جانتا ہوں میں یہ لاشوں کی سیاست چلن

’’دہلی کے اندر ایک کسان گجندر سنگھ نے سرِ عام خودکشی کر لی‘‘۔ یہ ایک اندوہناک واقعہ ہے لیکن اس سے زیادہ شرمناک بات یہ کہ ہمارے سیاست داں اس پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئے۔ گجندر دہلی میں دوسا( راجستھان) سے عام آدمی پارٹی کی کسان ریلی میں شریک ہونے کیلئے آیا تھا۔ اس لئے بی جے پی نے اروند کیجریوال کو اس حادثے کیلئے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ کانگریس نے نہ صرف عاپ بلکہ بی جے پی کی کسان مخالف پالیسی پر سوال اٹھائے؟ اور کیجریوال کے ساتھ ساتھ مودی پر بھی مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کردیا لیکن عام آدمی پارٹی نے جو کچھ کیا وہ تمام ہی اخلاقی حدود کو پھلانگنے والا تھا ۔
گجندر سنگھ جنتر منتر پر ہونے والے جلسےمیں اسٹیج کے قریب پیڑ پر چڑھا ہوا تھا۔ اس کو عاپ کے سکریٹری سنجے سنگھ نے دیکھا اور نیچے آنے کی درخواست کی ۔ گجندر سنگھ نے سنجےسنگھ کا مشورہمسترد کردیا۔ پرشانت بھوشن یا یوگیندر یادو کی مانند سنجےسنگھنے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی اس لئے کہ وہ نافرمان توتھا مگر باغی نہیں تھا۔ اس جلسے کیلئے عآپ نے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اس لئے کہ فی الحال دہلی میں جھاڑو کا بول بالا ہے۔ اس کے باوجود پولس کمشنر وجئے سنگھ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ اس مظاہرے میں ۲۰ ہزار لوگ شریک ہوں گے اس لئے انہوں نے اس کو رام لیلا میدان میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا لیکن آج کل کیجریوال جی کسی کی سننے کی نہیں بلکہ صرف بولنے کے قائل ہیں ۔ خیر بھلا ہو کیجریوال کی عدم مقبولیت کا جو صرف ۳ہزار لوگ اس ریلی میں آئے اور وہ بھی دہلی سے نہیں بلکہ پنجاب سے لے کر مہاراشٹر تک کے لوگ ان میں شامل تھے۔ ان اعدادوشمار سے دہلی کے اندر عآپ سے عوام کی بیزاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عآپ کے سب سے تیز طرار مقرر کماروشواس جب تقریر کررہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ کوئی پیڑ سے لٹکنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے اس شخص کو نیچے آنے کی تلقین کی۔ جب سنجے سنگھ نے دیکھا کماروشواس جیسےمسخرے شاعر سے بات نہیں بن پارہی ہے تو انہوں نے خود مائک سنبھال لیا اور پولس کو مدد کیلئے بلانے لگے ۔ پولس والے جو پاس کھڑے تھے اس حادثے کی تفصیلاپنے واکی ٹاکی پر نہ جانے کس کو بتاتے رہے لیکن مدد کیلئےآگے نہیں آئے۔ ہمارے ملک کی پولس اس قدر نظم ضبط کی پابند ہے کہ اس وقت تک حرکت میں نہیں آتی جب تک کہ اعلیٰ افسر ان اس کا حکم نہ دیں ۔ اعلیٰ افسر اس وقت حکم نہیں دیتے جبتک کہ ان کے پاس شکایت درج نہ کرائی جائے اور اسےرشوت یا سیاست کے دباؤ سے زیربار نہ کیا جائے۔

اس موقع پر عآپ کے کسی رہنما نے اسٹیجسےنیچے آنے کی زحمت نہیں کی ۔وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ کو فراہم کردہ حفاظتی دستہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا تھا نہ ان کو کسی نے حکم دیا کہ وہ مدد کیلئے جائےاور نہ انہوں نے خود اجازت طلب کی کہ ایک عام آدمی کی جان کوبچایا جاسکے۔ بالآخر عام آدمی کی مدد کیلئے عام آدمی آگے آیا۔تین لوگ اوپر پیڑ پر چڑھ گئے اور چار نیچے چادر تان کر کھڑے ہوگئے ۔ سنجے سنگھ وہاں موجود خاموش تماشائیوں کو اپنی جگہ اطمینان و سکون کے ساتھ بیٹھے رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ اوپر چڑھنے والوں سے جب پھندا نہ کھلا تو انہوں نے اسے کاٹ کرگجندر کونیچےگرا دیا۔ گجندر کے جسم کا وزن نیچے والوں کی چادر سنبھال نہ سکی اور وہ پھٹ گئی۔ گجندر کی لاش زمین بوس ہو گئی ۔ عامشرکائے جلسہ گجندر کو لے کر رام منوہر لوہیا اسپتال چلےگئے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔

جنترمنتر پر یہ ہنگامہ ۱۵تا ۲۰ منٹ چلا اور اس کے بعد سب کچھ معمول پر آگیا ۔ جلسے کی کارروائی ایسےآگے بڑھی اور اگلے ۷۸ منٹ تک چلتی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو جب سارے مقرر نمٹ گئے تو نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیہ کو دعوت سخن دی گئی انہوں نے اعلان کیا کہ وہجلسےکےبعداسپتالجائیںگے اور اس کے بعد مہمان اساتذہ کے مسئلہ پر بولنے لگے۔انتخاب سے قبل ان اساتذہ کو مستقل کرنے کا وعدہ کرکے عآپ نے کیا تھا لیکن اب اپنے وعدے سے صاف مکر گئی۔ یہ بیچارے جب اروند کیجریوال کے خلاف نعرے لگانےلگے کہ کیجریوال ہوش میں آو تو وہاں موجود دسامعین نے ان کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں مودی کے چمچے قرار دے دیا اور نعرے بازی کا تصادم شروع ہوگیا ۔

شمع محفل جب گھوم پھرکرپروانے یعنی اروند کیجریوال کےسامنے آئی تو لوگ غالباً اس سانحہ کے سبب بھول گئے کہ انہیں تالیوں کے ساتھ اپنے چہیتے رہنما کا استقبال کرنا چاہیے ایسے میں کمار واشواس نے موجود سامعین کی یاددہانی کروائی اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں کیجریوال نے اس سانحہ کیلئے دہلی پولس کو موردِ الزام ٹھہرادیا اور حاضرین کو یاددلایا کہ دہلی پولس ان کے نہیں بلکہ مرکزی حکومت اختیار میں ہے اس لئے بی جے پی پر اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ کیجریوال یہ بتانے سے بھی نہیں چوکے کہ گجندر سنگھ راجستھان سے مایوس ہو کر خودکشی کرنے کیلئے دہلی آیاتھا اور وہاں بھی وجئے راجے سندھیا برسرِ اقتدار ہے اس لئے بی جے پی کی دوہری ذمہ داری ہے۔

اس کے بعد عآپ کے مختلف رہنماوں نے آگے بڑھ کراروند کیجریوال کو بھی شرمندہ کردیا ۔سومناتھ بھارتی نےٹویٹ کیا کہ یہ سیاسی سازش ہے جب اس پر وبال مچا تو رجوع فرما لیا ۔معروف صحافی اسوتوش نے کہا ہم دیوار اٹھانے کی تربیت سے محروم ہیں اور پھر طنز کیا کہ جی ہاں کیجریوال کو پیڑ پر چڑھ جانا چاہیے تھا۔ ان کو بھی بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو معذرت چاہ لی ۔ سنجے سنگھ سے بھلا کب صبر ہونے والا تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں نے اپنا جلسہ معطل کیوں نہیں کیا تو انہوں بڑی بے حیائی سے یاددلایا کہ مودی جی بھی تو پٹنہ میں دھماکے باوجود تقریر کرکے لوٹے تھے گویا سنگھ صاحب نے تسلیم کرلیا کہ اب ان لوگوں نے بھی مودی جی کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ کرلیا ہے اس لئے کہ جمہوریت کی دیوی اسی راہ پر چلنے والوں کے سرپر تاج سجاتی ہے۔ آج مودی جی وزیراعظم ہیں کل کیجریوال ہو جائیں گے لیکن ملک غریب کسان کی تقدیر نہیں بدلے گی وہ آج بھی خودکشی کرتا ہے اور کل بھی فاقہ مست رہے گا۔

اس حادثہ پر احتجاج کا بھی سلسلہ چل نکلا ۔راہل گاندھی اسپتال پہنچ گئے اور اس کو معاملے تحویل اراضی قانون سے جوڑ دیا۔ کانگریسی کیجریوال کے گھر جاپہنچے اور وہاں پتلا نذرِ آتش کرآئے۔بی جے پی والے نےاپنا دامن جھٹکنے کیلئے پولس دفتر سامنے مظاہرہ کیا اوروہاں موجود حفاظتی دستوں کے پانی والےفواروں سے اپنا تن من ٹھنڈا کرکے لوٹے۔ تمام حزب اختلاف نے ایک آواز ہو کر ایوانِ پارلیمان میں یہ مسئلہ اٹھایا اور بی جے پی نے بھی اس پر صاد کہا۔ وزیراعظم سے بیان کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے ایک پھسپھسا بیان دےڈالا۔ اپنے ٹویٹ میں کہا ہم کسان کوتنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لئےکہ اناج تو برآمد کیا جاسکتا ہے لیکن ووٹ نہیں ۔

راجستھان کی وزیراعلیٰ وجئے راجے سندھیا نےکہا ہم ہر صورت میں کسان کے ساتھ ہیں لیکن ان کے ساتھی بی جے پی رکن پارلیمان سمیندھانند سرسوتی نے نہایت دلچسپ بیان دے دیا ۔ وہ بولے ہماری ریاست کے کسان صبر و ضبط کیلئے ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔ وہ مسلسل ۱۵ سالوں تک قحط کا سامنا کرنے کے باوجود مایوس نہیں ہوتے ۔ اس لئے یہ پتہ کرنا پڑے گا کہ کیاعآپ کی ریلی میں موجود لوگوں نے اسےہیجان کا شکار کردیا تھا یا خودکشی کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما تھے۔ سرسوتی جیسے لوگ نہ جانے کس دور میں جی رہے ہیں اس لیےکہ گجندر کی چتا جلنے سے قبل ایک اور کسان نے راجستھان ہی میں ریلوے پٹری پر کود کر خودکشی کرلی ۔

الور کے رہنے والے ہرسک لال جاٹو نے بنک سے قرض لے کر کھیتی کی مگر فصل تباہ ہو گئی ۔ وہ چند بورےگیہوں لے کر گھر آیا اور اسے دیکھتا رہا غالباً سوچتا رہا کہ اس پر سال بھر گزارہ کیسے ہوگا ؟ اس غریب کو نہیں پتہ تھا کہ ریاستی وزیراعلیٰ اس کے ساتھ ہیں اور وزیراعظم اس کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اسے تو لگا کہ اب بنک والے اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس لئے اس نے ان کے ہاتھوں قتل ہونے کے بجائے ازخود چلتی ٹرین کے سامنے چھلانگ لگاکرخود کو ہلاک کردیا ۔ ہرسک لال کی موتچونکہ ایک دیہات میں ہوئی اس لئے اس پر کسی کو سیاست کرنے ضرورت نہیں پیش آئی مگر گجندر کی موت کے نت نئے زاویئے ظاہر ہونے لگے ۔

ایک بات تو یہ سامنے آئی کہ اس کی کھیت کا نقصان بہت کم ہوا ہے۔ دوسرے اس کی اور بھی کھیتی باڑی ہے۔ اس نے کبھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ جلسہ میں اپنی خالا سے یہ کہہ کر گیا تھاکہ شام کھانے پر آئے گا۔ اپنے بھائی کو فون کرکے کہا ٹی وی پر دیکھو میں نظر آوں گا۔ اپنی بہن سے کہا کہ واپس آکر اس کو فرنیچر دلانے کیلئے لے کر جائیگا۔ وہ بلند حوصلہ ، آرزومنداور خوش مزاج طبیعت کا انسان تھا۔ دو مرتبہ اسمبلی انتخاب لڑ چکا تھا۔ سسودیہ کے بلانے پر دہلی آیا تھا اور ملاقات بھی کی ۔وہ پیڑ کے اوپر جھاڑو لے کر چڑھا تھا۔ وہاں سے بی جے پی کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ اس کے باوجود اس کی خودکشی والی چٹھی بھی مل گئی اور اس کے گھر والوں نے یہ کہہ دیا اس کا خوشخط اس وصیت سے مختلف تھا اور عآپ کے مقامی لوگوں پر شک کا اظہار کردیا۔

حالات اسی طرح سے موڑ لے رہے ہیں جیسا کہ ؁۱۹۹۰ میں منذل کمیشن کی سفارشات کے لاگو ہونے کے بعد ہوئے تھے۔ سب سے پہلے راجیو گوسوامی نے دہلی میں خودسوزی کی کوشش کی اور وہ بچا لیا گیا لیکن اس کے بعد سریندر سنگھ چوہان نے خود کو نذرِ آتش کرلیا اور ملک بھر میں اس طرح کے کئی واقعاترونما ہوئے۔ قیاس کیا جاتاہے کہ ان میں اکثر نوجوانوں کو ہجوم نے زندہ جلا دیا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ منڈل کی آگ نے وی پی سنگھ کی سرکار کو بھسم کردیا۔ سیاست کا یہ کھیل نیا نہیں ہے اور نہ صرف شمالی ہندوستا ن میں بلکہ جنوب میں بھی مختلف انداز میں کھیلا جاتا ہے۔ اس کی ایک نہایت کریہہ مثال حیدرآباد میں سامنے آئی ۔

۷اپریل کو ۵ زیرحراست قیدی وقار احمد ، سید امجد علی ، محمد ذاکر ، ڈاکٹر محمد حنیف اور اظہار خان کو آلیر اور جنگاؤں کے درمیان پولیس نے حیدرآباد کی عدالت کو منتقلی کے دوران فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا ۔ اس انکاؤنٹر کی بنیادی وجہ نام نہاد سیمی کے کارکنوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے تین پولیس ملازمین کے خون کا بدلہ لینا تھا ۔ اس کے باوجود شہر حیدرآباد میں نہ تو وزیراعلیٰ کے گھر کے باہر اور نہ پولس دفتر کے سامنے کوئی مظاہرہ ہوا۔ ایوان پارلیمان میں کیرالہ کےای عبداللہ نے تو اس کا ذکر کیا لیکن اتحادالمسلمین کے اسدالدین اویسی اپنی زبان پر قفل لگائے رہے ۔ ان کے اخبار اعتماد نے ارباب اقتدار کوگھیرنے کے بجائے ان کی وکالت اس طرح سے کی کہ پولس میں موجود زعفرانی عناصر وزیراعلیٰ کو بدنا م کرنے کیلئے یہ سب کررہے ہیں ۔

وزیراعلیٰ چندر شیکھر راواگر واقعی ایسے نیک نام ہیں تو وہ خاطی پولس والوں کا بچاو کرنے کے بجائے ان کو سزا کیوں نہیں دیتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جماعت کو ان معصوموں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے وہ ریاستی حکومت کے ساتھ سیاسی سودے بازی میں لگی ہوئی ہے۔ حیدرآباد کے سیاست اخبار میں شائع شدہ خبر کے مطابق ایم آئی ایم دو وزراء اوروقف بورڈ کی صدارت کیلئے بھاؤ مول کرنے میں مصروف ہے۔ لاشوں کے اس بیوپار کے باوجود مہاراشٹر کے مسلمانوں نے اورنگ آباد کے بلدیاتی انتخابات اسی جماعت پر اعتماد کا اظہار کردیا۔ جوقوم اپنے دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتی اور بار بار ایک ہی بلِ سے ڈسی جاتی ہے اس کے نہ نوجوانوں کاانکاؤنٹر ہوتا ہے اوراس کے کسان خودکشی کرتے ہیں۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.