،راجن پور اورمانسہرہ سمیت مختلف شہروں اورآبادیوں میں الخیرفاؤنڈیشن کی فری ڈسپنسریاں اپنافعال کرداراداکررہی ہیں۔تھرمیں الخیرفاؤنڈیشن کی طرف سے تقریباًتین سوکنوے تعمیر کرائے گئے ہیں ۔

پچھلے دنوں راقم کوبرادرم احسن ظفراقبال کے ہمراہ دارالعلوم اسلامیہ جتوئی کی ایک پروقارتقریب تقسیم انعامات اوردستاربندی میں جانے کااتفاق ہوا۔ یہ مدرسہ اسلامی طرزتعمیرکاحسین شہکاراورمنتظم ومعلم مولانا یحییٰ عباسی کے اعلیٰ ذوق کاآئینہ دار ہے ۔سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولاناعبدالغفورحیدری اس تقریب سعیدکے مہمان خصوصی جبکہ سراپااخلاص مولانایحییٰ عباسی میزبان تھے۔تقریب کاحسن انتظام قابل دیداورقابل دادتھا۔مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے خطاب میں قران مجید کی تعلیمات اور مدارس کی اہمیت پرروشنی ڈالی اورتقریب کے اختتام پردعاکرائی ۔راقم سمیت جمعیت العلماء پاکستان پنجاب کے امیر ڈاکٹرعتیق الرحمن،صوبائی جنرل سیکرٹری مفتی مظہراسدی اورصدیق عباسی سمیت مختلف مقررین نے بھی تقریب سے خطاب کیا اورمدارس کی بندش کے سلسلہ میں حکومت کے عاقبت نااندیشانہ اورمتعصبانہ اقدامات کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایا جبکہ مختلف تجاویزدیں۔ اسلام اورمدارس کے ساتھ دہشت گردوں کاتعلق جوڑنے والے عہدحاصر کے ابوجہل ہیں۔اسلام نے ہمیں حیوان سے انسان بنایا،جواچھامسلمان نہیں وہ اچھا انسان نہیں بن سکتا۔اسلام پرتنقیدکرنیوالے اسلام کامطالعہ کریں ،جس انسان کواسلام کے مفہوم کاعلم نہیں وہ اس دین فطرت کیخلاف ہرزہ سرائی بندکرے ۔اسلام نے انسانوں کوشعور دیا اورایک اچھی زندگی گزارنے کیلئے ان کے حقوق وفرائض متعین کئے ۔اسلام توکسی انسان کوجان سے مارناتودرکنار کسی درخت کوناحق کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام نے قیدیوں کوحقوق دیے اورنعشوں کے احترام کادرس دیا ۔اب تک ہونیوالے خود کش حملوں میں ملوث کئی نعشوں پرٹیٹوبنے ہوئے تھے اورکچھ کاختنہ بھی نہیں ہو اتھا ۔جہاں دلیل نہیں ہوتی وہاں گولی اورگالی کاسہارالیا جاتا ہے ،مدارس کیلئے ضابطہ اخلاق کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگران کی بندش کاکوئی جواز نہیں ہے۔

جنونی اورخونیں بھارت کی طرف سے 1965ء اور1972ء میں پاکستان کیخلاف جارحیت کے نتیجہ میں ہزاروں پاکستانیوں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں سترہ ہزارسے زیادہ کشمیریوں کی شہادت اورحالیہ آبی جارحیت کے زورپرہماری زراعت پرشب خون مارنے اورآئے روزورکنگ باؤنڈری پرگولے باری کے باوجودآج تک اسلام آبادمیں بھارت کاسفارت خانہ بندہوانہ بھارت کے ساتھ تجارت بندہوئی۔بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں کو تختہ دار پرلٹکانے کے باوجود اس کاسفارت خانہ کام کررہا ہے۔جعلی ڈگریوں والے ارکان کونااہل کیا جاتا ہے اسمبلیاں ختم نہیں کی جاتیں۔ اگرکسی جعلی ڈاکٹر کے ہاتھوں مریض کی جان چلی جائے توہسپتال کیخلاف نہیں اس ڈاکٹرکیخلاف قانونی کاروائی ہوتی ہے۔نوے کی دہائی میں لاہورسمیت ملک بھرکے تعلیمی اداروں میں مختلف طلبہ تنظیموں نے ایک دوسرے کے متعدد رہنماؤں اورکارکنوں کوقتل کیا ، مختلف تعلیمی اداروں کے بوائزہاسٹلز سے کئی بار اسلحہ برآمدہوامگرکوئی تعلیمی ادارہ بندنہیں کیا گیا۔ ہرروزکسی نہ کسی ہوٹل سے جوڑے رنگ رلیاں مناتے گرفتارہوتے ہیں مگرآج تک کوئی ہوٹل بندنہیں ہوا،کئی بڑے ہوٹل شراب فروخت کرتے ہیں مگرکسی حکومت نے آج تک ایسا کوئی ہوٹل سیل نہیں کیا ،کئی سرکاری ونجی ہسپتالوں میں مجرمانہ غفلت سے مریض مارے گئے مگر کسی ہسپتال کوتالے نہیں لگائے گئے ۔لاہوراورکراچی کے ریس کلب میں سرعام جواہوتا ہے مگرآج تک کسی حکمران کوانہیں بندکرنے کی جسارت نہیں ہوئی توپھروہ مدارس جہاں اﷲ تعالیٰ کاقرآن اورحضرت محمدؐ کافرمان پڑھایاجاتا ہے ہمارے حکمران کس زعم میں ان کی بند ش کے درپے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کوخالی ڈاکٹرز،پروفیسرز اورانجینئرز نہیں بلکہ عالم دین اور''غازی علم دین''بھی چاہئیں کیونکہ ڈاکٹریاپروفیسرہمارے نکاح اورجنازے نہیں پڑھاسکتے ۔

حکومت کی ناکامی اورنااہلی کاملبہ مدارس پرنہ گرایاجائے،افسوس سانحہ پشاوراورسانحہ تھر کے باوجودحکومت کی ترجیحات درست نہیں ہوئیں۔مدارس کیخلاف منفی پروپیگنڈے کی رَٹ لگانے سے حکومت کی رِٹ بحال نہیں ہوگی۔ حکومت بیرونی ڈکٹیشن پراپنی ڈائریکشن نہ بدلے ، دہشت گردی کے ساتھ ساتھ تھرکی صورتحال پر بھی فوکس کرے جہاں بھوک کابارودمعصوم بچوں کونگل رہا ہے۔کیا امریکہ ،اسرائیل اوربھارت کو دہشت گردی کی تربیت ہمارے مدارس نے دی ہے ،کیا جاپان پرکسی مولوی نے ایٹم بم گرا یا تھا۔ کیاراجیوگاندھی پرخودکش حملے میں ملوث شخص مسلمان تھا۔اسلام میں خودکشی اورکسی انسان کاناحق قتل کرنا حرام ہے لہٰذاء خودکش حملے اوربم دھماکے اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔دہشت گردوں اوردرندوں کاصفایا کرناپاکستان سمیت ہرریاست کافرض اوران پرانسانیت کاقرض ہے مگراس آڑمیں اسلام اور اسلامی مدارس کامیڈیاٹرائل نہ کیا جائے۔ اسلامی مدارس میں صرف اسلام اورانسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں کہیں دہشت گردی کادرس دیاجاتاہے وہاں ضرور پابندی لگائی جائے۔ بیرونی دباؤکے سبب حکمران دوست اوردشمن میں تمیز اورتفریق کرنے سے قاصر ہیں۔ مدارس دین اسلام کے فروغ کیلئے نرسری کاکام انجام دے رہے ہیں ،اسلام دشمن قوتوں کی خوشی کیلئے مدارس پرشب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ مدارس کیلئے باہمی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق ضرور بنایا اورآزادذرائع سے مستقل طورپر ان کی سرگرمیوں کاجائزہ لیاجائے ۔پاکستان اوراسلام کومدارس نہیں بلکہ ان نام نہاداورگھوسٹ این جی اوزسے خطرہ ہے جوبیرونی ایڈ کیلئے پاکستان اوراسلام کیخلاف ہونیوالی سازشوں میں شریک ہیں۔مدارس کی بجائے مقتدرقوتوں کی وظیفہ خوراین جی اوزکے اثاثوں کی چھان بین کی جائے ۔ خون اورجنون کاراستہ اسلام کاراستہ نہیں۔سانحہ پشاورنے عارضی طور سیاسی قیادت کومتحد اورمستعدکردیامگریہ اتحاد بھی سیاست کی نذرہوگیا۔ مدارس اورمساجد نہیں صرف دہشت گردوں کوہدف بنایا جائے۔اسلام اورمدارس سے دہشت گردی کاکوئی تعلق نہیں،ریاست مدارس کیخلاف شرانگیز پروپیگنڈے کاموثرجواب دے ۔ اسلام امن و سلامتی کا علمبردار ہے ،ریاست توپوں کارخ مدارس کی طرف موڑنے کی بجائے دہشت گردوں کاتعاقب اورصفایا کرے ۔کوئی اسلامی مدرسہ یاسچامعلم دہشت گردوں کے حامی نہیں ہوسکتا ۔ مدارس پرانگلی اٹھانادرحقیقت اسلام پرانگلی اٹھانا ہے،اس سے گریزکیاجائے ۔ہرمذہب اورملک میں شرپسندعناصر موجود ہیں لہٰذاء اسلام سمیت کسی مذہب کوتنقیدکانشانہ نہیں بنایاجاسکتا۔ اسلام صرف پاکستان کی بنیاد نہیں بلکہ ہماری بقاء کارازبھی اسلام میں مضمر ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.