میرا بھائی

یہ غالباجون 2007 کا ذکر ہے ،میں کراچی کے ایک معروف مدرسے میں چوتھے سال کاطالب علم تھا،ایک دن دوپہر کو قیلولہ کی نیت سے ابھی لیٹا ہی تھا کہ موبائل فون تھر تھر کانپنے لگا،اسکرین پر میرے سب سے بڑے بهائی(عزیزالرحمن رانا) کا نام جگ مگا رہا تھاجو کہ پاک فوج کے اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے تهری کمانڈو میں ملازم تھے،اسکرین پران کا نام دیکھ کر میں خوشی سے من ہی من میں قلابازیاں کھانے لگا،کیوں کہ میراماہانہ جیب خرچ ان ہی کے ذمہ تھا،میں موبائل فون کان سے لگائے اس نیت کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا کہ مبادا دوسرے دوستوں کی نیند خراب ہوجائے،السلام علیکم کی آواز سے ہی اندازہ ہورہاتھا کہ بھائی کافی پریشان ہیں،میرے استفسار پر بتادیا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری کمپنی لال مسجد میں آپریشن میں شرکت کرے گی،اور میں اس معاملے سے دور رہنا چاہتا ہوں پر کوئی سبیل نظر نہیں آرہی،سوچ سوچ کر پاگل ہوچکا ہوں کروں تو کیا کروں، یہ تشویشناک خبر سن کرمیں گہری سوچ میں پڑگیا، کیوں کہ معاملہ حقیقت میں انتہائی تشویشناک تھا..

جب سے پرویز مشرف نے امریکی جنگ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا تها،تب سے بهائی ہر وقت پریشان رہتے تهے کہ پتہ نہیں مسلمانوں کی آپس کی اس لڑائی کاآخرکیا انجام ہوگا،حالانکہ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ وہ شہید ہونا چاہتے ہیں،مگر بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے،1999میں کارگل جنگ کے دوران جب کئی دن تک بھائی سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا تو سب گهر والوں کا یہی خیال تھا کہ شاید ان کی دعا قبول ہوچکی ہے،مگر خدا کو کچھ اور منظور تها،دو ماہ بعد ان کا خیریت نامہ موصول ہوا تو اس پر ایک ماہ پہلے کی تاریخ کندہ تھی،بہرحال موجودہ جنگ کے بارے میں وہ عجیب کش مکش کا شکار تھے،مجهے فون کر کےاکثر اپنی پریشانی کا اظہار بھی کرتے تهے ،میں ان کو ہر بار یہی مشورہ دیتا تها کہ بس کسی طرح سے ان معاملات سے جتنا دور رہو اتنا بہتر ہے،لیکن آج مسئلہ کافی سنگین معلوم ہورہا تھا،
بہت غور فکر کے بعد میں نے جواب دیا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ ملازمت چهوڑنا پڑے تو چھوڑ دو مگر اس کام میں شریک ہوکر عمر بهر کے لیے اپنے آپ کو اور ہمیں کسی پچھتاوے میں مت ڈال دو,خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو.......کچھ دیر مزید بات چیت کے بعد کال کٹ گئی......

اسی پریشانی اور ادھیڑ بن میں دودن گزر گئے،دوسرے دن شام کو بهائی کی کال آئی تو بہت خوش دکهائی دے رہے تھے،بڑی خوشی سے انہوں نے یہ خبر سنادی کہ افسروں کی منت سماجت کے بعد مجهے کچھ عرصے کے لیے تین ماہ کے لیے مجھے مری جانے کی اجازت مل گئی ہے،(ایس ایس جی والے چونکہ اکثر صدر اور وزیر اعظم کے سیکورٹی اسکوڈ میں شامل ہوتے ہیں اس لیے خصوصی طور پر مری میں انہیں انگلش لینگویج کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے)..

یہ بات سن کر میں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور اللہ تعالی کا شکر بجا لایا کہ ایک متوقع مصیبت سے جان چھوٹ گئی،پهر وہ مری چلے گئے،لال مسجد آپریشن کے دوران مری میں رہے،وہاں کورس مکمل کرنے کے بعد مختصر چھٹی پہ گهر چلے گئے،میں اس وقت کراچی میں تها،وفاق المدارس کے امتحانات سے فارغ ہوکر جب میں نے گھر فون کیا تو بھائی چھٹیاں پوری کرکے واپس جانے والے تھے مگر شومئی قسمت جس دن وہ جارہے تھے اس دن ان کی سب سے چھوٹی بیٹی اپنڈیکس کے آپریشن کے سلسلے میں سی ایم ایچ گلگت میں ایڈمٹ ہوئی،جس کی وجہ سے مزید چھٹی مانگنے پہ ان کو ایک ماہ کی چھٹی ملی تھی،اسی دوران میں بھی گھر پہنچ گیا...

ایک ہفتے کے بعدان کی بیٹی صحت یاب ہوکر گھر پہنچی تو بھائی نے واپسی کی تیاری شروع کردی،گھر والوں نے رکنے پہ بہت اصرار کیا کہ ابھی تو چھٹیاں باقی ہیں اور رمضان بھی سر پہ ہے کچھ روزے گھر پہ سکون سے گزار کے چلے جاو تو بھائی نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ میں نے "حولداری" کی پروموشن کے لیے کورس پہ جانا ہے میرے ساتھی پہلے ہی جاچکے ہیں میں مزید دیر نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میرے پروموشن کا مسئلہ ہے،پھر وہ دودن بعد کا ٹکٹ لے کر گھر آگئے، اگلے دن گائوں چلے گئے اور تمام رشتہ داروں سے مل کر واپس آگئے،اگلے روز بھائی تمام گھر والوں سے رخصت ہوئے، میں نے ان کا بیگ اٹھایا ،سب سے پہلے ایک ٹیکسی کے ذریعے سیدھا سینٹرل جیل گلگت پہنچ گئے،جہاں پہ مجھ سے بڑا بھائی جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے تھے،آدھے گھنٹے کی ملاقات کے بعد میرے دونوں بڑے بھائی جس انداز مین بغل گیر ہوئے تھے آج بھی سوچتا ہوں تو آنکھیں برسنا شروع کردیتی ہیں، وہاں سے رخصت ہوکر ہم اڈے پہنچ گئے،بھائی نےمجھے 500 روپے کا نوٹ پکڑاکر گلے لگالیااور بس کی سیٹ پہ بیٹھ گئے،اور میں شیشے کی جانب سے ہاتھ ہلاتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑا،بھائی سے آخری رابطہ اس وقت ہوا تھا جب وہ مانسہرہ میں ناشتے کے لیے رکے تهے،میں نے جب فون کیا تو کہنے لگے راستے میں انہیں بخار ہوگیا ہے،اس کے بعد پھر رابطہ نہ ہوسکا....

اگلے روز ملک بھر میں رمضان کا چاند نظر آچکا تھا،لوگ بازار سے رمضان کے لیے خریداری کرکے گھروں کو جاچکے تھے،میں جیل میں موجود اپنے بھائی اور دیگر رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان بہم پہنچاکر واپس آیاتو سورج اپناسفر پوراکرکے گلگت کے پہاڑوں کے پیچھے روپوش ہوچکاتھا،فضامیں مغرب کی آذانوں کی آواز گونج رہی تھی،

میں نے گھر فون کر کے آج گھر نہ آنے کی اطلاع دی اور سیدھے اپنے ماموں کے گھر چلاگیا،عشاء کی نماز اور تراویح ایک مسجد میں ادا کرنے کے بعد بازارسے گزرتے ہوئے ایک ہوٹل میں چلنے والے ٹیلی ویژن پہ نظر پڑی جہاں ایک بریکنگ نیوز نے میرے قدم روک دیے....

"تربیلا غازی میں ایس ایس جی کی میس میں خود کش دھماکہ، درجن سے زاید اہلکار شہید متعدد زخمی"
یہ خبر سنتے ہی مجھے ایک شدید جھٹکا لگا، دل میں قسما قسم وسوسے سر اٹھانے لگے، دماغ پہ تشویشناک خیالوں نے یورش کردیا،میں نے جیب سے موبائل نکال کر بهائی کا نمبر ملایا،ایک لمحے میں کئی خدشات دماغ کے پردے پہ نمودار ہوگئے،جیسے ہی بیل جانے لگی دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی،جب کال اٹینڈ ہوئی تو کچھ سکون آیا،مگر سماعت سے جو آواز ٹکرائی وہ بهائی کی نہیں تھی بهائی کے بارے میں پوچها تو جواب آیا کہ وہ کل چراٹ چلے گئے ہیں اور موبائل تربیلا میں بهول گئے ہیں.

کچھ تسلی ہوگئی کہ بهائی چراٹ چلے گئے ہیں اور دھماکہ تربیلا میں ہوا ہے،اس کے بعد کچھ دیرتک خبریں سنتا رہا،اسی دوران میری چھٹی حس بار بار خطرے کی گھنٹی بجاتی رہی، دل میں ایک انجانی سی بے چینی نے گھر کر رکھا تھا،اور دماغ کسی ناموس غم میں غلطاں و پیچاں تھا، میں نے ایک بار پھر بھائی کانمبر ڈائل کیا تو کسی اور کی آواز آئی تو میں نے اس کہا کہ بھائی کل وہاں پہنچے تھے،اور آج وہاں پہ دھماکہ ہوا ہے،اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوگیا ہے تو مجھے صاف صاف بتادو،

آگے سے جواب آیا کہ ایسی کوئی بات نہیں وہ یہاں تربیلا میں موجود ہی نہیں ہیں،اور مزید کسی انتظار کے بغیر کال کٹ گئی،ان صاحب کا طرزتکلم کسی خوفناک حادثے کی چغلی کھارہا تھا،سوچوں کے تمام زاویوں اور حالات کے تمام تر قرائن کی تان اییک غیر متوقع سانحے کی خبر پر آکے ٹوٹ رہی تھی،اب میرا سکون مکمل غارت ہوچکا تھا،طرح طرح کے وسوسوں نے دماغ کو شل کرکے رکھ دیا تھا،رہ رہ کر بھائی کا چہرہ سامنے آجاتا اور عجیب و غریب کیفیات طاری ہورہی تھیں ، میں اس نمبر پہ کال پہ کال کرتا رہا،بالآخرتنگ آکر آگے سے کسی نے یہ جاں فزا خبر سنادی کہ آپ کے بھائی دھماکے میں معمولی زخمی ہوچکے ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں،میں نے فورا کہہ دیا کہ ایسی بات ہے تو ابھی بھائی سے میری بات کروادو،یہ بات سن کر آگے لمحہ بھر کے لیے خاموشی چھائی رہی،اور ایک بار پھر کال کٹ گئی اور اب کی بار موبائل نمبربھی آف ہوگیا،اب تک گھر کا میں واحد فرد تھا، جو اس صورت حال سے باخبر تھا۔۔۔

اس کش مکش میں سحری کا وقت ہوا،سحری کے وقت والد صاحب کی کال آئی (والد صاحب کو وہاں سے کال آئی تھی کہ آپ کا بیٹا زخمی ہوا ہے اور اس کو سی ایم ایچ گلگت ریفر کردیاگیاہے،ہم اس کو لے کر روانہ ہوگئے ہیں) کہ ماموں کو ساتھ لے کر جلدی گھر آجاو،والد صاحب کی آواز میں رونے کے آثار نمایاں تھے، میں ماموں سمیت گھر پہنچاتو گھر پہ قیامت کا سماں تھا،والدہ بے ہوشی کی حالت میں تھی،والد صاحب بھی صبراور حوصلہ کھو چکے تھے،میرا ایک بھائی جیل میں جبکہ دوسرا بھائی کراچی میں تھا،میں اکیلا تھا،سب کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتا رہا مگر ایک بھائی کی شدت سے کمی محسوس ہورہی تھی جس سے لپٹ کر کچھ دیر کے لیے غم ہلکا کردوں.

اصل صورت حال سے سب بے خبر تھے،اور دوسری جانب سے ابھی تک اس بات پہ اصرا جاری تھا کہ بھائی زخمی ہیں،سب کے دل میں ایک موہوم امید کی کرن باقی تھی،رشتہ دار آہستہ آہستہ جمع ہورہے تھے، زنان خانے سے نسوانی چینخ و پکار نے آسمان سر پہ اٹھا یا تھا،اسی دوران میں مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں رہا مگر جواب یہی ملا کہ بھائی زخمی ہیں،آپ لوگ بے فکر رہیں،مگر ان کا لہجہ بتارہاتھا کہ بات کچھ اور ہے...

دن کے 10 بجے میں نے کال ملائی اور ان سے کہا کہ خدانخواستہ اگر میرے بھائی کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہوا ہے تو ہم ذہنی طور پہ تیار ہیں آُپ سچ سچ بتائیں کہ آخر مسئلہ کیا ہے.....

آگے سےکچھ دیر خاموشی کے بعد میری سماعتوں نے ایک ایس خبر سنی کہ ایسی خبر پہلے سنی نہ بعد میں،جواب آیا کہ موت کا وقت مقرر ہے آپ کے بھائی شہید ہوچکے ہیں،آپ صبر کا دامن نہ چھوڑیں،موبائل ہاتھ سے گرگیا اور میں زمین پہ گرگیا،دل چاہ رہا تھا رو رو کے آسمان سر پہ اٹھائوں مگر گھر میں میرے علاوہ کوئی بھائی نہیں تھا میں نے اللہ تعالی سے صبر کی دعا کی اور آکر ماموں کو اصل صورت حال سے آگاہ کردیا،پھر آہستہ آہستہ پورے گھر میں بات پھیل گئی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کو بیان کرنا میرے بس میں نہیں،اگلے دن بھائی کی میت پہنچادی گئی،ایک بھائی جیل اور دوسرا کراچی میں ہونے کی وجہ سے جنازے میں بھی شرکت نہ کرسکے۔

اللہ تعالی ان کی شہادت قبول کرتے ہوئے کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے...
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47305 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More