احتجاج و اشتعال کی وادی

شاہدالاسلام
ریاست جموں وکشمیرمیں علاحدگی پسند لیڈر مسرت کی گرفتاری کی صورت میں بہ ظاہر مفتی سرکار تو بچ گئی مگر کشمیرمیں ایک نئی آفت ضرور آگئی۔ایک ماہ قبل مسرت کی رہائی پر طوفان برپا تھا۔اب گرفتاری پر کہرام مچ رہاہے۔پاک نوازی کا ثبوت پیش کرنے والے مسرت کی رہائی کے موقع پرمفتی سعیدکی قیادت والی پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت الجھن میں گھر گئی تھی اوریہ کہاجارہا تھاکہ جس طرح” بے جوڑ شادی“ جلد ٹوٹ جاتی ہے،ٹھیک اُسی طرح پی ڈی پی اور بی جے پی کا سیاسی نکاح بھی سیاسی خلع میں بدل جائے گامگر مفتی نے بڑی مشکل سے مسرت کی رہائی کے مسئلہ پر جان چھڑائی لیکن آفت آنا تھی اور آہی گئی۔علیحدگی پسند لیڈرسید علی شاہ کی کشمیر آمد کے موقع پر منعقد ریلی میں پاکستان کا پر چم لہرایاجانااور پڑوسی ملک کے حق میں زندہ باد کا نعرہ بلند کرنا کشمیر کی سیاسی فضاؤں کو خراب کرنے کا سبب بن گیا اور آخر کار بعد از مقدمہ ایک بار پھر مسرت کوگرفتار کرلیاگیا اور یوں کشمیر کے علاحدگی پسندوں کو سڑکوں پر آنے اور احتجاج کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔چونکہ احتجاج اور اشتعال کے درمیان فائرنگ کا تازہ واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے ،جس میں ایک مزاحمت کار کی موت بھی ہو گئی ہے،اِس لئے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ’ طوفان بلاخیز‘ کب تھمے گااور کب ریاست میں امن کی فاختہ پھرسے محبت کے پھول برسائے گی۔ویسے یہ کہاجارہا ہے کہ مفتی سرکار اگر مسرت کو’پاک نوازی‘کے معاملہ میں گرفتار نہ کرتی تو شاید اِس بار سرکار کیلئے مشکل کھڑی ہوجاتی ۔کچھ لوگ تویہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مفتی کے سامنے اِس بار دو متبادل تھے۔پہلی صورت یہ تھی کہ مسرت کو بچاؤ،سرکار گنواؤاور دوسری شکل یہ تھی سرکار بچاؤ مسرت کواندر کرو۔ایک دن قبل جس طرح وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے وزیر اعلیٰ کو ’سخت پیغام‘دیا وہ اِسی خیال کو منعکس کرتا ہے کہ مفتی کو مرکز سے واضح ہدایت دی گئی کہ وہ مسرت ودیگر’ پاکستان نواز‘لوگوںپر کارروائی کریں ورنہ ساجھے کی ہنڈیامیں کھچڑی نہیں پک سکے گی اور کشمیرکی مخلوط حکومت کا خلع ہوجائے گا۔

مسرت عالم کی رہائی اور سید علی شاہ گیلانی کی نظربندی کے درمیان جس انداز میں محاذ آرائی کا ایک نیاسلسلہ کشمیرمیں شروع ہوتا دکھائی دے رہاہے،وہ اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اِس بار کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر نظریاتی تقسیم کی لکیریں نمایاں ہو گئی ہیں اور قوم پرست کہلانے والا مسلم طبقہ مسرت کے حق میں کھڑا ہو یا نہ ہو البتہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی مخالفت پرکمر بستہ ضرور ہے جس کی وجہ سے مذہب کی بنیاد پر خلیج بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

اب اس صورتحال کو کشمیر یوںکا’خراب مقدر‘ قرار دیاجائے یاموجودہ حالات کو کشمیریوں کیلئے عذاب الٰہی کے نزول کی مختلف شکل صورت کے طور پر دیکھاجائے،یہ فیصلہ تو اہل بصیرت کریں گے مگر یہ کہنے میں ہمیںکوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ جس کشمیرکو ”جنت ارضی“ کہہ کر اس کے جغرافیائی اور قدرتی حسن کا تذکرہ برسوں سے کیاجاتارہاہے، وہی کشمیرادھرکے 30-25برسوں میں وقتاًفوقتاً جہنم کدہ میں تبدیل ہونے کاایک بار نہیں،بارباراحساس بھی دلاتارہاہے۔نتیجتاً وادی کشمیرمیں امن کا قیام محض ایک خواب بن کر رہ گیاہے۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ امن کی فاختہ یہاں سے اُڑ چکی ہے اور بد امنی اس ریاست کا مقدر بن گئی ہے۔یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کیونکہ صر ف موسمیاتی تغیر وتبدل ہی کشمیریوں کیلئے پریشانی کا سبب نہیں بن رہا ہے بلکہ سیاسی لحاظ سے رونما ہونے والی تبدیلیاںبھی خوب خوب اپنے جلوے دکھارہی ہیں اورکشمیرایک بارپھر جہنم کی صورت میں جلتا صاف طورپرنظر آرہاہے۔ مسرت عالم کی گرفتاری کے بعد جس طرح علیحدگی پسند عناصر نے ماحول کو گرم کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اس بات کا اشاریہ ہی ہے کہ کشمیر میں آگ اور خون کی ہولناکیاںمزید بڑھیں گی اور نتیجتاًکشمیر کے اُن امن پسند لوگوں کی زندگیاں بھی اس سے متاثرہوںگی،جو جنگجویانہ سرگرمیوں سے نجات کیلئے برسوں سے دعا گوہےں مگر اُن کی دعاﺅں کو شرف قبولیت توکیا ملتی،اُلٹا ری ایکشن ہی ہوتا رہاہے۔

مسرت کشمیرکیلئے کوئی بڑامسئلہ نہیںہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔مسئلہ کشمیر کو سمجھنے اورمسئلہ کو حل کرنے کی کوشش گوکہ نصف صدی سے ہوتی رہی ہے مگر50برسوںسے زیادہ عرصہ پر محیط اس’ سعی لاحاصل‘ کو بھی سمجھنا ہوگا جس سے گزرتے ہوئے اب کشمیر ایک ایسے نازک مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے، جہاں شدت پسندی اور علاحدگی پسندی اپنے شباب پر پہنچ کر فرقہ وارانہ لحاظ سے معاشرہ کو تقسیم کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ مسرت عالم کوجب پچھلے ماہ رہائی ملی تھی تو شدت پسندقوم پرست عناصر نے آسمان سر پر اٹھارکھاتھا ۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ مفتی سرکار نے ایک ہند مخالف لیڈرکو اسیری سے آزادی کا پروانہ دلانے میں کلیدی کردار اداکیا۔حالانکہ یہ خیال غلط تھا کیونکہ جس وقت کشمیر میں منتشر رائے عامہ کی صورت میں انتخابی نتائج کی آمد ہوئی تھی، تقریباً اسی درمیان مسرت کی رہائی کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ ابتدامیںچونکہ مخلوط حکومت کے قیام کی راہ ہموار نہ ہوسکی تھی لہٰذا صدر راج کا نفاذ عمل میںآگیا اور اسی درمیان علاحدگی پسند لیڈر مسرت عالم کی رہائی کی گاڑی آگے بڑھ گئی اور پھر جب بھارتیہ جنتاپارٹی کی بیساکھی کے سہارے مفتی سرکارمیںآگئے تواس کے فوراً بعد مسرت کی رہائی کی شکل میں سرمنڈاتے ہی اولے پڑجانے کا احساس عام ہوا۔لیکن اِن تمام باتوں کو نظراندازکرتے ہوئے یہ طوفان کھڑاکیاگیا کہ مفتی صاحب نے علاحدگی پسند عناصر کے تئیں مشفقانہ رویہ اختیارکرناشروع کردیاہے۔ چنانچہ کئی مرحلے ایسے آئے جب یہ محسوس ہونے لگ گیا کہ مفتی سرکار خطرہ میں ہے،کچھ لوگوںکی جانب سے یہ بھی کہاجانے لگا کہ مفتی سرکار کا بچ پانا شاید ممکن نہ ہوگا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس بحران سے مفتی سرکار کو نجات مل گئی اور انہوںنے مرکز کو فوری طورپرقائل کرانے میںکسی حدتک کامیابی حاصل کرلی کہ مسرت کی رہائی میں ان کا یاان کی سرکار عملاًکاکوئی رول نہیں ہے۔ اس طرح مسرت کی فائل کاپہلا باب بند ہوا لیکن نظریاتی طورپر بھارتیہ جنتاپارٹی اور پی ڈی پی کے درمیان ایک سرد جنگ ضرور شروع ہوگئی۔ کبھی افضل گرو کی باقیات کو کشمیر واپس لاکر دفن کرنے کا معاملہ سرخیوںمیںآیا تو کبھی کشمیری پنڈتوںکےلئے ایک علاحد ہ بستی بسانے کا شور سناگیا ۔ نظریاتی سطح پر لڑی جانے والی یہ جنگ آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ گزشتہ بدھ کو حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی کےلئے استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستان کا پرچم بھی لہرایاگیا اور پڑوسی ملک کے حق میںزندہ بادکا نعرہ بھی بلندکیا گیا۔یہ صورتحال کشمیر کی سیاست کو ایک بار پھر ابال کی حدتک مشتعل کرنے کا سبب بن گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایف آئی آر درج کی گئی اوردوسری جانب جموں سے سخت کارروائی کاشوربھی بلندہوا۔چنانچہ مرکز نے بھی اس معاملہ میں غیر معمولی سختی دکھائی اور انجام کار مفتی سرکار کےلئے ایک بار پھر یہ دقت پیدا ہوگئی کہ وہ دو میں سے کسی ایک متبادل کوچن لیں۔یعنی یاتو مسرت کو پس زنداں کریں یا پھر حکمرانی سے ہاتھ دھولیں۔ چنانچہ ان کی حکومت نے جان بچانے کےلئے علاحدگی پسند لیڈروں پر کارروائی کرناضروری سمجھا اور یوں مسرت کی نہ صرف یہ کہ گرفتاری عمل میںآگئی بلکہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اس گرفتاری کے ساتھ ہی ساتھ ریاست میںعلاحدگی پسندی کو ایک نئی زندگی بھی مل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج آزاد ی کے نام نہاد علمبردار قائدین عوام کے ایک طبقہ کی مدد سے آسمان سر پراٹھائے ہوئے ہیں اوریہ تاثر دینے کی بھر پورکوشش بھی کررہے ہیںکہ کشمیری سراپااحتجاج بن کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔

یہ بھی محض ایک اتفاق ہے کہ چند دنوں قبل جنوبی کشمیر میں انکاﺅنٹر کا ایک ایساواقعہ پھر سامنے آگیا جوماضی کی طرح ہی اپنی معتبریت پر کئی سنگین نوعیت کے سوالات قائم کرنے کا موجب بنا۔ مقامی آبادی ایک مقتول کو عام شہری قرار دے رہی ہے جبکہ انتظامیہ اور فوج کے اہلکار وںکادعویٰ ہے کہ اس نے کسی بے قصورکی گردن نہیں ماری ہے۔ گویا یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ترال میں کی جانے والی کارروائی علاحدگی پسندوںکےلئے ماحول کو اپنے حق میں مفیدبنانے اور حکومت کے خلاف محاذ آرائی کو تقویت پہنچانے کابہترین موقع فراہم کرارہی ہے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہند مخالف سرگرمیا ں برداشت نہیں کی جائیںگی۔ اس بنیاد پر کارروائی دیکھنے کو مل بھی رہی ہے لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیاوادی کشمیر میں پہلی بار ہند مخالف آوازیں بلند ہوئی ہیں؟ کیا پہلی بار پاکستان کاجھنڈا بلند کیاگیاہے؟ کیا پہلی بار ہندوستانی فوج کے تئیں بے اطمینانی دیکھنے کو مل رہی ہے؟ جب ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پتہ یہ بھی چلتا ہے کہ بے اطمینانی آج سے نہیں ،بلکہ آزادی ہند کے بعد سے ہی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ بعض مورخین کادعویٰ تو یہ بھی ہے کہ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد 1952میں پہلی بار کشمیر میں باضابطہ طورپر پاکستانی پرچم لہراکرلوگوں نے ہندوستان کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہارکیاتھا۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ علاحدگی پسند عناصر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے کشمیر کے الحاق کے حق میں نہیں ہےں لیکن ان کے دعوے کی حقیقت کیاہے اس کو اس بات سے سمجھاجاسکتاہے کہ جب جب مزاحمت کی صدائیں بلند ہوتی ہیں درمیان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی بلند ہوجاتے ہیں اور پاکستانی پرچم لہراکر ہندوستانی اقتداراعلیٰ کو گویا ایک طرح سے چیلنج کرنے کی یاللکارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ابھی پچھلے ماہ دختران ملت کی قائد آسیہ اندرابی کے خلاف بھی پاکستانی پرچم لہرانے کا باضابطہ مقدمہ درج کیاگیاتھا ۔

سوال یہ ہے کہ جب یہ صورتحال ایک طویل مدت سے اب تک وقتافوقتاً دیکھی جاتی رہی ہے توآج اگر کسی علاحدگی پسند لیڈر نے یا اس کے کسی ہم خیال کارکن نے پاکستان کا پرچم لہرادیا تو یہ صورتحال اس قدر اضطراب کا سبب کیوں بن گیا۔جانکاربتاتے ہیں کہ چونکہ جموںمیںاس وقت قوم پرستی کاسب سے بڑاتمغہ لگاکر جیت درج کرانے والی جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی نہایت مضبوط اندازمیں اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے، چنانچہ جموں کے گوشہ سے سخت ردعمل کااظہار فطری طورپردیکھاگیا۔ چونکہ مرکزمیں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت قائم ہے اور ریاست میں بھی مخلوط حکومت کی شکل میں وہ اقتدارمیںحصہ دار ہے،لہٰذا مرکز کےلئے یہ لازم ہوگیا کہ وہ اس مرحلہ میں ایسی کوئی نرمی یاہچکچاہٹ نہ دکھائے جو اس کی قوم پرستی کو کٹہرے میں کھڑاکرنے کا موجب بن جائے ۔ یہ خیال بڑی حدتک درست بھی ہے اور یہ کہنا خلاف حقیقت نہ ہوگا کہ اسی تناظر میں مسرت کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تاکہ جموں اور مرکز دونوں کو مطمئن کرانے میں کامیابی مل سکے کہ مفتی سرکارنے علاحدگی پسند گی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں۔

کشمیر میں جو صورتحال فی الوقت دیکھی جارہی ہے، اس کی بنیاد پر یہ رائے قائم کرنے کی قطعاًگنجائش نہیں کہ یہاں مزاحمت کی جوچنگاری ایک بار پھر بھڑک چکی ہے، اسے بآسانی ٹھنڈاکرنے میں مرکز اورریاست کو کامیابی مل سکے گی۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ علاحد گی پسند عناصر طوفان برپا کررہے ہیں اورکشمیر میں مکمل ہڑتال کی کال دے دی گئی ہے بلکہ اس بنا پر بھی کہ کشمیر کو معتدل رکھ پانے کے تعلق سے نہ تومرکز کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل ہے اورنہ ہی ریاست کی مخلوط حکومت کے پاس ایسا کوئی نسخہ موجود ہے جسے بروئے کار لائے اورریاست کی تعمیر وترقی اور قیام امن کے حوالے سے کوئی مستحکم مربوط اور منظم پیش رفت کااحساس دلاسکے۔ چنانچہ یہ دیکھنا فطری ہوگا کہ ایک بار پھر جس طرح کشمیر میں بے اطمینانی کی صورتحال پائی جارہی ہے، اس کے خاتمہ کےلئے ریاست اور مرکز کیاکوئی موثر اور قابل عمل فارمولہ کااستعمال کرتے ہوئے آگ کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہوپاتا ہے آیانہیں۔ بہ نظر غائر ریاست کی صورتحال کودیکھنے سمجھنے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ مفتی سرکار مخمصہ میں ہے اوریہی تذبذب درحقیقت ریاست کےلئے غیر مفید قرار پارہاہے ۔ جہاں تک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوںکا تعلق ہے تو یہ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ کانگریس ہویانیشنل کانفرنس دونوں ہی جماعتیں مخلوط حکومت اور مرکز کو نشانہ بنارہی ہیں لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ کشمیر میں زیادہ عرصہ تک ان دونوں جماعتوں نے حکمرانی بھی کی ہے لیکن کشمیر کوامن کاگہوارہ بناپانے میں یہ دونوںہی جماعتیں پوری طرح ناکام واقع ہوئی ہیں۔اس لئے کشمیر کے تعلق سے اُن کے سیاسی موقف کو بھی ’کامیاب موقف‘ کے طور پر تسلیم کرنے کی گنجائش نہیںہے۔رہی بات موجودہ ریاستی اور مرکزی سرکار کے رویہ کی تو یہ سمجھئے کہ دونوں کا اصل امتحان اب شروع ہو ا ہے۔اگر کشمیر میں بھڑک اُٹھنے والی شورش کی تازہ آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو سمجھئے کہ ”پپو پاس ہوگیا“اور اگر احتجاج و اشتعال کے سلسلے دراز ہوتے گئے تو مان لیجئے کہ مرکز کی سرکار بھی نکمی ثابت ہوئی اور ریاست کی سرکار بھی نا اہل!
شاہدالاسلام
About the Author: شاہدالاسلام Read More Articles by شاہدالاسلام: 8 Articles with 5285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.