چین کا اعتماد۔ہمارا امتحان

پہلے تو ہم سب پاکستانیوں کو بانیان پاکستان کا مشکور ہونا چاہیے کہ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ہمیں ایک ایسا خطہ ارضی لے دیا جس کی جغرافیائی اہمیت ہر بدلتے منظر نامے میں بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر فرصت ہو تو باوضو ہوکر علامہ اقبالؒ ‘ قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستیوں کے لئے فاتحہ خوانی ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لئے بہترین ملک قرار دیا جاتا رہا ہے ۔تھوڑے سے حالات سنبھلے ہیں اور چین و پاکستان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ٹریڈ کو ریڈور کی تعمیر کا معاہدہ کر لیا ہے جو دراصل شاہراہ خوشحالی ہے۔پینتالیس ارب ڈالر کے معاہدے جوں جوں زمین پر اترنا شروع ہوں گے۔ معاشی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوجائیں گے۔انجینئر اور مزدورتو ایک مکان بناتے وقت بھی ضروری ہوتے ہیں یہ تو تین ہزار کلو میٹر طویل کوریڈور ہے۔سینکڑوں پل بننے ہیں۔ کئی بلڈنگز تعمیر ہونی ہیں۔ کئی برس لگنے ہیں۔ بے روزگاری کا خاتمہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے لگنے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے مطابق 2018ء تک بجلی کے منصوبے مکمل ہوجائیں گے اور اگر پہلے سے شروع منصوبوں پربھی تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع رہا تو بجلی کی پیداوار کا تخمینہ بارہ سے پندرہ ہزار میگاواٹ کا ہے۔ اگر آئندہ تین برس میں بجلی کی کمی پوری ہوگی تو پاکستان کے اندر پہلے سے موجودہ انڈسٹری کا پہیہ بھی پوری رفتار کے ساتھ گھومے گا اور لوگوں کے دن پھریں گے۔ عام آدمی کو بھی عزت کے ساتھ تو روٹی کمانے کا اپنے ملک کے اندر ہی موقع پیدا ہوجائے گا۔

شک کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ہمیں ہماری حکومتوں نے اس تواتر کے ساتھ دھوکے دیئے ہیں کہ سامنے طلوع ہونے والا سورج بھی ہمیں کوئی فراڈ دکھائی دیتا ہے۔ ہماری بداعتمادی اور مایوسی ایسی نفسیاتی حدود میں داخل ہوگئی ہے کہ یقین کی نعمت ہم سے چھن گئی ہے ۔لیکن یہ ذہنی کیفیت ہمارے تلخ تجربات کا نتیجہ ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے رائے ساز ادارے بھی ہمارے عوامی مزاج کو ایسی حالت میں رکھنے کے لئے سازشی نظریات کو پروموٹ کرتے ہیں۔ چینی صدر کے تاریخی دورے کے حوالے سے بعض حلقے شک و شبہات پھیلا رہے ہیں۔ وہ بار بار ہمارے ذہنوں میں یہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ’’ اندر کھاتے‘‘ میاں برادران کی کوئی ڈیل ہوئی ہے ۔ کہیں نہ کہیں کوئی ’’کک بیک‘‘ بھی ہوگا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ دو ملکوں سے زیادہ ملکوں کے حکمرانوں کے درمیان طے پانے والا باہمی مفادات کے تحفظ کا معاہدہ ہے ۔ افسوس کے ساتھ ایسی لابیاں موجود ہیں جن کے تانے بانے واشنگٹن‘ دہلی اور مسلمان ہمسایہ ممالک کے ساتھ جاملتے ہیں۔ بیوروکریسی کا ایک حصہ بھی اس میں پیش پیش ہے۔انہیں یہ غم ہے کہ چین ان کے بچوں کو وظائف نہیں دے گا۔ ان کے ہاں چینی ایمبیسی کی طرف سے تحائف اور دیگر لوازمات نہیں پہنچتے اور چین کسی قسم کی مالی کرپشن کی آفر نہیں کرتا۔ امریکہ کے ساتھ اگر معاہدے ہوتے ہیں تو بڑے بڑے پردہ نشینوں کی نسلیں منور ہوجاتی ہیں۔یہاں معاملہ صرف اور صرف کام کرنے کا ہے۔ جو چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے ان کے اپنے نگران ہوں گے۔ اپنے انجینئر بھی ہوں گے اور یہ ایک پارٹنر شپ کے تحت سلسلہ آگے بڑھے گا۔ پینتالیس ارب ڈالر کوئی امداد نہیں ہے ۔کوئی قرضہ بھی نہیں ہے۔سرمایہ چین کا ‘منصوبہ پاکستان اور چین کا ‘ اور تکمیل بھی دونوں ملکوں نے مل کر کرنی ہے۔رشوت کا راستہ ہی بند ہے۔ اس لئے وہ گروہ اور خاندان جن کی فائیوسٹار لائف کا دارومدار ہی کرپشن پر رہاہے۔ وہ اس معاہدہ کے بارے میں افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

بعض سیاسی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر میاں نوازشریف اپنے دور میں اس معاہدے پر تیس فیصد عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ انتخابات میں (ن) لیگ کو شکست دینا مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے وہ ابھی تو خاموش ہیں لیکن جلد ہی وہ ’’اصولی اختلاف‘‘ کا جھنڈا اٹھا کر میدان میں ہوں گی۔ ایک بار پھر کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طور پر وسط مدتی الیکشن کا شور شرابا اٹھے تاکہ چینی کمپنیاں محتاط ہوجائیں اور منصوبہ پر کام لٹک جائے۔

یہ نصیب کی بات ہے۔میاں برادران کے اندر حکمرانی پر ہزار اختلاف ہیں۔میں خود بھی ان کا بڑا ناقد ہوں۔لیکن تھوڑی دیر کے لئے سوچیں۔ میاں برادران عمران خان کے ہاتھوں کل تک فارغ ہورہے تھے ۔پرویز مشرف نے اس خاندان کو اپنی طرف سے ہمیشہ کے لئے نااہل کردیا تھا۔ ملک بدری ہوگئی تھی ۔ یہ خاندان موت اور زندگی کی حدوں کو چھو کر آیا ہے۔ یہ ان کے نصیب میں لکھا تھا کہ یہ پاکستان کی ایسی خدمت سرانجام دیں گے۔ معاشی منصوبوں کی ماں۔ہاں پاک چین معاہدے۔ جو کبھی ممکن دکھائی نہیں دیتے تھے۔ وہ معاہدے میاں نوازشریف کے ہاتھوں سرانجام پائے۔

ہمیں چینیوں کے اعتماد پر پورا اُترنا ہے۔حسد‘بغض اور سیاسی مخاصمت کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی خاطر چینیوں کے لئے راستہ بنانا ہے۔ ان کو محبت دینی ہے ۔ ان سے بھائیوں والا سلوک کرنا ہے۔ اب ہمارا امتحان شروع ہوگیا ہے۔
Dr Murtaza Mughal
About the Author: Dr Murtaza Mughal Read More Articles by Dr Murtaza Mughal: 20 Articles with 13179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.