فراڈ سیریز کہانی نمبر 2

مسجد کے امام صاحب کافی دنوں سے اس اجنبی کو نوٹ کر رہے تهے ،لباس اور چال چلن سے مکمل دنیادار نظر آنے والا شخص نہ صرف یہ کہ پہلی صف میں نماز کا اہتمام کررہا تها،بلکہ نماز سے پہلے اور بعد میں نوافل اور تلاوت میں مشغول رہتا تها،امام صاحب اس شخص سے بہت متاثر ہوئے اور ان کے دل میں اس اجنبی کے لیے محبت پیدا ہوگئی، کچھ دن بعد وہ امام صاحب سے ملے، اس کے بعد دن بدن ان کے تعلقات بڑھتے گئے، ایک رات شب کے آخری پہر کا عمل تها،امام صاحب تہجد کی نماز میں مشغول تهے، اچانک ان کے گهر کا دروازہ بجنے لگا، نماز سے فارغ ہوتے ہی امام صاحب دروازے پہ پہنچے تو ٹھٹک کر رہ گئے،وہ اجنبی شخص اس کے سامنے پریشانی کے عالم میں کھڑا تها،اس نے امام صاحب کو بتایا کہ میرا اکلوتا بیٹا امریکہ میں ٹریفک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے،میں نے ایمرجنسی میں امریکہ جانا ہے آپ میرے گهر والوں کا خیال رکھیں میں کسی اور پہ اعتماد نہیں کر سکتا،امام صاحب نے اسے اطمینان دلایا کہ گھر والوں کے حوالے سے آپ بے فکر ہوجائیں،چنانچہ وہ چلا گیا اور امام صاحب اس کے گهر کا دیکھ بال کرنے لگا....
دس دن کے بعد اس شخص کی واپسی ہوئی،اس نے آتے ہی یہ کہہ کر امام صاحب کو اپنے گهر بلایا کہ وہ کسی اہم مسئلے کے بارے میں امام صاحب سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں، امام صاحب ان کے گهر پہنچے اور دونوں بیٹها میں بیٹھ کر بات چیت میں مشغول ہوئے...

اس اجنبی نے امام صاحب کو مخاطب کر کے کہا: امریکہ میں میرا کا کاروبار خطرے میں ہے آپ کو پتہ ہے میرا بیٹا زخمی ہوا ہے،وہ اکیلے کاروبار نہیں چلاسکتآ مجهے ایک با اعتماد شخص کی تلاش ہے جو میرے بیٹے کا ساتھ دے کر ہماری مدد کرے، کچھ دیر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، پهر اجنبی نے امام صاحب سے کہا کہ اس کام کے لیے آپ کا بیٹا ہی میرے لیے بہتر رہے، امام صاحب پہلے تو انکار کرتے رہے مگر اصرار جب حد سے بڑھ گیا تو اجنبی کی بات مانتے ہی بن پڑی، کچھ غور فکر کے بعد اس بات پہ اتفاق ہوا کہ امام صاحب کا منجھلا بیٹا پڑا لکها اور بے روزگار ہے اس کو بهیج دیا جائے، چند دن بعد پاسپورٹ تیار ہوا اور کچھ دن بعد امام صاحب کا بیٹا امریکہ روانہ ہوا،جانے کے کچھ دن بعد اس کی طرف سے خط موصول ہوا جس میں اس نے اپنی خیریت کی اطلاع دی اور ایک بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کا کہا تاکہ وہ کمائے ہوئے پیسے بهیج سکے،اکاؤنٹ کهل گیا اور ہر مہینے کی 5 تاریخ کو اس اکائونٹ میں اچهے خاصے پیسے آنے لگے....
اب جب لوگوں کو پتہ چلا کہ امام صاحب کےوارے نیارے ہو گئے ہیں تو مقتدیوں کا ایک جم غفیر امام صاحب کے در دولت پہ یہ درخواست لے کر پہنچا کہ آپ اس شخص سے ہمارے بیٹوں کے متعلق بھی بات کریں امام صاحب ٹالتے رہےرہے مگر جب دیکها کہ لوگ ماننے کے لیے تیار نہیں تو اس نے اس شخص سے بات کرنے کا فیصلہ کیا،جب اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ وہاں بھجوانا اور کام پہ لگوانا میرے لیے مشکل نہیں مگر..... مگر کیا؟
مگر یہ کہ میں نے آپ کے بیٹے کو اپنے خرچے پہ بهیجا ہے ایک تو آپ کی مروت میں دوسرے یہ کہ میری اپنی ضرورت تهی ،لیکن ابهی جو بهی جائے گا خرچہ اس کا اپنا ہوگا.....
کتنا خرچہ؟
یہی کوئی فی بندہ تین لاکھ تک ہوجائے گا...

امام صاحب واپس آیا اور امریکہ جانے کی خواہش رکهنے والے افراد کے سرپرستوں کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس شخص سے ہونے والی تمام گفتگو ان کے گوش و گزار کر کے مشورے کا خواستگار ہوا،یہ باتیں چونکہ معقول تھیں سب نے حامی بھر لی،،،،،

اس کے بعد سے ایک ہفتے تک پورے محلے میں ہل چل رہی،خواتین اور بزرگ سہانے مستقبل کے خواب سجائے انتہائی ضروری سامان کے علاوہ سب کچھ بیچنے لگے،نوجوان ٹولیوں میں بٹ کر کافر ادامغربی دو شیزائوں کے ساته ساحل پہ مستیاں کرنے کے پلان بنانے لگے،نوجوان لڑکیاں مستقبل میں اپنے سرتاج کے ساتھ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو میں گهومنے کآ پلان بنانے لگیں....
ٹھیک ایک ہفتے کے بعد تقریباً چالیس گھروں کے سپوت امریکہ روانگی کے لیے تیار تهے،پیسے جمع کر کے اس شخص کے حوالے کیے گئے اس نے 6 دن کی کاغذی کاروائی کے بعد ان تمام نوجوانوں کی امریکہ روانگی کی نوید سنائی اور روزانہ صبح کاغذات کا ایک گورکھ دھندا لے کر گهر سے نکل جاتا اور رات گئے واپس آجاتا .اس دوران وہ اہتمام سے مسجد بهی آتا رہا.....

چوتھے دن صبح کی نماز میں وہ شخص نظر نہ آیا تو امام صاحب کو کچھ تشویش ہوئی پهر سوچا کہ آج کل کاغذات کے سلسلے میں بهاگ دوڑ کررہا ہے تو شاید تهکاوٹ کی وجہ سے نہ آ سکا...
نماز کے بعد امام صاحب دل میں خدشات،دماغ میں وسوسے اور آنکھوں میں خوف لیے مسجد کے مئوذن کو ساتھ لے کر اس کے گهر کے دروازے پہ پہنچے تو ایک "امریکن میڈ "تالا ان کو اس بات کی خبر دے رہا تها کہ بستی کے تمام انسانوں کے عقل پہ تالا لگ چکا ہے...

امام صاحب کے ہوش و حواس اڑ گئے اور بد حواسی کے عالم میں سیدھے مسجد پہنچے اور اعلان کردیا کہ"اے بستی کے عقل مند لوگوں تم سب کا بیڑا غرق ہوچکا ہے،اعلان سنتے ہی بزرگوں کا ایک جم غفیر مسجد پہنچا ،سوال جواب کے بعد انہیں ماننا پڑا کہ ایک بہروپیا ان سب کو چونا لگا کے غار میں روپوش ہو چکا ہے،اس کے بعد بستی میں مایوسی کے بادل چهاگئے،

اب مسئلہ تها امام صاحب کے بیٹے کا،کہ وہ کہاں کس حالت میں ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا،امام صاحب مقتدیوں کے دباؤ اور بیٹے کے غم میں نیم پاگل ہو چکا تها، اس دن سب لوگ عصر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکل رہے تهے تو یہ دیکھ سب کا تراہ نکل گیا کہ امام صاحب کا بیٹا کسی تهے ہارے مزدور کی طرح پائوں گھسیٹتے ہوئے مرکزی سڑک سے مسجد کی جانب آرہا تها،ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ اتنی جلدی امریکہ سے کیسے آگئے.. تو اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا :کیسا امریکہ کونسا امریکہ ؟مجهے تو اسی دن سے ایک بند کوٹری میں دال دیا گیا تها...

ابهی کچھ دیر پہلے مجهے یہ کہ کر چهوڑ دیا گیا ہے کہ آپ کی بستی میں چالیس لوگوں کی موت واقع ہوگئی ہے، جاکر جنازے میں شرکت کرو...

شکیل اختر رانا
About the Author: شکیل اختر رانا Read More Articles by شکیل اختر رانا: 2 Articles with 2118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.