کیسے کیسے بیانات

ہمارے اخبارات ہر روز مختلف قسم کے بیانات سے بھرے ہوتے ہیں، جلے کٹے بیانات ،غصیلے بیانات،انتقامی بیانات ،بیانات کے جواب میں بیانات لیکن ان سب میں بعض بیانات ایسے بھی بھی ہوتے ہیں جو سنجیدہ ہونے کے باوجود مزاحیہ بیانات محسوس ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ، ان میں سیاسی بیانات کی تعداد سب سے زیادہ ہو تی ہے،اخبارات کے مستقل قارئین تو ان شخصیات کے بیانات سے بے حد محظوظ ہوتے ہیں جو اپوزیشن میں ہوں تو کچھ اور طرح کے اورحکومت میں ہوں تو بالکل بر عکس بیانات دیتے ہیں مثال کے طور پر مشہور سیاسی نجومی شیخ رشید کے آج کل کے ہر بیان میں ملک تباہی کے دہانے پہ کھڑا نظر آتا ہے جبکہ کچھ سال پہلے وہ’’ سید مشرف‘‘ کے وزیر اطلاعات تھے ان دنوں بقول ان کے ملک کو ترقی کے پَر لگے ہوئے تھے ،بہت سے بیانات ایسے بھی ہوتے ہیں جو سوالیہ انداز میں دیئے جاتے ہیں لیکن ان میں بعض بیانات خود ہی اپنا جواب بھی ہوتے ہیں، چندبیانات پر مبنی ایک انتخاب تبصروں کے ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں جو بظاہر تو سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان میں مزاح کی چاشنی بھی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے ۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ’’ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں مجھے ذلیل نہیں کیا بلکہ اپنی اوقات دکھائی،ایسی زبان کوئی تلنگا بھی نہیں بولتا‘‘ بے شک عزت اور ذلت اﷲ کے ہاتھ میں ہے ،البتہ خان صاحب قومی سیاست کے وہ’’ بھولے بادشاہ‘‘ ہیں جنہیں بات اور صورتحال کی سمجھ دیر سے آتی ہے،تحریک انصاف کواسمبلیوں سے اڑن چھو ہونے کی بھی بہت جلدی تھی اور واپسی کے لئے بے تابی بھی بہت، یوں بھی خان صاحب کی یاد داشت قابل رشک نہیں اسی لئے ان کی اور انکے ساتھیوں کی جانب سے اسمبلیوں ،جمہوریت اور وزیر اعظم کو جن الفاظ سے کنٹینر پر کھڑے ہو کر یاد کیا جاتا رہا انہیں بہت جلد بھول گیا انہوں نے اسمبلیوں میں واپسی بھی سوچے سمجھے بغیر کی ،اسمبلی میں قدم رنجہ فرمانا اس قدر مشکل ثابت نہ ہوا البتہ خان صاحب کی میڈیا کے ساتھ’’ اٹھکھیلیاں‘‘ کرنے کی عادت دھرنے کی ’’تپسیا‘‘ نے اس قدر پختہ کر دی ہے کہ اجلاس کے دوران اسمبلی کے باہر میڈیا سے کھیلنے سے باز نہ رہ سکے سو خواجہ آصف’’ جو ہے جو ہے‘‘ کرتے ہوئے خان صاحب اور انکی جماعت پر چڑھ دوڑے اور ’’پارلیمانی دید لحاظ ‘‘کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں کھری کھری سنا ڈالیں جن کی خان صاحب تو کیا شاید پارلیمنٹ میں موجود کسی رکن کو بھی توقع نہ تھی خیر جو ہونا تھا ہو گذرا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھتے نہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ تھوک کے حساب سے غلطی پر غلطی کرتے چلے جا رہے ہیں سو انکی سیاست کا گراف جو اگر کسی حد تک بڑھا بھی تھا اب تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے مگر انہیں اس کا احسا س نہیں، ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ قریبی رفقاء کی جی حضوری کی عادت لیڈر کو کہیں کا نہیں چھوڑتی،عمران خان کے پاس تو ویسے بھی مخلص ساتھیوں کی آسامیاں تا حال خالی ہی ہیں ،تحریک انصاف کے سر پر اسمبلیوں سے غیر حاضری پر رکنیت ختم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کے پاس سوائے دھاندلی کا شور کرنے کے اور کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ،اس لئے ان سے ’’اوئے سپیکر جو کرنا ہے کر لو‘‘کی ’’پالیسی‘‘ کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھی عمران خان کا کراچی کے جلسے میں ایک تازہ بیان سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے فرمایاہے ’’کہ اسمبلیوں میں گیدڑ بیٹھے ہیں ‘‘اب اس غیر پارلیمانی بیان پر تبصرہ ہم قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔

پنجاب کے نیک نیت وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ’’ عوام کو زہر آلود اشیا ء بیچنے والوں کی جگہ جیل ہے ،ملاوٹ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں‘‘ میاں صاحب آپ کے جذبے کو سلام لیکن ہمارے یہاں تو ملاوٹ والے جیلوں کی بجائے محلوں اور بنگلوں میں رہتے ہیں ،مرچوں میں اینٹیں آٹے میں سوکھی روٹیاں شامل کرنا معمول کی بات ہے، مشہورمٹھائیاں بنانے والے کپڑوں کو رنگنے والا رنگ استعمال کرتے ہیں اور منہ مانگے داموں مٹھائیاں بیچ ڈالتے ہیں ، کہیں کوئی روک ٹوک نہیں،قانون پر عملدارآمد کرانے والے مٹھائیوں کی ٹوکریوں کے عوض دن دیہاڑے ایمان فروخت کرتے پھرتے ہیں ،میاں شہباز شریف کا حکومت چلانے کا زیادہ تر انحصار اسی بیورو کریسی پر ہے جو ان ملاوٹ کرنے والوں کی حقیقی محافظ ہے ، اس لئے میاں صاحب ا فسر شاہی نامی بلائیں دور کرنے تک ملاوٹ والوں پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں ، اس لئے پرائس کنٹرول ہوں یا کوالٹی کنٹرول کمیٹیاں سب ڈھکوسلہ ہے ۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ’’ پہلے پاکستان اور پھر سعودی عرب کی مدد کی جائے ،‘‘ زرداری صاحب سب سے پہلے پاکستان کی بات کر کے پاکستانیوں کے زخم تو ہرے نہ کریں عزت مآب پرویز مشرف صاحب جن کی شان میں گستاخی‘‘ کی سزا حکومت کو کئی ماہ کے دھرنے کی شکل میں بھگتنا پڑی ہے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ملک کو دہشت گردی کی اس آگ میں جھونک گئے تھے جسے قوم کے بیٹے آج تک اپنا خون چھڑک کر بجھا نے کی کوشش کررہے ہیں،مشرف صاحب وہ قیدی ہیں جن پر ملکی تاریخ کا سنگین ترین مقدمہ قائم ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق جیسے بڑبولے بندے کو بھی ان پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں، سویہ صاحب تو جمہوریت کے ثمرات سے بھرپور مستفید ہو رہے ہیں، رہی بات سعودی عرب کی تومکہ اور مدینہ کے ساتھ رشتے کی خاطر ہرتعلق واسطہ اور مفاد قربان کیا جا سکتا ہے اس لئے یمن معاملے پر جس کو پاکستان کے مؤقف کی سمجھ نہیں آ رہی اس سے زیادہ نادان کوئی نہیں ہو سکتا۔ زرداری صاحب آپ کی جماعت کبھی وفاق کی نمائندہ ہوا کرتی تھی آپ اسے فرقوں میں تقسیم کر کے اورمحدود نہ کریں اور یمن کے معاملے میں بھی تنگ نظری کاثبوت نہ دیں۔ ویسے بھی آپ نے اپنے پانچ سالہ’’ دور مفاہمت‘‘ میں ملک قوم کی جتنی خدمت کی ہے وہ بھی ناقابل فراموش ہے تاریخ میں آپ کا نام بھی ہمیشہ زندہ رہے گا۔
Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 66862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.