إسلام ترا دیس ہے،تو مصطفوی ہے(1)

آل انڈیا مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ قرآن وسنت کے مطابق ہے، جب تک دنیا میں اسلام ہے، مسلم قومیت کا یہ نظریہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ،مسلم اور غیرمسلم قومیتوں پر مبنی دو قومی نظریہ کے مخالف ناپختہ وغیر متبحر دانشور،ناسمجھ یابد نیت لوگ ہی ہو سکتے ہیں،اسلام نے مسلمانوں کو ایک امہ وملت اور تمام کفر کو ایک دوسری ملت قرار دیا ہے ،جبکہ اہل اسلام کو مسلم قومیت کا نام بھی قرآن ہی نے دیا ہے(مِلَّۃَ أَبِیکُم ابرَاہیمَ ،ہُوَ سَمَّاکُمُ المُسلِمِین)، یہ اور بات ہے کہ آج کے دور میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں،لیکن یہ کسی ادارے میں ایک ساتھ کام کرنے والے کارکنوں کے مانند بطور ورکنگ ریلیشن شپ ایک جغرافیائی یا ادارتی تقسیم ہے،جس کا نظریہ واعتقادسے کوئی تعلق نہیں ہے،چنانچہ بعض اقوام مختلف جغرافیائی سرحدوں میں ہونے کے باوجود وسیع تر معنوں میں ایک ہی قوم کہلا تی ہیں،نیز کسی ملک کا اسلامی ہونا غیر مسلموں کے حقوق کی نفی نہیں کرتا ، بلکہ ان کے حقوق اور واجبات کی مکمل تائید وحمایت کرتا ہے ،اسی طرح اسلامی خلافت ،جمہوریت یا ملوکیت کی نفی کرتی ہے نہ اثبات،مسلم حکمران حضرتِ داؤد وسلیمان علیہما السلام اور امیر معاویہؓ ہ وہارون الرشیدکی طرح بادشاہ بھی ہو تب بھی خلیفہ ہے اور جمہوری حاکم ہو تب بھی، دونوں صورتوں میں وہ ایک شوریٰ کا پابند ہوتاہے، آخری اور فیصلہ کن رائے انہی خلیفہ کی ہوتی ہے،نام میں کیا رکھا ہے، بالا دستی تواکثریت یا طاقتور ہی کی ہوتی ہے، انڈیا بظاہرایک سیکولر ملک ہے، مگر وہاں وہی ہوتا ہے جو ہندو چاہتے ہیں،پاکستان نام کا اسلامی جمہوریہ ہے ، پر یہاں اسلامی احکام واقدار کی تنفیذ کتنی ہے، سب کو معلوم ہے،سیاسی پارٹیوں میں مکمل بادشاہت ہے،اہل اقتدار بشمول بیوروکریسی واسٹبلیشمنٹ میں بھی ہر جگہ سن کوٹہ کارفرما ہے ۔علامہ اقبال موجودہ تصورِقومیت کے خلاف ہیں جس کی بنیاد رنگ، نسل ،زبان یا وطن پر ہو ، کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے، ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب ، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں،جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے،اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول ‘‘توحید ’’ہے،جوملی وحدت کا ضامن ہے، اس کا دوسرا رکن ‘‘رسالت’’ ہےاور یہی دو نوں اساس ِملت ہیں،نہ کہ وطن جو انسانیت میں جنگ وجدل اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتاہے۔وہ فرماتے ہیں:
قوم مذہب سے ہے ،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذب ِباہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
ایک ہوں مسلم ،حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر، تا بخاک ِکاشغر

ہندوستان میں دو قومی نظریے کا پس منظر در حقیقت یہ ہے،کہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے بعد 1835ء میں فارسی کو ہٹا کر اردو کو پورے ہندوستان کی سرکاری زبان بنا یا،اس وقت اردو زبان ميں موجود عربی رسم الخط اور عربی زبان کے الفاظ کی موجودگی کی کسی ہندو نے مخالفت نہیں کی، لیکن1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہندوؤں نے اردو زبان میں عربی زبان کے اثر کی مخالفت کےمسئلے کو شد ومد سےلاکھڑا کیا، یہ جھگڑا ہندی اردو 1867ء کے نام سے موسوم ہے،جبکہ اصل جھگڑا اردو زبان میں عربی زبان اور سنسکرت زبان کے اجارہ داری کا تھا،مسلمان اردو کو عربی کی ایک شاخ اور ہندو اسے دیو ناگری کی شاخ بنانا چاہتے تھے،گویا بنیادی جھگڑاعربی اور دیوناگری کا تھا، افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی اردو کو عربی کے مقابلے میں مستقل حیثیت دلانے والے حضرات دانستہ یا نادانستہ دریائے اردو کو عربی کےبحرِ بیکراں سے محروم کرنےپر تُلے ہوئے ہیں۔

کہتے ہیں اسلام کو ابو جہل خوب سمجھا تھا کہ یہ صرف ایک لا الٰہ کا مسئلہ نہیں،پورے نظام کی تبدیلی کا معاملہ ہے، مگر جہل بمعنیٰ ضد نے اسے روکے رکھا،ہمارے یہاں ہندو بھی سمجھے کہ یہ صرف مسلم یا غیر مسلم کی بات نہیں،بلکہ پوری تہذیب وثقافت کی بات ہے،جو زبان وادب اور اصطلاحات میں پنہاں ہو تی ہیں،اسی وجہ سے انگریز بھی جہاں گیا، اپنی زبان،تہذیب اور اصطلاحات کے ساتھ گیا،یہ صرف نا رسیدہ مسلمان ہے،جو فقط نام کی مسلمانیت پر اکتفا کئے ہوئے ہے،ناموں اور اصطلاحات کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ یہاں جزوی طور پر اسے زیر بحث لانااس موضوع کے ساتھ زیادتی ہے،اللہ نے چاہا تو تفصیل سے اس پر آئندہ کبھی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ بہر حال 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی ،جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا اور عربی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا، اس جنونی اور لسانی تحریک کا صدر دفتر الہ آباد میں قائم کیاگیا، جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔

اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا،کیونکہ اردو کو جنوبی ایشیا میں نہ صرف متعارف کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام ِعروج تک پہچامنے کے لیے انہوں نے وہی کردار ادا کیا تھا، جو خود مسلمانوں کا تھا.
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811917 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More