اماں حوا کے شہرجدہ میں کچھ دن (سفر نامہ)

(راقم الحروف 8اپریل کو جدہ آیا تھا ۔جدہ میں مستقل قیام ہوتا ہے انشاء اﷲ ایک ماہ قیام رہے گا۔ عمرہ کی سعادت حاصل کرلی ہے ، اپنے نبیﷺ کی خدمات میں سلام عرض کرنے مدینہ منورہ آئندہ دنوں جانے کا ارادہ ہے۔ پروردگار عمرہ قبول فرمائے اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کی توفیق بھی عطا فرمائے)

کلام مجید کی سورۃ النساء آیت نمبر ایک ترجمہ’’ اے لوگواپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘۔مفسرِقرآن حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس آیت میں پیدائش کی تین صورتوں کا بیان ہے ایک تو جاندار کا بے جان سے پیدا کرنا جیسے آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ۔ دُوسرے جاندار کا جاندار سے بلا طریقہ توالد متعارف پیدا ہوناجس طرح حضرت حّواحضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔اور تیسرے جاندار سے جان دار سے بطریقِ توالدِ متعارف پیداہونا جیسا اور آدمی آدم و حّوا سے اِس وقت تک پیدا ہوتے آرہے ہیں ۔ اور فی نفسہٖ عجیب ہونے میں اور قدرت کے سامنے عجیب نہ ہونے میں تینوں صورتیں برابر ہیں‘‘۔

اماں حوا کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کی سورۃ النساء کی اولین آیت میں لفظ ’’نفس‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ’نفس، جاندار، روح، شخص، پسلی، ہڈی کے لیے گئے ہیں، صحیح بخاری کی حدیث 7.114 ،جس کے راوی حضرت ابو حریرہ ہیں۔ آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ عورتوں کا خیال رکھو، کیوں کہ انہیں بنایا گیا ہے ہڈی (پسلی) سے ، اورپسلی کے سب سے خم دار حصہ جو اس کے اوپر کا حصہ ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے ، یہ ٹوٹ جائے گی، اگر اسے چھوڑ دوگے ،یہ بدستور غم دار رہے گی۔ اس وجہ سے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ عورتوں کا خیال رکھنا‘‘۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اماں حوا کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنا یا گیا ہے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو دنیا میں اتار دیا تو تو دونوں مختلف جگہ تھے دونوں کی ملاقات عرفات کے میدان میں واقع پہاڑ (جبل رحمت ) پر ہوئی۔ میں اپنی شریک حیات شہناز کے ہمراہ جبل رحمت پر تھا۔ کس قدر حسین منظر تھا۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں قیامت کے دن حشر کا میدان کھڑے پہاڑی کو تکے جارہے تھے۔ خوبصورت منظر تھا، ساتھ ہی نور ہی نور پھیلا ہوا نظر آرہا تھا۔ بے شمار مرد، عورتیں اور بچے شوق و ذوق کے ساتھ جبل رحمت پر جارہے تھے۔ کچھ اوپر چوٹی پر ، کچھ اس سے نیچے اور ہم اس سے بھی نیچے تھے۔ جبل رحمت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نبی پاک پر آخری وہی اسی جگہ اتری۔ نیززمین پر آدم اور حوا کی ملاقات اسی عرفات کے میدان میں واقع جبل رحمت پر ہوئی۔ اﷲ اﷲ کیا وقت ہوگا جب دنیا میں ہمارے بابا اور اماں زمین پر پہلی بار ملے ہوں گے۔ ہر سال حج کے موقع اﷲ کے تمام مہمان میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں ۔ اس وقت یہاں کا منظر مختلف ہوتا ہوگا، ہر جانب انسانوں کا ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر ، سر ہی سر لیکن اس وقت یہ جگہ مختلف نظارہ پیش کررہی ہے۔ اطمینان ہے ، سکون ہے، اسی میدان سے آگے کی جانب مسجد نمر ا میں خطبہ ہوتا ہے۔ آج ہم نے اس مسجد کو بھی بہت نذدیک سے دیکھا ۔ عام دنوں میں یہ مسجد بند ہوتی ہے۔ آج بھی بند تھی اس کا دروازہ نمبر ۴ کھلا ہوا تو نہیں تھا لیکن وہاں کوریڈور میں نماز پڑھنے کی سہولت فراہم تھی یہاں آنے والے نفل ادا کرتے ہیں ہم نے بھی یہاں دورکعت نفل ادا کی۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے آنحضرت محمد ﷺ پر درود بھیجنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور حضرت حواکی بھی ولادت ہوگئی ۔ اب آدم علیہ السلام نے اماں حوا کا قرب چاہا تو اﷲ رب العزت نے روکا ملائیکہ کو حکم دیا کہ رک جاؤ تمہارا نکاح کراتے ہیں ، نکاح کے بعد تم مہر ادا کرنا تب حوا تمہارے لیے آدم حلال ہوگی۔ آدم علیہ السلام نے پوچھا پروردگار نکاح اور حجاب و قبول تو ٹھیک ہے لیکن مہر کیا دونگا؟شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ’’مدارج البنوت‘ میں بیان کیا اور بھی کئی انبیاء اولیاء اھل اﷲ نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا ۔ آپ نے عرض کیا میرا مہر کیا ہوگا۔ تو باری تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے فرمایا کہ آدم تو اور حوا دونوں مل کر میرے مصطفی پر 20 مرتبہ درود پڑھ لینا۔ دونوں نے تین مرتبہ یا 20 مرتبہ مصطفی پر درود پڑھا تو حضرت حوا ھلال ہوگئیں۔

جدہ کے لغوی معنی عظمت وجلال کے ہیں یہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔عربی میں جدہ ’دادی‘ یا grandmotherکے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق تمام انسانوں کی ماں ’اماں حوا‘ کی قبر مبارک جدہ کے ایک قبرستان میں ہے۔ جسے ’مقبرہ اماں‘ حوا کہا جاتا ہے۔ میں نے اس قبرستان میں حاضری دی۔ قبرستان بہت صاف ستھرا، تمام قبریں ایک ترتیب سے بنی ہوئی ہیں، ہر قبر پر نمبر ڈلا ہوا ہے۔ جہاں تک اماں حوا کی قبر کا تعلق ہے اسے مقفی رکھا گیا ہے۔ قبرستان میں خدمت انجام دینے والوں کو یقینا معلوم ہوگا لیکن وہ عام لوگوں کو اس قبر کے بارے میں نہیں بتاتے۔کہا جاتا ہے کہ 1975 میں اماں حوا کی قبر کو بجری اور سیمنٹ سے محفوظ کر دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ مسلمان بڑی تعداد میں قبر پر جانے لگے تھے۔ سعودی عرب میں رائج عقیدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ قبر پر حاضری دیں اور فاتح پڑھیں۔ یہ صورت حال صرف اماں حوا کی قبر کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ یہاں ہر تاریخی قبرستان میں معروف اور اہم شخصیات کے قبروں کے نشانات مٹا دیئے گئے ہیں۔ایسا سعودی عرب میں رائج مسلک اس کی بنیادہے۔ یہاں قبروں پر کتبہ لگا نے کا رواج نہیں اور نہ ہی مرنے والے کا نام قبر پر لکھا جاتا ہے۔ مکہ میں جنت المعلیٰ ، مدینہ میں جنت البقیع جیسے قبرستاتوں میں کیسے کیسے عظیم المرتبت ہستیاں آسودہ خاک ہیں ان کی قبریں بے نام و نشان ہیں۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ اس قبرستان میں کون کون ابدی نیند سورہا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کا اعتراض اپنی جگہ لیکن سعودی اپنے اس عمل پر سختی سے قائم ہیں۔

اماں حوا کا شہر جدہ، سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر اور اہم تجارتی مرکز ہے۔سب سے بڑھ کر اس شہر کی انفردیت، خصوصیت اور اہمیت یہ ہے کہ یہ شہر اسلام کے مقدص شہروں مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ کے لیے بنیادی گزر گاہ ہے۔ حجاج اکرم ، عمرہ پر آنے والے تمام تر زائرین جدہ کے شاہ عبد العزیز انٹر نیشنل ائر پورٹ پر ہی اتر تے ہیں اور وہاں سے زمینی راستے پر سفر کرتے ہوئے مکہ اور مدینہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔جب تک سمندری راستے کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک سے زائرین مکہ اورمدینہ کے لیے آیا کرتے تھے تب بھی یہی اماں حوا کا شہر جدہ ہی ان کے پہلے قیام کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس لیے کہ شہر مکہ اورمدینہ کے نذدیک جدہ ہی وہ شہر ہے جہاں بحر احمر یعنی Red See
کا ساحل اور اس پر بندرگاہ موجود ہے۔بحر احمر کے ساحل پر موجود بندرگاہ ہی اماں حوا کے شہر کی بنیاد ہے۔اس شہر کو Gamma World Cityکا لقب بھی حاصل ہے۔جدہ کرنسی کے کاروبار کی وجہ سے اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ شیخ سلیم بن محفوظ اپنے زمانے کے بہت بڑے کرنسی کے تبادلے کے تاجر سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کو معاشی ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

ماہرین ارضیات کی تحقیق سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اماں حوا کا شہر ’جدہ‘ 500 BCمیں مچھیر وں کی ایک چھوٹی سے بستی کے طور پر بحر احمر کے ساحل پر آباد ہوا۔اس بستی کو یمن کے قبیلے ’قضاعۃ‘ (Quda'a tribe)نے آباد کیا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے یہ مطالعہ بھی پیش کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں جدہ شہر واقع ہے پتھرکے زمانے کے انسانوں کے قیام اور ان کی بود و باش کے آثار بھی پائے گئے ہیں۔ بربری سیاح ابن بطوطہ1304-1368)) نے اپنے دنیا کے سفر کے دوران جدہ کا سفر بھی کیا۔ ابن بطوطہ کی ڈائری میں جدہ کا نام (Juddah)درج ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسکندر اعظم (Alexander the Great,356BC-323BC)نے اس شہر میں قیام کیا تھا۔ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان ؓ (647AD)نے جدہ میں موجود بندرگاہ کو مسلمانوں کے لیے جو مکہ حج کے لیے آتے تھے کو استعمال کیا اس وقت سے جدہ صوبہ حجاز کا بنیادی شہر قرار پاگیااور وہ مسلمان جو حج کے لیے پانی کے راستے آیا کرتے جدہ کی بندرگاہ پر آتے اور پھر دیگر سواریوں کے ذریعہ مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ جایا کرتے۔ آج بھی جدہ شہر کو یہ فضیلت اور فوقیت حاصل ہے ۔ حج اور عمرہ کے لیے آنے والے جدہ ائر پورٹ پر ہی آتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ بحر احمر پر واقع ہونے اور متبرک شہروں کے لیے گزرگاہ کے طور پر استعمال ہونے کے باعث جدہ کو تاریخ میں اہم مقام حاصل رہا۔ فاطمین نے (969AD)میں مصر کا کنٹرول حاصل کیا اور اپنی حکمرانی کو حجاز اور جدہ تک وسیع کردیا ۔فاطمین نے اپنے تجارتی نیٹ ورک کو بحر احمر کے راستے بحر روم اور بحر ہند تک وسیع کیا۔ ان کے حکومتی روابط اور تجارت کو چین تک رسائی حاصل ہوئی جس سے حجاز کی معیشت کو ترقی حاصل ہوئی۔1171 میں یروشلم (Jerusalem) کی فتح کے بعد صلاح الدین ایوبی نے فاطمین سلطنت کو معزول کرتے ہوئے ایوبی سلطنت قائم کی حجاز بشمول جدہ ایوبی سلطنت کا حصہ قرار پایا۔ اسی سال یہ شریف ابن ابو الہاشم الطالب (1094-1201)کی سربراہی میں رہا۔ اس دور میں یہاں سنی مسلمانوں کا غلبہ رہا ۔ ہر طرح کی ترقی ہوئی۔ تعلیم کے میدان میں نمایاں کام ہوا۔ اس دور میں یہ خطہ سندھ، جنوبی مشرقی ایشیاء ، مشرقی افریقہ کے مسلمانوں کے لیے جاذب نظر اور ملاحوں اور سمندری کے راستے سفر اور سیاحت کرنے والوں کے لیے پر کشش بن گیا تھا۔ ایوبی سلطنت کا اختتام 1254 میں ہوا اور حجازمملوک سلطنت کا حصہ قرار پایا۔ پرتگالی سیاح واسکوڈی گاما بھی یہاں سے گزرا۔ اس دور میں شہر کے گرد ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی جس کے آثار آج بھی قدیم شہرمیں نظر آتے ہیں۔ پرتگالیوں سے مقابلے کے نتیجے میں 1517 میں ترک عثمانیوں نے مملوک سلطنت کو شکت دی اور مصر و Syriaکو فتح کر لیا۔ حجاز سلطنت جدہ اور مکہ پرمشتمل قائم ہوئی۔ عثمانیوں نے کمزور دیوار کو1525 میں از سرِ نو تعمیر کیا۔ نئی ترکی دیوار چھ گھڑیالی ٹاوروں اور چھ دروازون پر مشتمل تھی۔ ان میں مکہ دروازہ(Gate of Makkah)مشرقی دروازہ تھا اور ’المغربیہ‘ دروازہ پورٹ کی جانب کھلتا تھا یہ مغربی دروازہ تھا۔ ’شریف دروازہ‘ (Gate of Sharif)شمال(ساؤتھ) دیگر دروازوں میں البنت (Al-Bunt)، دروزہ شام (Gate of Al-shan)، اسے الشریف دروازہ بھی کہا جاتا تھا اور مدینہ دروازہ(Gate of Medina)نارتھ کی جانب کھلتا تھا۔ ترکیوں نے شہر کے سپاہیوں کے لیے ایک قلعہ بھی تعمیر کیا تھا۔ 19ویں سینچری میں اوپر بیان کیے گئے ساتوں دروازوں کو ملا کر ایک دیو ھیکل گیٹ جس کے چار ٹاور تھے بنا دیا گیا تھا۔ ان دیو نما دروازوں میں شام دروازہ جو شمال کی جانب ، مکہ دروازہ مشرق کی جانب شریف دروازہ ساؤتھ کی جانب اور دروازہ مغربیہ سمندر کے ساحل کی جانب کھلتا تھا۔

خلافت عثمانیہ 1517 میں یہاں اپنا اقتدار قائم کیاجو دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہا۔1745 میں عبدالوھاب کی وہابی تحریک پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی ۔ عثمانیوں نے میں مصریوں کے ساتھ مل کر وہابیوں کے خلاف تحریک شروع کی لیکن 1802 میں نجدی افواج نے عثمانیوں سے مکہ اورجدہ کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ جب شریف غالب آفندی نے سلطان محمد دوم کو اپنی اس فتح کے بارے میں مطلع کیا تو سلطان نے مصری وائسرئے محمد علی پاشا کو حکم دیا کہ وہ ان شہروں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلے۔ محمد علی نے 1813 میں جدہ کی جنگ کے بعد شہر کا قبضہ دوبارہ حاصل کرلیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف حسین بن علی نے عثمانی ترک سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے شاہ حسین نے’ مملکت حجاز‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ ابھی مملکت مستحکم بھی نہ ہوئی تھی کہ شاہ حسین بن علی کے تعلقات ابن سعود کے ساتھ خراب ہوگئے اوردونوں کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔ ابن سعود اس وقت نجد کا حاکم تھا۔ابن سعود کے مکہ شہر پر کنٹرول کے نتیجے میں حسین بن علی دسمبر 1924 کو مستعفی ہوگیااور اس کا بیٹا علی بن حسین حجاز کا نیا سربراہ بنایا گیا۔ دسمبر1925 میں وہابی لیڈر ابن سعود نے سعودی مملکت پر قبضہ کر لیا ۔ 1926 میں ابن سعود جو نجد کا گورنر تھا نے اپنے مرتبے میں اضافہ کرلیا اور’ شاہ حجاز‘ کے مرتبے پر فائز ہوا۔یہاں سے سعودی خاندان کی حکمرانی کا آغاز ہوا جو تا حال جاری ہے۔ شاہ عبد لعزیز 1950 تک اس مملکت کے فرمانرواں رہے۔ان کے انتقال کے بعد شاہ سعود بن عبد العزیز تخت نشیں ہوئے۔جدہ کی وہ حیثیت بھی جاتی رہی کیوں کہ اس شہر کو کئی حصوں میں منقسم کردیا گیا۔ اب جدہ سعودی عرب کے صوبے مکہ کا ایک اہم شہر ہے۔1928 سے1932 کے درمیان جدہ میں شاہ عبد العزیز کے نئے شاہی محل کی تعمیر کی گئی۔ 1963کے بعد یہ محل شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 1995 سے اسے ریجنل میوزیم برائے آثار قدیمہ اور نژاد نامہ (وصف الأعراق البشریہ) کے لیے مختص کر دیا گیا۔شہر کی قدیم حفاظتی دیوار اور دروازوں کو1947 میں بے نشان کر دیا گیا۔1982 میں لگنے والی آگ نے شہر کی قدیم اور یادگار عمارات جنہیں ’البلد‘ کہا جاتا ہے تباہ کر دیا۔ لیکن ان میں سے بعض اب بھی موجود ہیں جیسے نفیس ہاؤس، گابل ہاؤس وغیرہ۔

جدہ اپنی قدیم تاریخی روایات کے ساتھ جدید بلند و بالا اور خوبصورت عمارات، کشادہ شاہراہوں ، طویل پلوں،بے شمار تعلیمی اداروں، حسین مساجد اور جدید رہایشی سہولتوں ، وسیع و حسین مالوں کے ساتھ سعودی عرب کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک مثالی شہر بن چکا ہے۔ یہاں سعودیوں کے علاوہ بے شمار غیر ملکی بھی آباد ہیں۔ میرا قیام جدہ کے جدید رہائشی علاقے ’حیی الصفاء ڈسٹرکٹ 9میں اپنے بڑے بیٹے عدیل کے پاس ہوتا ہے ۔ گھر کے ہی نزدیک ہی ’مسجد ابی عبیدہ عامر بن الجراح‘ میں نمازیں اداہوتی ہیں۔ مسجد ائر کنڈیشن، خوبصورت قالین سے مزین ہے۔

جدہ میں رہتے ہوئے جدید شاپنگ سینٹرزکے علاوہ جدہ فاؤنٹین کو دیکھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا ضروری عمل ہوتا ہے۔ رات میں فاؤنٹین کا نظارہ بہت ہی دلفریب ہوتا ہے۔ جدہ میں قائم شاہ فہد فاؤنٹین کو دنیا کی سب سے اونچی فاؤنٹین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ جدہ فاؤنٹین کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ بحر احمر کے ساحل پر بنائی گئی یہ فاؤنٹین جدہ شہر کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔جدہ کا موجودہ ائر پورٹ2006 میں تعمیر ہوا۔ یہ دنیا کے جدید ائر پورٹس میں سے ایک ہے۔ جدید سہولتوں سے آراستہ۔ اس ائر پورٹ میں سالانہ 17 ملین سے زیادہ مسافروں کو خدمات فرہم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس وقت اس کے دو ٹرمینل ہیں ایک نارتھ جو غیر ملکی مسافروں کے لیے جب کہ ساؤتھ سعودی عرب یعنی داخلی مسافروں کے لیے ہے۔ عمرہ اور حج ٹرمنل ان کے علاوہ ہے۔ جہاں پر صرف عمرہ اور حج پر آنے والے
زائرین ہی آتے ہیں۔

مساجد کو خوبصورت سے خوبصوت تعمیر کرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ اور طرٔہ امتیازرہا ہے۔ یوں تو دنیا کے ہر ملک میں حسین سے حسین مساجد موجود ہیں لیکن سعودی عرب میں مساجد کی تعمیر اور دلکشی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ہر مسجد اپنی جگہ متبرک ہونے کے ساتھ ساتھ حسین ہے لیکن اماں حوا کے شہر جدہ میں ایک مسجد ایسی بھی ہے جو پانی پر تیرتی مسجد (Floating Mosque)کہی جاتی ہے۔ دستاویزات میں اس کا نام ’الرحمہ مسجد ‘ (Al-Rahma) ہے ،عام شہری اسے ’فاطمۃ الزہرہ مسجد‘ بھی کہتے ہیں لیکن یہ پانی پر تیر تی مسجد کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔اس طرح کی ایک مسجد ملائشیا ء میں بھی موجود ہے لیکن جدہ کی یہ مسجد جدید طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ اسلامی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

مجھے اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا۔

جدہ میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کا قیام ملک شاہ الفیصل کے دور حکومت میں 1967 میں عمل میں آیا۔ اسلامی شعار کے مطابق جامعہ ملک عبدالعزیز جدہ کے دو کیمپسز ہیں ایک طالبات (خواتین) کے لیے دوسرا مردوں کے لیے۔ دونوں کیمپسیز ساتھ ساتھ ہیں لیکن دونوں کے تمام تر انتظامی اور تعلیمی امور علیحدہ علیحدہ انجام پاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان اونچی دیوار پردہ کیے ہوئے ہے ۔جامعہ عبد العزیز جدہ کے اہم اور خوبصورت علاقے ’’رحاب‘‘ میں ایک وسیع و عریض قطعہ زمین پر واقع ہے۔ اس کے مغربی سمت مکہ روڈ ہے جو جدہ ائر پورٹ، مدینہ منورہ سے مکہ کی جانب جارہی ہے۔ راقم کو اس جامعہ اور اس کی وسیع لائبریری کو دیکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جدہ میں اسکولوں ، کالجوں ، جامعات کے علاوہ میوزیم بھی ہیں ۔ سرکاری میوزیم کے ساتھ ساتھ نجی میوزیم بھی ہیں ۔ ان میں جدہ میونسپلٹی میوزیم، عبدا لرؤف خیل میوزیم،الطیب میوزیم،جدہ سائنس و ٹیکنالوجی میوزیم،خوزم میوزیم،جدہ ریجنل میوزیم (Jedda Regional Museam of Archaeology and Ethnography،نفیس ہاؤس اور (Human Heritage Musuam)ہیں۔

پاکستان انٹر نیشنل اسکول جدہ (انگلش سیکشن) ‘ جدہ کے خوبصورت علاقے رحاب میں واقع ہے۔ اس اسکول کا قیام محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدکے دوسرے دور حکومت میں 1995 میں عمل میں آیا تھا۔ ا، س کی عمارت وسیع، کشادہ ، دلکش اور جاذب نظر ہے۔اسکول انگلش میڈیم ہے اس حوالے سے یہ کیمرج انٹر نیشنل پرائمری پروگرام اور (CIPP) سے الحاق شدہ ہے۔ میرا پوتا صائم عدیل بھی اس اسکول میں زیر تعلیم ہے اب وہ کلاس سوم میں ہے۔ اسکول میں بچوں کے والدین کاان کے اساتذہ سے ملاقات کا اہتمام تھا یعنی Parents Meetingتھی۔ ہم بھی ساتھ ہولیے۔ سوچا کہ اس بہانے اسکول کو اندر سے ہی دیکھ لیں گے۔ باہر سے تو اکثر دیکھا ہی کرتا تھا۔ اسکول کے چاروں طرف بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان کے قومی پرچم کی تصوریریں آویزاں ہیں۔ دیکھ کر اچھا لگا اورخوشی ہوئی۔ مرکزی دروازہ پر Rising Pakistan کا بورڈ آویزا ہے ۔جوں ہی ہم اسکول میں داخل ہوئے انتہائی خوشگوار احساس نے ہمارا استقبال کیا۔ پاکستان اور پاکستانیت اپنے عروج پر تھی۔ حب الوطنی کا جذبہ اپنی بہاریں دکھا رہا تھا۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم پاکستان کے کسی اچھے سے اسکول میں ہی ہیں۔ صاف ستھرا ، روشن ، ہوادار ماحول۔ ایک بورڈ پر جلی حروف میں لکھا تھا Happy Saudi National Day ، 23 اکتوبر سعودی عرب کا قومی دن ہے۔ اس دن سعودی عرب میں عام تعطیل بھی ہوتی ہے۔

جدہ شہر کا ساحل اور اس پر موجود ایکوریم اور ڈالفن مچھلیوں اور پانی کی بلیوں کا انوکھا ، منفرد اور دلچسپ شو قابل تعریف ہے۔ ایکوریم ایک عام سے بات ہے ہر ملک، ہر شہر میں مچھلیوں کی خوبصورت اور نایاب اقسام کو ایکوریم میں قدرتی انداز سے شیسے کے گھروں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے ساحل پر بھی اس قسم کا ایکوریم موجود ہے لیکن جدہ کے ساحل پر موجود فقیہ ایکوریم ہر اعتبار سے عمدہ اور حسین ہے۔ اس میں مچھلیوں کی انواع و اقسام کا کیا کہنا ۔ ہر رنگ، ہر سائز، بناوٹ اور جسامت کے اعتبار سے حسین و جمیل مچھلیاں یہاں رکھی گئی ہیں۔ اس سے بڑھ کر مچھلیوں کو محض شیشے کے شو کیسو میں محفوظ ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان شو کیسوں کو قدرتی رنگ دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ایکوریم میں ایک جگہ ایسی بھی آتی ہے کہ جہاں وہاں موجود لوگوں کے تین جانب دائیں،بائین اور اوپر شیشے کے پیچھے رنگ برنگی ،چھوٹی بڑی خوبصورت و حسین مچھلیاں ادھر ادھرلہراتی پھر رہی ہوتی ہیں۔ یعنی فرش کو چھوڑ کرتین جانب شیشہ گولائی میں اور شیشے کے پیچھے مچھلیاں چہل قدمی کرتی نظر آرہی ہوتی ہیں۔ اوپر کی جانب شیشہ اتنا ہی اوپر تھا کہ ہمارا ہاتھ بہ آسانی اس پر لگ رہا تھا۔ اس وجہ سے کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا کہ کوئی بڑی مچھلی ہمارے اوپر ہی آجائے گی۔ یہ ایک حسین، دلچسپ اور دیدہ ذیب منظر تھا ۔شیر ، ہاتھی اور دیگر جنگلی جانوروں کو انسانی حکم کے مطابق عمل کرنے کے عملی مظاہرے ہم نے بہت دیکھے لیکن ڈولفن اور پانی کی بلی کے ساتھ انسانوں کی دوستی اور ان کے کہنے کے مطابق عملی مظاہرہ جدہ شہر کے اس فقیہ ایکوریم میں موجود ڈالفن شو میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پانی کے حوض (پول )کے ایک جانب پویلین بناہوا ہے جیسے اسکوئش کورٹ کے ایک جانب شائقین کے لیے آڈیٹوریم بنا ہوا ہوتا ہے۔ ڈالفن شو کے لیے بھی اسی طرح کا سوئمنگ پول اور ایک جانب خوبصورت آڈیٹوریم بنا ہواہے ۔ یہاں آنے والوں کی بھاری اکثریت اپنے بچوں کو اس منفرد شو سے لطف انداز کرانے آئی تھی۔ صاف ستھرے پانی کے حوض میں چھ ڈالفن موجود تھیں۔ کبھی کبھی اوپر بھی آتیں۔ اس حوض کے برابر ایک الگ حوض تھا جس میں چند پانی کی بلیاں ادھر ادھر مستارہی تھیں۔ کچھ دیر انتظار کے بعد مچھلیوں اور بلیوں سے کرتب کرانے والے نمودار ہوئے، ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکریاں تھیں جن میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ یہ مچھلیاں بلیوں اور ڈالفن کی خوراک تھی جو انہوں نے کرتب کے دوران انہیں کھلائیں۔ اب دو کرتب باز پانی کی بلیوں کے حوض کی جانب گئے اور کچھ دیر میں دونوں کے ساتھ ایک ایک پانی کے بلی چلی آرہی تھی۔ سب نے تا لیاں بجاکر ان کا استقبال کیا۔ دونوں بلیاں سامعین کے سامنے لکڑی کے بنے ہوئے اسٹینڈ پر اپنے اگلے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنے منہ کو اوپر کی جانب کر کے سامعین کی تالیوں کا جواب دیا۔ دونوں بلیوں کے پاس ایک ایک کرتب باز موجود تھا۔اب انہوں نے ان بلیوں سے کرتب کرانے شروع کیے۔ ایک ایک کرکے بلیوں نے اپنے اگلے پیر سے سلام کیا، ہر عمل کے بعد کرتب باز ان کے منہ میں باسکٹ سے ایک ایک مچھلی نکالتا ان کے منہ میں ڈال دیتا۔ مچھلی کھانے کے لیے بلیاں اپنا منہ کھولتیں۔ باری باری بلیاں کرتب کررہی تھیں اور سامعین ان کو تالیان بجا کر داد دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بلیوں کا شو ختم ہوا۔ اب ڈالفن مچھلیوں کا شو شروع ہوا۔ مائیک پر عربی دھن شروع ہوئی محسوس ہورہا تھا کہ گانا بھی ساتھ میں گایا جارہا ہے۔ اس دھن کے ساتھ ہی ڈالفن مچھلیوں نے جو تعدادمیں چھ تھیں پانی میں اچھل کود شروع کردی۔ جیسے وہ میوزک پر ڈانس کررہی ہوں۔ تین کرتب باز تھے ہر کرتب باز کے ساتھ دو دو ڈالفن تھیں ایک دائیں جانب دوسری بائیں طرف پانی میں ۔ مچھلیوں نے کرتب شروع کیے۔ سب سے پہلے پانی سے منہ نکال کر سامعین کو سلام کیا،کرتب باز نے باری باری ایک بانس سامنے کیا مچھلیوں نے باری باری اس بانس کے اوپر چھلانگ لگائی۔ حوض کے کافی اوپر گیندیں لٹک رہی تھیں مچھلیوں نے اوپر اُچک کر ان گیندوں کو چھوا، دو ننھی بچیوں کو لائف جیکٹ پہنا کرچھوٹی سی بوٹ میں بیٹھا یا گیا ایک کرتب باز اس بوٹ کو بیچ حوض میں لے گیا جہاں چھ کی چھ مچھلیاں موجود تھیں، ہر مچھلی نے کرتب بازوں کے اشاروں پر بوٹ کے اوپر ایک جانب سے دوسری جانب چھلانگ لگائی، ایک کرتب باز پانی میں کود گیا مچھلیوں نے اس کرتب باز کو پیار کیا، اسے پیچھے سے دھکا دیتے ہوئے حوض میں تیزی سے تیرایا، اسی طرح کے بے شمار کرتب ڈالفن دکھاتی رہیں کرتب باز کر تب پر ایک ایک چھوٹی مچھلی خوراک کے طور پر ہر مچھلی کے منہ میں ڈالتے اور وہ منہ کھول کر مچھلی نگل لیا کرتیں۔ ڈالفن کا یہ شو واقعی منفرد اور دلکش تھا۔ لطف آیا۔ڈالفن مچھلیوں کو کرتب بازوں نے اپنے اشاروں پر مختلف کرتب کر نا کس طرح سکھایا اور وہ خوبصورتی سے یہ کرتب کررہی ہیں۔ شو کے آخر میں ڈالفنوں نے اپنے منہ کو نیچے کرکے اپنی دم کو پانی سے باہر نکالا اور دیکھنے والوں کو دم ہلا کر سلام کیا۔ اس طر یہ شو اختتام کو پہنچا۔

سعودی عرب کا شہر جدہ جدید دنیا کا حسین شہر ہے۔ یہاں کی چوڑی چوڑی صاف ستھری شاہراہیں اور ان پر بڑی بڑی رنگ برنگی کاریں اور گاڑیاں اس شہر کے حسن کا احساس دلا رہی ہوتی ہیں۔ راقم کو گزشتہ چار سالوں میں پانچویں مرتبہ یہاں آنے اور رہنے کا اتفاق ہوا، اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ میں اسی شہر کا باسی ہوں۔ البتہ زبان ہمارے اور یہاں کے مستقل باسیوں کے درمیان بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا کہ حکومتی سطح پر عربی کو قومی زبان اور سرکاری طور پر رائج کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا تھا لیکن اس پر کئی وجوہات کے باعث عمل نہ ہوسکا۔ کاش ایسا ہوجاتا تو جس طرح ہمارا روحانی رشتہ مکہ اور مدینہ سے ہے یہاں کی زبان کے ساتھی بھی ہوجاتے۔ یہاں آکر کام کرنے والوں کا سب بڑا مسئلہ رابطے کا ہوتا ہے اور زبان کی وجہ سے بے شمار مسائل موجود رہتے ہیں۔ عربی زبان سے بھی ہمارا روحانی تعلق ہے۔ سر دست اتنا ہی زندگی نے وفا کی تو اس شہر کے بارے میں اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ (24اپریل2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273590 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More