لہو پکارے گا آستیں کا

بھارت نے ممبئی حملوں میں ایک بے گناہ نوجوان اجمل قصاب کوملوث کرکے اس پرایک جھوٹامقدمہ قائم کرکے اسے پھانسی پرلٹکادیااور بظاہرجیل ہی کے اندراس کی تدفین کابھی اعلا ن کردیاگیا۔اندراج مقدمہ سے لیکردورانِ سماعت کئی بارحقائق پکارپکارکرپوری دنیاکوبھارتی نیتاؤں کی دروغ بیانی سے آگاہ کرتے رہے اور اب اجمل قصاب کے آسودۂ خاک ہونے کے بعد مقدمہ لڑنے والے بھارتی سرکاری وکیل اجول نکم نے اعتراف کیاہے کہ وہ اجمل قصاب کے بارے میں جھوٹ بولتارہاہے۔ اس کاکہناہے کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اجمل قصاب نے جیل میں مٹن بریانی کی خواہش کی ۔ ایساصرف شدت پسندوں کے حق میں بننے والی لوگوں کی جذباتی لہر کوختم کرنے کیلئے کیاگیا یعنی ''لہوپکارے گا آستیں کا''کے بقول سچ ایک بارپھرسچ ثابت ہوگیا۔

جے پورمیں ہونے والی انسداددہشتگردی کی کانفرنس کے بعد ایک صحافی سے گفتگوکرتے ہوئے اجول نکم کاکہناتھا کہ ''اجمل قصاب نے کبھی مٹن بریانی کی خواہش نہیں کی اورنہ ہی جیل حکام کی طرف سے اسے مٹن بریانی دی گئی۔جیل میں اجمل قصاب کی ہرحرکت پرنظر رکھی جاتی تھی اوراجمل قصاب اس بات سے واقف تھا''۔نکم نے مزیدبتایاکہ ایک روز کمرہ عدالت میں اجمل قصاب نے سرجھکایا،دیکھاگیاکہ اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے ہیں۔ میڈیاپرچندساعت کے بعدیہ خبر نشرکردی گئی کہ اجمل قصاب عدالت میں رونے لگا،موقع پر موجودایک صاحبہ نے ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر کہاکہ آج رکھشابندھن ہے ،یہ دن بہنوں کے بازوؤں پر بھائیوں کی طرف سے راکھی باندھنے کادن ہے،لگتاہے کہ اجمل قصاب کواپنی بہنیں یادآگئی ہیں اوروہ روپڑاہے۔بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس خیال کی تائیدکی (جبکہ یہ بنیازادے نہیں جانتے تھے کہ اجمل قصاب جسے جس مذہب یعنی اسلام کا پیروکارظاہرکیاجارہاہے اس میں راکھی باندھنے کاکوئی تصور نہیں)۔کمرہ عدالت میں موجوداورباہربھی بعض لوگ یہ کانا پھوسی کرتے سنے گئے،سوچنے کی بات ہے کہ یہ لڑکا دہشت گردہے بھی یانہیں؟کیاعوام کی آنکھوں میں دھول تونہیں ڈالی جارہی؟
اجمل قصاب دہشتگردنہیں تھا،یہ حقیقت توقیام مقدمہ کے فوراً بعدکھل کرسامنے آچکی تھی ۔اجمل قصاب ممبئی میں ٢٠٠٨ء میں ہونے والے حملوںمیں شمولیت کے الزام پرمشہور ہوا۔ اس کاتعلق پاکستان کے گاؤں فریدکوٹ سے بتایاگیامگرجب میڈیاکی بھاری تعدادمختلف بھیس بدل کر فریدکوٹ پہنچی توگاؤں کے تمام افرادنے ایسے کسی بھی شخص کوجاننے سے لاعلمی کا اظہارکیا۔اجمل قصاب کو مسلمان جہادی بتایا گیا مگرزخمی حالت میں اجمل قصاب کے انٹرویومیں جب یہ دکھایاگیاکہ وہ بھگوان سے معافی مانگ رہاہے تواس کامسلمان ہونا مشکوک معلوم ہوا۔جرح کے دوران بھی وہ یہ نہ بتاسکاکہ ''جہادی کیاہوتاہے''۔
اجمل قصاب پر''را''اور''موساد''کی مشترکہ کاوش سے مقدمہ قائم ہوااوراس کااجمالی خاکہ یوں بنتاہے کہ نومبر٢٠٠٣ء کو ممبئی میں دس شدت پسندوں نے حملہ کیاجس میں ١٦٦/ افراد ہلاک سینکڑوں زخمی ہوئے۔١٠حملہ آوروں میں صرف اجمل قصاب کوہی زندہ پکڑاجاسکا۔اس کی گرفتاری ٢٧نومبر٢٠٠٨ ء کوعمل میں لائی گئی ،مبینہ طورپراس نے ٣٠نومبر ٢٠٠٨ء کوپولیس کی حراست میں جرم کااعتراف کیا۔١١جنوری۲۰۰۹ میں ایم ایل تھلیانی کو مقدمے کاخصوصی جج مقررکیاگیاجس نے آرتھرروڈجیل کے اندرمقدمے کی سماعت کی، خصوصی عدالت نے انجلی واھمارکواجمل کاوکیل مقررکیا۔ملزم پرفردجرم عائدکی گئی ،اس میں عائدالزامات کواس نے مستردکر دیا۔اس نے اپنے طبی معائنے کی درخوست کی مگروہ بھی مسترد کر دی گئی اورجھوٹ پرمبنی مقدمے کی یکطرفہ کاروائی کے بعد اجمل قصاب کو٢١ نومبر کو پھانسی دے دی گئی۔دورانِ مقدمہ اس نے عدالت عالیہ اورعدالت عظمیٰ میں اپنی سزاکے خلاف اپیلیں کیں جومنظورنہیں ہوئیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل مسلسل دروغ بیانی سے کام لیتارہا۔١٩نومبر ٢٠١١ء کواس نے عدالت کو بتایا کہ ٢٦/١١کے حملہ آور(بشمول اجمل قصاب) بھارت میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے۔ایک موقع پراس کا یہ کہناتھاکہ ماتحت عدالت نے اجمل قصاب کااقبالی بیان قبول کرنے کی غلطی کی تھی اوروہ ایک جھوٹاآدمی ہے۔ اجمل قصاب کے وکیل امیل سولیرنے وکیل سرکارکے بیان پر جرح میں کہاکہ اجمل پرجنگ چھیڑنے کاالزام عائدنہیں کیاجاسکتا۔ کہاگیاہے کہ اجمل پاکستان سے کشتی کے ذریعے آیاجبکہ جس کشتی کا ذکرکیاگیااس میں دس آدمی سماہی نہیں سکتے۔پولیس نے اسے مقدمے میں پھنسانے کے لیے جھوٹی کہانی گھڑی ہے۔وکیل صفائی نے یہ دلیل دی کہ ثبوت دبادیے گئے ہیں، صرف چندسی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جوبالکل غیر متعلقہ اورغلط ہیں۔اجمل نے ٧دسمبر٢٠١٠ء کو پولیس افسر ہیمنت کرکرے اوردیگرپولیس حکام کے قتل سے انکارکیا ، اس کے وکیل کاکہناتھاکہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جسم میں پائی گئی گولیاں اجمل قصاب سے برآمدربندوق سے نہیں ملتی ہیں۔

بھارتی وکیل اجول نکم نے اپنے تازہ بیانوں کااعتراف کرتے ہوئے جس بھارتی میڈیاپرالزام عائدکیاکہ اس نے میرے جھوٹ (بریانی کھانے کی خواہش)کو بڑھاچڑھا کر بیان کیا تھااب وہی میڈیااجمل قصاب کی سزاکومشکوک اورباطل قراردینے میں شد ومدکے ساتھ مصروف ہوگیا ہے ۔بھارتی حکمران،وکلاء اور میڈیاکے کرداروعمل کے انکشافات ہوتے رہیں گے اور بھارت مزیدننگاہوتارہے گامگراس وقت زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ بھارت میں جومذکورہ مقدمہ قائم ہوااس میں حافظ سعید،ذکی الرحمان لکھوی سمیت دیگر افرادکے خلاف بھی مقدمہ قائم کیا گیا اوران دونوں پاکستانی حضرات کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے گئے ۔اب ان کے خلاف پاکستان میں مقدمہ زیر سماعت ہے جس کاذکرزیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
٢٦نومبر٢٠٠٨ء میں ممبئی حملوں کے فوراًبعدحکومت پاکستان نے اس کیس میں اقوام متحدہ کی پاس کردہ جبری قرار دادکی روشنی میں لشکرِ طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی اوران کے ساتھیوں کے خلاف پاکستان کے قوانین کے تحت مقدمات قائم کئے مگرٹھوس شواہدکی عدم موجودگی نے پاکستان کی عدلیہ کوبارباران کی رہائی پرمجبورکردیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ممبئی دہماکوں کے لمحہ بھرکی دیر کیے بغیرلشکرِ طیبہ اوراس کی قیادت کودہشتگردوں کی فہرست میں شامل کردیاتھا۔جماعت الدعوہ بھی ''دہشتگرد''تنظیم قرارپائی اور مطالبہ کیاگیا کہ اسے بھی کالعدم قراردیاجائے۔کونسل کاکہناتھا جماعت الدعوہ دراصل لشکرطیبہ کادوسرا نام ہے اس لیے پابندیوں کااطلاق اس پربھی ہوتاہے۔اس دوران امریکی دباؤ پر لشکرطیبہ کے امیرذکی الرحمان سمیت اس تنظیم کی قیادت اور جماعت الدعوہ کے امیرپروفیسر حافظ سعید کوحکومت گرفتار کرکے جیل بھجوایااوران سب پرپاکستان کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا گیا۔جماعت الدعوہ کے امیرحافظ محمدسعید کو پاکستان کی عدالتوں نے ممبئی کیس سے باعزت بری قراردیتے ہوئے پہلے ہی رہاکردیاجبکہ گزشتہ سات برسوں سے ذکی الرحمان لکھوی اوران کے ساتھی ہنوزنظربندہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوکشمیراور فلسطین سے متعلقہ اپنی پاس کردہ قرار دادوں پرعملدرآمد کرانے کی کوئی فکر نہیں کہ جہاں نصف صدی سے زائد عرصے سے بے دریغ لہو بہہ رہاہے۔ملت اسلامیہ کشمیر اور ملت اسلامیہ فلسطین کوموت کے گھاٹ اتاراجا رہاہے ۔ دونوں مقامات پربھارت اوراسرائیل کی افواج کے ہاتھوں بے دریغ قتل عام میں اب تک لاکھوں افرادکوشہیدکردیاگیامگراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نظروں میں ان لاکھوں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں،اسی لئے اس کی طرف کوئی توجہ اورالتفات نہیں، اس کے علی الرغم ٢٠٠٨ ء کومشکوک حالات میں ممبئی دھماکوں اوران دھماکوں کے نتیجے میں ١٦٠/افرادکی ہلاکت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ڈنڈاچلایا اور اس وقت کی حکومت پاکستان پراس قدردباؤبڑھایاکہ اسے مجبوراًاپنے شہریوں ذکی الرحمان لکھوی اوران کے ساتھیوں کو گرفتارکرکے اڈیالہ جیل میں نظربندکردیا،ان کے خلاف کیس دائر کیا گیا لیکن کذب بیانی پرمبنی کمزورکیس ہونے اور ممبئی دھماکوں کے حوالے سے عدم ثبوت کے باعث عدالتیں ذکی الرحمان لکھوی اوران کے ساتھیوں کی رہائی کے احکامات جاری کرتی رہیں۔

پاکستان کی عدلیہ سے صادرہونے والے رہائی کے احکامات پرہرباربھارت سیخ پاہوتارہا،ساتھ ساتھ امریکاان کی رہائی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ کے طورپرحائل ہوتارہا ہے۔یہ امریکی دباؤ ہی کانتیجہ ہے کہ ذکی الرحمان لکھوی اوران کے ساتھیوں کوگزشتہ سات برسوں سے بغیرکسی شواہدوثبوت مسلسل نظربندی کاسامناہے۔ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف ممبئی حملوں کے کذب بیانی پرمبنی بے بنیادکیس میں عدم ثبوت پرعدالتی احکامات کی یہ کڑی تھی کہ ١٢مارچ (جمعہ) کواسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی کالعدم قراردیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کاحکم دیااورحکومت کی جانب سے جاری نظربندی کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قراردے دیاگیا۔

پندرہ صفحات پرمشتمل عدالتی فیصلے میں کہاگیاکہ ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی کے نوٹیفکیشن کاکوئی قانونی جوازنہیں ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھارت نے آسمان سرپراٹھالیا۔اوباماکوفون کیا اورانہیں رام کہانی سناکرمددطلب کی،دوسری طرف دہلی میں تعینات پاکستانی سفیرعبدالباسط کودفترخارجہ طلب کرکے ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی کے متعلق ہائی کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے کے خلاف شدیداحتجاج کیاہے۔اس دوران میں غورطلب بات یہ ہے کہ بھارت کے ردّعمل کے ساتھ ہی امریکاکایہ سخت ردّعمل سامنے آیاکہ لکھوی گویاتوبھارت کے حوالے کیاجائے یاپھرعالمی عدالت میں ان کے خلاف ٹرائل کیا جائے۔

امریکاکے اس طرح کے سخت ترین ردّعمل سامنے آنے پر حکومت پنجاب کے حکم پر١٣ فروری کواسلام آبادکی ضلعی انتظامیہ نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی میں ایک ماہ کی توسیع کر دی تھی۔یہ چوتھی بارہواہے کہ جب حکومت کی طرف سے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی میں توسیع کی گئی ہے۔اس سے قبل بھارت کے ردّعمل پرپاکستان نے بھارت کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہاتھاکہ حکومت پاکستان عدالتی عمل پراثراندازنہیں ہوسکتی۔اس لیے بھارت ذکی الرحمان لکھوی کامعاملہ بے جاطورپرنہ اچھالے ۔دفترِخارجہ پاکستان کی ترجمان تسلیم اسلم کاکہناتھاکہ بھارت نے سمجھوتا ایکسپریس کے ماسٹرمائنڈ کوکیوں ضمانت دی جس پرپاکستان نے سوالات اٹھائے لیکن بھارت نے پاکستان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

ترجمان کاکہناتھاکہ بھارت کے عدم تعاون کے باعث ممبئی حملہ کیس ٹرائل نے طول پکڑا، خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آبادہائی کورٹ نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کالعدم قراردیتے ہوئے رہائی کاحکم دیاتھا۔بھارت کوتو ایک لمحے کے لیے اپنے دائرہ فکرسے نکال ہی دیں کیونکہ وہاں توانصاف ناپیدہے اوروہاں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا گاجرمولی کی طرح کاٹاجا رہاہے کہ اس امریکابہادرکو کیاہو گیاجوقانون کی پاسداری اورانصاف کی فراہمی میں بڑے سوانگ رچاتارہتاہے۔وہ عدلیہ کے فیصلوں پراس حدتک یقین رکھتاہے کہ پاکستان اوراسلام کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے خلاف امریکی جیوری کی طرف سے ٨٦سال قیدسنائے جانے کوعین انصاف قرار دے کراس پرعملدرآمد بھی کردیا۔ایسے میں وہ پاکستان کی عدالت کے فیصلے کومستردکیوں کررہاہے۔

عدالتی حکم پرذکی الرحمان کی رہائی کاحکم جاری ہونے پرامریکاکے سخت لہجے میں دیے گئے بیان سے اس امرکابلیغ اشارہ مل رہا ہے کہ وہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے پاکستان کی خود مختارعدلیہ کو رگیدنے کافیصلہ کر چکا ہے۔ اگرچہ پرویز مشرف ہی کے دورمیں امریکیوں نے پاکستان کے حوالے سے تضحیک آمیزرویہ اپنایا ہواہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس رویہ میں کمی آنے کی بجائے اس میں شدت آتی جارہی ہے۔بھارت کے شانہ بشانہ چل کراس نے لشکرطیبہ اور جماعت دعوہ کے خلاف عملی طورپرباضابطہ فریق بننے کاطرزِ عمل اپنالیاہے۔امریکاکا یہ معاندانہ رویہ لشکر طیبہ کے امیرذکی الرحمان کے خلاف امریکی طرزِعمل ٢٦نومبر ٢٠٠٨ء کوممبئی دھماکوں کے بعدسامنے آیا۔وائٹ ہاؤس کے بزرجمہروں نے پاکستان کوقائل کرنے کی مقدور بھرکوششیں کیں کہ وہ لشکرطیبہ اورجماعت دعوہ کے خلاف بھرپور کاروائی کرے جس کے بعدآزادکشمیرمیں بھی ٦٤جماعتوں پرنہ صرف پابندی عائدکردی گئی ہے بلکہ ان سے ہمدردی اورتعاون کرنے والوں کوبھی ایک انتہائی سخت نوٹیفکیشن جاری کردیاگیاہے لیکن یادرہے کہ اب آزادعدلیہ کے بعد پاکستان کی کوئی بھی حکومت کسی طورپربھی امریکاو بھارت کی خواہشات کی تکمیل نہیں کرسکتی جلدیابدیرحکومت کو عدلیہ کے سامنے سرجھکاناپڑے گا۔ یقیناً سابقہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کا عدلیہ کے حکم عدولی کاحشرصاحبِ اقتدار کے سامنے ہے۔

 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.