ّعلامہ اقبال اور ہم مسلم

علامہ اقبالؒ کا تصور خودی، مرد مومن اور امت مسلمہ

آج علامہ اقبالؒ کا یوم وفات ہے اور امید ہے کہ پورے پاکستان میں عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ بہت سے ہی افسوس بلکہ صد افسوس کہ آج کل ہم اپنے مشاہیر اور رہنمائوں کے یوم ولادت اور یوم وفات تو عقیدت، احترام اور جوش و جذبے سے تو منا لیتے ہیں لیکن ان کے افکار، خیالات ، نظریات اور تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔

علامہ اقبالؒ نہ صرف ہمارے قومی شاعر ہیں بلکہ نامور مسلمان فلسفی اور ایک کھرے اور سچے مومن ہیں ان کا فلسفہ، ان کے نظریات اور ان کی شاعری میں پوری امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان کے لئے بالخصوص رہنمائی موجود ہے جس پر عمل کرکے امت مسلمہ اپنے موجودہ بحرانوں اور مشکلات سے نکل سکتی ہے۔ لیکن وہی بات دوسرے رہنمائوں اور مشاہیر کی طرح علامہ اقبالؒ کے افکار، خیالات ، نظریات اور تعلیمات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے افکار، خیالات ، نظریات اور تعلیمات کو نہ صرف پڑھا جائے، ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے بلکہ اس پر عمل کیا جائے تو مسلمان اپنی قدرو منزلت میں اضافہ کر سکتے ہیں اور امت مسلمہ خاص کر پاکستان جن مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا ہے ان سے نکل سکتا ہے۔

علامہ اقبالؒ کے تصور خودی اور مرد مومن کو ہی لے لیا جائے تو مشکلات و مصائب اور چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے تصور خودی میں علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو اپنا آپ پہچاننے کا درس دیتے ہیں اور ان کو اپنی اہمیت سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے ہیں علامہ اقبالؒ کے تصور خودی کو ناقدین دو مفہوم میں بیان کرتے ہیں ایک گروہ مثبت پہلو جبکہ دوسرا گروہ منفی اور مذموم مفہوم میں لیتا ہے مثبت مفہوم میں خودی کا مطلب اپنی ذات کو پہچاننا ہے، اپنی تمام تر صلاحیتوں ، ذاتی صفات اور کمالات سے نہ صرف آگاہی حاصل کرنا بلکہ ان کا بھر پور اور درست استعمال کرنا بھی خودی کے ضمرے میں آتاہے۔ اور دوسرا منفی اور مذموم مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ آپ میں غرور اور تکبر پیدا ہو جائے بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف مثبت اور بہتر ہے اور صرف اپنی ذات کی پہچان اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور ان کا درست اور مثبت استعمال کرنا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں

پیکر ہستی ز آثار خودی است

ہر چہ می ز اسرار خودی است

علامہ اقبالؒ کے اسی تصور خودی کے بارے حدیث مبارکہ بھی موجود ہے کہ

’‘ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ’‘

جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ یعنی علامہ اقبالؒ جو درس انسان کو خودی کا دے رہے ہیں دراصل وہ مسلمانوں کو اپنے رب کو پہچاننے کا درس دے رہے ہیں اور جو اپنے رب کو پہچان لیتا ہے، اس پر پختہ اور مکمل ایمان لے آتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ، کوئی مشکل ، کوئی مصیبت اور کوئی غم اس کے راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ہے اور اسی تصور خودی کی بدولت انسان دنیا کی تمام مشکلات ، مصائب اور مسا ئل کا مقابلہ کر سکتا ہے اور زندگی کا راز جان سکتا ہے بقول علامہ اقبالؒ

خودی کیا ہے راز درون حیات

خودی کیا ہے، بیداری کائنات

جب انسان خودی کو پالیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کے مقصد حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ہے اور وہ زمانے کو اپنے سامنے سر نگوں کر لیتا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے

دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

جب انسان کی خودی اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو وہ تقدیر کی مطابق نہیں چلتا بلکہ اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور تقدیر کو اپنی مرضی کے مطا بق بنا لیتا ہے لیکن اس کے لئے انسان کو اپنی خودی اس درجہ پر لے کرجانا ضروری ہے جس کے بارے علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں لکھا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اور جب مسلمان خودی کی اس منزل کو پا لیتا ہے تو وہ علامہ اقبالؒ کے ’‘ مرد مومن ’‘ کو روپ دھار لیتا ہے جس کی اپنی الگ پہچان ہوتی ہے وہ دنیا کو مسخر کر لیتا ہے اس کا انداز، سوچ ، کردار اور اعمال الگ ہی روپ اختیار کر لیتے ہیں جن کی مدد سے وہ لوگوں کے دلوں میں اتر جاتا ہے علامہ اقبالؒ نے ایسے مرد مومن کے بارے فرمایا ہے کہ

ہر لحظ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

اقبال کا مرد مومن ایک ایسا مسلمان ہوتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ جس کام کرنے کا سوچتا ہے بغیر کسی خوف اور بغیر کسی ڈر کے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنی راہیں خود بناتا ہے دوستوں کے لئے دوست، دشمنوں کے لئے دشمن، جو پھول بھی ہے کانٹا بھی، جو ریشم بھی ہے اور فولاد بھی ، جو نرم بھی ہے اور سخت بھی اور رحمدل بھی ہے اور جابر بھی۔ لیکن یہ اوصاف اور خصوصیات حالات و واقعات کے مطابق اس کی ذات سے ظاہر ہوتی ہیں علامہ اقبالؒ نے اس بارے میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

اسی طرح ایک مردمومن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے


جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

مرد مومن اپنے قول وفعل اور کردار کی طاقت سے دنیا کو مسخر لیتا ہے، تقدیر کو اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مرضی اس کی مرضی اور اس کی مرضی اللہ تعالیٰ کی مرضی بن جاتی ہے، وہ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہر کام کرتا ہے، اس کا ہر کام ، فکر ،سوچ اور قدم صر ف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی رضا اللہ کی رضا، اس کی خوشی اللہ کی خوشی اور اس کی مرضی اللہ تعالیٰ کی مرضی بن جاتی ہے اور پھر دنیا کو جس سمت چاہے لے جا سکتا ہے، تقدیر کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتا ہے علامہ اقبال نے اس کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

آج ہم اقبال کے نظریات ، فلسفے اور شاعری کو نظر انداز کر چکے ہیں اور مشکلات اور مسا ئل سے دو چار ہو چکے ہیں پوری امت مسلمہ اور خاص کر پاکستان بہت سے مسائل اور مشکلات کے علاوہ خطرات میں گھر چکا ہے پاکستان میں دہشت گردی ، قتل و غارت اور بے امنی جیسے مسائل اور مشکلات اب بہت زیادہ ہیں اور ان کا مقابلہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم علامہ اقبال کے تصور خودی کو اپنائیں اور مرد مومن کا روپ اختیار کریں اسی طرح دشمنوں کے ناپاک عزائم اور اارادوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں اور اپنے تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے تمام اختلافات اور تنازعات بھلا کر فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر ایک قوم بن کر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین
 
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 155674 views I live in Piplan District Miawnali... View More