یمن میں سعودی قیادت میں عرب اتحادکے فضائی حملے اور ۰۰۰

پاکستان آخر کس کس کے ساتھ دوستی کا حق ادا کر پائے گا۰۰۰

سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی جانب سے حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں کئے جانے والے گذشتہ ایک ماہ سے جاری فضائی حملے کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر بند کردیئے تھے لیکن چند گھنٹوں کے بعد دوبارہ حملے کئے گئے۔لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے خرچے سے سعودی عرب اتحاد نے یمن سے حوثی باغیوں کو پسپا کرنے اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنے کیلئے فضائی حملے کئے جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن پر حملے بند کئے جانے پر تجزیہ نگاروں کی مختلف آرائیں سامنے آئیں ، کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر بارک اوباما کے درمیان جمعہ کے روز بات چیت کا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ فضائی حملے بند کردیئے گئے ہوں یا ایران کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکی یا پھر کوئی اور وجہ۔ حوثی باغیوں نے جس طرح یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے21؍ ستمبر2014کو انہیں دارالحکومت صنعا میں انکے گھر پر نظر بند کردیا تھا اور اسکے بعد صدر ہادی کسی طرح صنعا سے فرار ہوکر یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن پہنچ گئے تھے اور وہاں سے صدارتی فرائض انجام دے رہے تھے لیکن مارچ کے اواخر میں حوثی باغیوں نے عدن کے اطراف و اکناف قبضہ کرتے ہوئے صدارتی محل کی جانب بڑھ رہے تھے جس کی اطلاع ملتے ہی صدر عبد ربہ منصور ہادی سعودی عرب فرار ہوگئے اور انہوں نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اور اقوام متحدہ سے حوثی باغیوں کے خلاف تعاون کی اپیل کی تھی جس کے نتیجہ میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے یمن پر 25؍ مارچ کو فضائی حملوں کا آغاز کیا اور لگ بھگ ایک ماہ کے عرصہ میں یمن پر دو ہزار سے زائد فضائی حملے کئے گئے، ان حملوں کے نتیجہ میں سینکڑوں عام شہری اور حوثی باغی ہلاک ہوئے اور کئی ہزاروں زخمی ہوئے جس کی وجہ سے غذائی اجناس کے علاوہ طبی امداد میں بھی کافی دقت پیش آرہی تھی ۔شیعہ حوثی قبائل کی بغاوت کے نتیجہ میں امریکہ، برطانیہ ، مشرقِ وسطی کے ممالک یمن کے دارالحکومت صنعا میں اپنے سفارت خانے بند کردیئے تھے ۔ سعودی عرب کی قیادت میں کی جانے والی اس فضائی کارروائی کے خلاف ایران سخت الفاظ میں سعودی عرب کی مذمت کرتا رہا جبکہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اﷲ خامنہ ای نے حوثی باغیوں کے خلاف مہم کو قتل عام قرار دیا اور اس کی تائید ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی کی اور انہوں نے تہران میں منعقدہ فوج کے قومی دن کے موقع پر ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی تقریر میں کہا کہ سعودی عرب خطے میں نفرت کے بیج بویا ہے اور اسے جلد یا بدیر نتائج کا سامنا پڑے گا۔ ایران بری فوج کے سربراہ بریگیڈیئر احمد رضا بوردستان نے بھی گذشتہ دنوں دھمکی دی تھی کہ اگر سعودی عرب ،یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی بند نہ کی تو تہران ، ریاض کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔ احمد رضا بوردستان نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران کہا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا لیکن ریاض کو بھی حوثیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کو بند کرنا ہوگا ، انہوں نے انتباہ دیا تھاکہ اگر حوثیوں کے خلاف کارروائی بند نہ کی گئی تو جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے ایسے میں ایران کو بھی سعودی عرب کے خلاف فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ایران کی روحانی ، سیاسی اور فوجی قیادت کی جانب سے جس قسم کے بیانات منظر عام پر آئے ہیں اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ ایران ، یمن کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ حوثی باغیوں کو ماقبل جند امداد کرتا رہا ہے ۔سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد ، یمن میں عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنا اور حوثیوں کی بغاوت کو کسی نہ کسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔اب دوبارہ حملوں کے آغاز کے بعد ایران کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتا ہے اور کیا واقعی ایران ، سعودی عرب پر حملے کی تیاری کررہا ہے اور اگر ایران سعودی عرب پر حملہ کرتا ہے تو یہ عالمی سطح پر تشویشناک بات ہوگی اور اس سے دنیا میں مسالک کی بنیاد پر لڑائی چھڑ سکتی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جمعرات کے روز اپنے ایک روزہ سعودی دورہ کے موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی اور اس عزم کو دہرایا کہ سعودی عرب کی علاقائی خودمحتاری کے خلاف کسی بھی جارحیت کا سخت جواب دیا جائے گا۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سینئر فوجی حکام سمیت ، وزیر دفاع، امور خارجہ کے لئے وزیر اعظم کے مشیر طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری وفد میں موجود تھے۔پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کا تائید کے جواب میں ایران بھی سونچ سمجھ کر قدم آگے بڑھائے گا جبکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کشیدہ نہیں بلکہ اندرونی طور پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر اور فوجی تعاون بتائے جارہے ہیں اس طرح اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان واقعی تعلقات اندرونی طور پر بہتر ہیں تو یہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی و عرب ممالک کے لئے سنگین نوعیت اختیار کرسکتے ہیں اور ایسی صورت میں سعودی عرب اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کو متحدہ طور پر اپنے دشمن ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے ہر وقت کسی قسم کی کارروائی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس صورتحال کے پیشِ نظرسعودی اتحاد کو امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمِ اسلام کو کمزور کرنے کے لئے خطے میں جو حالات پیدا کئے گئے ہیں اور شدت پسندی کے ذریعہ گذشتہ کئی سال سے اسلامی ممالک کو کمزور کیا جارہا ہے جس کے ذریعہ امریکہ اور مغربی و یوروپی ممالک اپنی معیشت کو مستحکم بنارہے ہیں۔ یمن میں حوثی قبائل کی بغاوت سے بھی کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔

جس طرح سے کہ سعودی عرب نے یمن پر فضائی حملہ کرنے سے قبل حوثی باغیوں کو ایران کی جانب سے امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے اور اس سلسلہ میں امریکہ نے بھی ایران کی جانب سے حوثیوں کو امداد فراہم کرنے کی خبر کو درست قرار دیا ہے جبکہ ایران اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی برادری سے یمن میں سعودی عرب اور اسکے اتحادی عرب ممالک کی فضائی کارروائیوں سے متاثرہ افراد کے لئے 27کروڑ40لاکھ ڈالرکی امداد کی درخواست کی گئی تھی ، اقوام متحدہ کی اس درخواست پر سعودی عرب نے یمن میں جنگ سے متاثرہ شہریوں کے لئے امداد کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی اپیل میں مانگی گئی تمام رقم یعنی 27کروڑ 40لاکھ ڈالردے گا، سعودی عرب کی جانب سے سرکاری سطح پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اپنے یمنی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ یوں تو سعودی عرب پہلے ہی سے یمنی عوام کو کئی طرح کی امداد فراہم کرتا رہا ہے اور یمنی عوام کو سعودی عرب میں بھی کئی مراعات حاصل ہیں۔ سعودی عرب اتحاد کی جانب سے منگل کے روز چند گھنٹوں کے لئے فضائی حملے روکنے سے قبل یہ خبریں گشت کررہی تھیں کہ سعودی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کی سب سے طاقتور اور عصری آلات سے مسلح نیشنل گارڈز کو یمن میں زمینی کارروائی کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن حالات میں اچانک تبدیلی کیوں کی گئی تھی اس سلسلہ میں کوئی اہم انکشاف نہیں کیا گیا۔ یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں کئے جانے والے حملوں کی تائید و حمایت اور اسکے ساتھ تعاون کرنے ، تعاون نہ کرنے اور خاموشی اختیار کرنے والوں یعنی اس کے دوست اور دشمن ممالک کے درمیان امتیاز تو ہوچکا ہے۔ پاکستانی حکومت سے سعودی عرب نے یمن کی جنگ سے قبل فوجی تعاون کی اپیل کی تھی لیکن پاکستانی پارلیمنٹ نے جس خوبی کے ساتھ یمن کی جنگ سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ پالیسی اپنانے کا اعلان کیا تھا اس کے نتیجہ میں سعودی عرب اور عرب امارات نے پاکستان کی پالیسی پر جس قسم کے ردّعمل کا اظہار کیا تھا اس سے پاکستانی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ضرور ہوئی ہے اور دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پاکستان کو شائد کافی عرصہ تک اپنی غیر جانبدارانہ پالسیی کے سلسلہ میں ملال رہے گا کیونکہ مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک پاکستان سے منہ موڑ لیں یا اسے وہ اہمیت نہ دیں جو یمن کی جنگ سے قبل دی جاتی تھی۔ اب جبکہ یمن پر دوبارہ فضائی حملوں کا آغاز ہوا ہے تو پاکستانی سول و فوجی قیادت یعنی وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کرکے شاہ سلمان سے ملاقات کئے اور سعودی عرب کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی صورت میں سعودی عرب کو اکیلا نہیں چھوڑے گا ، شاہ سلمان نے وزیر اعظم نواز شریف کا استقبال تو کیا لیکن مستقبل میں پاکستان سے کس قسم کی امید رکھی اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا جب تک کہ یمن کی جنگ میں پاکستان کا کوئی اہم رول نہ ہو۔

پاکستان آخر کس کس کے ساتھ دوستی کا حق ادا کر پائے گا۰۰۰
پاکستان کی پالیسی دوست ممالک کے ساتھ کس طرح کی ہے اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کی متضاد رائے ہے۔ گذشتہ دنوں چین کے صدر زی جن پنگ کے دو روزہ دورے کے موقع پر 46ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کے حوالے سے 51معاہدوں پر دستخط کئے گئے ۔، چینی صدر مختلف امور و تعاون کے سلسلہ میں پاکستان کو سراہا اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاکستانی پالیسی کی تعریف کی۔ چینی صدر نے مغربی سرحدی علاقوں میں استحکام میں پاکستانی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے جو کچھ کیا ہے وہ چین کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ چینی صدر نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اس لڑائی میں جتنی قربانی دی ہے اسے چین میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہوں نے پاکستان میں سیکیوریٹی چیلنجوں سے نمٹنے میں پاکستان کو بھرپور مدد کا یقین دلایا ہے۔ اس موقع پر پاکستان نے بھی چینی صدر کی آمد پر اپنی نظریں نچھاور کردیں۔ پاکستان ، چین کی جانب سے 46ارب ڈالر سرمایہ کاری کے بوجھ تلے دب کر امریکہ اور پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ تعلقات خراب کرلے سکتا ہے کیونکہ پاکستان ایک طرف پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر انداز میں حل کرنے کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب سوپر پاور عالمی طاقتوں کے قائدین کے سامنے ہندوستان کی کسی نہ کسی طرح شکایت کرتا رہا ہے ۔ پاکستان کی پالیسی کو عالمی قائدین جانتے ہوئے بھی اسے نظرانداز نہیں کرتے بلکہ اپنے دشمن کے خلاف اسے استعمال کرنے کے لئے اسکی مدح سرائی کرتے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے امریکہ کی جانب سے بھی کروڑوں ڈالرزکی امداد دی جاتی رہی ہے ، پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور کئی ایک معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے حالات سدھر سکتے ہیں لیکن کیا پاکستان ایک طرف چین اور دوسری جانب امریکہ کو خوش رکھ پائے گا جبکہ عالمِ اسلام کی نظروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوچکی ہے ۔

مصر کے معزول صدر محمد مرسی
مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی کو 20سال قید کی سزا سنائی ہے ۔ صدر مصر محمد مرسی کو 2013میں اس وقت کے فوجی سربراہ اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کے نتیجے میں صدارت سے معزول کرکے بغاوت کردی اور چیف جسٹس مصر کی نگرانی میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی تھی ۔ محمد مرسی پر کئی ایک الزامات ہے ، ان کی سیاسی جماعت اخوان المسلمین پر مصر کی حکومت نے پابندی عائد کردی ہے اور اخوان المسلمین کے ہزاروں حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھایہی نہیں بلکہ رمضان المبارک میں معزول صدر کی تائید میں احتجاج کرنے والے اخوان المسلمین کے حامیوں کو فوج اور دیگر سیکیوریٹی ایجنسیوں نے شدید کارروائی کرکے شہید کردیا تھا ۔ محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے دیگر رہنماؤں پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے مظاہرین کو مخالف گروہوں اور صحافیوں کے قتل پر اُکسایا تھا اگر ان پر یہ الزام ثابت ہوجاتا تو انہیں موت کی سزا ہوسکتی تھی۔سابق صدر محمد مرسی کے خلاف فیصلہ سنائے جانے سے قبل اخوان المسلمین نے ملک کے موجود صدر اور فوج کے سابق سربراہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ عدالت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں جبکہ محمد مرسی نے کہا تھا کہ وہ اس عدالت کو مسترد کرتے ہیں اور عدالت میں مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ وہ فوجی بغاوت کا نشانہ بنے ہیں۔ چند دن قبل ہی عدالت نے اخوان المسلمین کے 22حامیوں کو مصر کے داراحکومت قاہرہ کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی ہے۔ موجودہ صدرعبدالفتاح السیسی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھتے ہیں جبکہ مصر ،یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے اتحادی ملک تھا۔ اخوان المسلمین کی قیادت اور کارکنوں کو جس طرح عبدالفتاح السیسی نے کمزور کردیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مصر کے عوام آزادی سے محروم ہیں اور عدالتیں اخوان المسلمین کے مطابق ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔محمد مرسی پر 20سال قید کی سزا سنائے جانے پر عالمی شہرت یافتہ عالم دین مولانا یوسف القرضاوی نے بھی اس سزا کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ عمل اور سیاسی فیصلہ قرار دیا۔
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 14 Articles with 9493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.