میری آہ!

میٹرک کے امتحان کے دوران کی بات ہے جب ایک اسٹودنٹ سے ملاقات ہوئے۔ میں نے اُ س سے امتحان کے بارے میں پوچھا کے یہ بتاؤ کے امتحان کیسے ہو رہے ہیں ؟؟ وہ مسکریا اور اُس نے جواب دیا کے اس سے پہلے آپ مجھے ایک سوال کا جواب دیجئے ! میں نے اُن سے کہا جی پوچھے ۔ تو اُنہوں نے کہا کہ اسکول والے یہ پرھنے کے بجائے نکل کرنے کی تعلیم دینا کیوں نہیں شروع کر دیتے ہاں؟ میں نے کہاکیوں ؟؟ کہا کے امتحان سے قبل اسکول والے کہ رہے تھے کے امتحانات میں سختی ہوگی اس کے ساتھ اور اس دفعہ رینجر بھی تعینات ہو گی ۔ لیکن جب ہم خوف میں مبتلا ہو کر امتحانی مرکز جا ہپنچے تو ایسا کچھ نظر نا ایا ۔ اسکے ساتھ جب ہم کمرہ کلاس میں داخل ہوئے تو وہاں تو وہ کمرہ امتحانی کمرہ کا بلکل بھی منظر پیش نہیں کر رہا تھا۔ تما م طلباء ایسے نکل کر رہے تھے جسے وہ اسکول میں اپنا رہا ہوا کام اپنے ساتھ والے سے کر رہے ہوں ۔اس کے ساتھ سب کے سامنے کاپیان کھلی ہوئی تھی۔ میں بہت حیران ہوا اور اُس کے یہ الفاظ سن کے میں لاجواب ہو گیا ! کیوں کے اُس کی یہ باتیں سننے کے بعد میرے پاس کوئی بات نہیں رہی ۔ ہمارے ملک کا تعلمی نطام یہ ہے سمجھ نہیں آتا قصور کس کا ۔ اُس بچے کا یا پھر ملک کے حکمرانوں کا۔ وہ بچے جو پورا سال اسکول جاتے ہیں اِس کے ساتھ اُستاد کی مار اور گھر والوں ڈانٹ مشقت ، اور تکلف کے ساتھ سردی گرمی میں بھاری بستہ اُٹھا کر اسکول کو رُخ کرتا ہے اس کے ساتھ وہ بچہ جو پورا سا ل نا تو اسکول کا رُخ کرتا ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔ اس وجہ سے طلباء سے پڑھنے کا رجہان ختم ہو رہا ہے ۔ اب تو اکثر طلباء محنت کرنے کو بھی تیار نہیں اُن سے پوچھا جائے تو وہ آرام کے ساتھ جواب دیتے ہین آخر میں امتحان کے لئے جا کر نکل ہی کرنے ہیں تو پڑ ھ کر کیا کرنا؟ بڑتے ہوئے پرائیوٹ اسکول اور محکمہ تعلیم کی عدم توجہ کی وجہ سے ملک ِ پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں تعلیم کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ یہ طلباء ہیں جن سے اقوام کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے اگر اُن کو ہی کُھکلا کر دیا جائے اگر اُن کو ہی تعلیم سے محروم کردیا جائے۔ تو پھر کیا ہی کہنے اس ملک کے۔ سرکاری سکول تو تقریباً ختم ہو گئے ہیں وہاں پر رجسٹرڈ اُستادوں کو تنخواہ تو ملتی ہیں لیکن وہ اُستاد تو کبھی اسکول گئی ہی نہیں ہیں۔ اور اکثر اسکول باڑوں اور کھیل کے میدانوں میں بدل گئے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے تعلیم کا حال ہے ۔ حکمران تو ہر سال پیپر سے قبل بڑی بڑی باتیں تو کر ڈالتے ہیں لیکن اُن پر عمل نہیں ہوتا ۔ اس صورتِ حال سے اُن بچوں پر کافی اثر پڑھے گا جو تعلم کے حصول کے لئے مخلص ہیں ۔ کیوں کے جب کوئی کام بنا مشکل کے ہورہا ہو تو کوئی بیوقوف تو نہیں مشقت اُٹھائے۔ صرف اچھی تعلیمی نظام اور اچھا صحت کا نظام ہی ہر ملک کو ترقی کی راہوں ہر گمزن کر سکتا ہے۔ جب تک ہمارے ملک کے مصروف حکمرانوں کی نظرِکرم تعلمی نظام پر نہیں جائے گی تب تک اس ملک میں تبدیل ممکن نہیں اور نا ہی یہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ترقی صرف اچھی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ اگر اچھی تعلیم ہوگی تو اچھے انجینئر اور اچھا ڈاکٹر اچھے سیاست دان اچھے شہری، اور ایک تعلیم یافتہ قوم مل سکتی ہے جو اس ملک کو تبدیل کرنے میں اپنا موئثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اگر تعلیم یافتہ شہری ہوگا تووہ ملک میں موجود قانون پر عمل کرے گا اور ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اپنا بہتر قردار ادا کریگا۔اور اچھی تعلیم اچھے بُرے میں تمیز پیدا کرتا ہے ۔ اور اچھی تعلیم ہی اس ملک کو موجودہ درپیش مشکلات سے نکال سکتی ہے۔
 
Yasir Jadoon
About the Author: Yasir Jadoon Read More Articles by Yasir Jadoon: 6 Articles with 8502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.