حتمی فیصلہ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی ایم کیو ایم کا مضبوط قلعہ ہے اور پچھلے کئی سالوں سے وہ اس قلعے میں بڑے آرام سے بیٹھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔بہت سی سیاسی جماعتوں نے اس کے قلعے پر قبضے کی کوششیں کیں لیکن انھیں اس میں کامیابی نہ مل سکی۔ جماعت اسلامی اس کی سب سے بڑی مثال ہے کیونکہ کسی زمانے میں یہی جماعت کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی اور اس کے اکثر قائدین کراچی سے ہی منتخب ہو کر آیا کرتے تھے لیکن ایم کیو ایم کی تشکیل کے بعد جماعت اسلا می کراچی سے یوں غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔جماعت اسلامی نے بڑی کاوشیں کیں کہ وہ کسی طرح سے اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر لے لیکن وہ اس میں ہنوز کامیاب نہیں ہو سکی۔در اصل مہاجروں کے اندر عدمِ تحفظ کے جس ا حسا س کو الطاف حسین نے اپنی شعلہ بیا نی سے اجاگر کیا تھا وہ احساس ایک اہم عنصر کی حیثیت سے ہر مہاجر کے دل میں جا گزین ہوچکا ہے اور خوف کا یہی عنصر ایم کیو ایم کے اتحاد اور کامیابی کی بنیاد ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسری جماعت کیلئے کراچی میں اپنے قدم جمانے ممکن نہیں رہے کیونکہ مہاجروں کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم سے دوری کی صورت میں ان کی بقا ناممکن ہو جائیگی اور دوسری اکائیوں کے افراد انھیں اپنا محکوم بنا لیں گے ۔ ایم کیو ایم پر لگنے والے بے شمار الزامات کے با وجود مہاجر کیمیونیٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے توخوف کا یہی عنصر اسے یکجا رکھے ہوئے ہے حالانکہ اتنے سنگین الزامات کے بعد تو کسی بھی جماعت سے دوری منطقی نتیجہ ہوتا ہے لیکن ایم کیو ایم کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا حالانکہ اس کے ساتھ جڑے ہوئے افراد کی اکثریت پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے۔کراچی مختلف النسل لوگوں کا شہر ہے لہذا یسے افراد کی کراچی کی آمد،کوٹہ سسٹم اور بیوو کریسی میں مہاجروں کی بے دخلی کے بعدمہاجروں کے اندر جس ا حسا سِ محرومی نے جنم لیاتھا الطاف حسین نے اس کو لسانی رنگ دے کر ایم کیو ایم کی بنیادیں رکھیں جسے مہا جروں کی اکثر یت نے دل سے تسلیم کر لیا ۔۱۹۸۵؁ کے غیر جماعی انتخا بات اور جنرل ضیا الحق کی نوازشوں سے ا یم کیو ایم کراچی کی مقبول جماعت بن کر ابھری اور سارے مہاجر اپنی بقاء کی خا طر ایم کیوا یم کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ایم کیو ایم کی تشکیل نے کراچی میں لسانیت کے جو بیج بوئے اور نفرتوں کی جو دیواریں کھڑی کیں ان کا منطقی نتیجہ قتل و غارت گری ہی ہونا تھا جو اس وقت کراچی کا مقدر بنا ہوا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کراچی میں ایم کیو ایم کو پھر بھی شکست نہیں دی جا سکی کیونکہ ایم کیو ایم کے کارکن د ھاندلی اور ٹھپہ ازم میں انتہائی ماہر ہیں جس کی وجہ سے کسی جماعت کیلئے جیتنا مشکل ہے ۔مئی ۲۰۱۳؁ میں عارف علوی کی جیت اس بات کی دلالت کر تی ہے کہ کس طرح ایم کیو ایم کی دھاندلی اور جبر سے جیتی گئی سیٹ اس نے ایم کیو ایم کی جیب سے نکا لی۔اگر اس سیٹ پر دھاندلی کے خلاف لوگ احتجاج نہ کرتے اور الیکشن کمیشن کچھ پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم نہ دیتا تووہ سیٹ بھی ایم کیو ایم کے کھاتے میں چلی جاتی اور یوں تحریکِ انصاف کراچی کے معا ملے میں تہی دامن ہی رہتی ۔،۔

ایم کیو ایم کی لسا نی سوچ کی کوکھ سے جنم لینے وا لی قتل وغارت گری کے خلاف سب سے مضبوط آواز تحریکِ انصاف نے اٹھائی لہذا لہو لہان عوام تحریکِ انصاف کی جانب متوجہ ہو گئے کیونکہ وہ اس خون خرابے سے جان چھڑانا چا ہتے ہیں ۔ وہ اپنے پیاروں کے لا شے اٹھا ٹھا کرتنگ آچکے ہیں ۔وہ امن چاہتے ہیں ،وہ بھائی چارہ چاہتے ہیں، وہ رواداری چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کا سہانا مستقبل چاہتے ہیں جو ایم کیو ایم انھیں دینے ے سے قاصر رہی ہے۔عوام نے تیس سالوں تک ایم کیو ایم پر اندھا اعتماد کیا لیکن ایم کیو ایم انھیں لاشوں کے تحفوں کے علاوہ کچھ نہ دے سکی۔عوام ووٹ دیتے رہے لیکن ایم کیوایم کے ممبرانِ اسمبلی بھتہ خوری اور تاوان سے اپنی اپنی تجوریاں بھرتے رہے ۔ اس غنڈہ گردی اور لوٹ مار کے خلاف تحریکِ انصاف نے آواز اٹھا ئی تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایم کیو ایم کے قلعے میں پہلی بار جھٹکے محسوس ہوئے۔تحریکِ انصاف کے امن کی بحالی کے نعرے کی مقبولیت نے ایم کیو ایم کے قلعے میں پہلی بار دراڑھیں ڈا لنے کا نقشہ کھینچا تو ایم کیو ایم نے اسے انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کر دیا۔ایم کیو ایم کسی دوسری جماعت کو کراچی میں داخل ہونے نہیں دیتی کیونکہ کراچی میں کسی دوسری جماعت کی موجودگی ایم کیو ایم کی بادشاہت کو کھلا چیلنج ہے لہذا کوئی دوسری جماعت کراچی میں اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتی کیونکہ جو جماعت جرات کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اسے اپنے کارکنوں کے لاشے اٹھانے پڑتے ہیں ۔جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر بے بس ہو گئی ہے۔تحریکِ انصاف کی زہرہ شاہد کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن کمال یہ ہے کہ یہ قتل بھی تحریکِ انصاف کے قدم روکنے میں ناکام ہو گیا کیونکہ عمران خان کی جرات مندانہ قیادت اس طرح کے حربوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی اور پھر اس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ایسی تعداد ہے جو اس خونیں کھیل کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اس با جرات مندانہ موقف کی وجہ سے تحریکِ انصاف بلندی کی جانب جبکہ ایم کیو ایم پستی کی طرف گامزن ہے کیونکہ خونی کھیل کو ایک دن شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔تیس سالوں تک اپنا تسلط قائم رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن ایم کیو ایم نے آہنی ہاتھ سے اس تسلط کو قائم رکھا ۔لیکن ہر کمال را زوال کے مصداق ایم کیو ایم کو بھی ایک دن اس زوال کا مزہ چکھنا ہے لیکن یاد رہے یہ زوال اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ۔،۔

حلقہ این اے ۲۴۶ میں ۲۳ اپریل کو ہونے والا انتخا ب اس لحا ظ سے اہم ہے کہ اس دفعہ ایم کیو ایم دفاعی پوزیشن میں ہے کیونکہ اس کے خلاف نائن زیرو میں فوجی اپریشن نے اس کے چہرے سے جمہوریت کا نقلی نقاب الٹ کر اس کا اصلی چہرہ عوام کو دکھا دیا ہے۔ دھشت گردی کے سرغنے اور ٹارگٹ کلرز کی نائن زیرو پر موجودگی اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ ایم کیو ایم دھشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہے ۔ ایک وقت تھا کہ کوئی نائن زیرو پر جانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا لیکن اب وہ وقت آن پہنچا کہ جناح گراؤنڈ میں تحریکِ انصاف کرکٹ کھیلتی ہے اور شہر کے حساس علاقوں میں اپنی الیکشن مہم چلاتی ہے اور ایم کیو ایم کو سب کچھ برداشت کرنا پڑتاہے ۔اس بدلتی ہوئی صورتِ حا ل میں ایم کیو ایم کے سینے پر کیسے کیسے سانپ لوٹتے ہوں گئے کاش کوئی ان سے پوچھے۔تحریکِ انصاف نے ۱۹ اپریل کو کراچی میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کر دیاہے جس سے عمرا ن خان خطاب کریں گئے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ یہ جلسہ ایم کیو ایم کی رہی سہی مقبولیت کو بھی اڑا لے جائیگا کیونکہ عوام عمران خان کے جلسوں میں دیوانہ وار شامل ہوتے ہیں ۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں تحریکِ انصاف کی طرح کے بھر پور جلسے نہیں دیکھے جس میں چند دنوں کے نوٹس پر تا ریخی جلسے منعقد ہو جاتے ہیں۔ذولفقار علی بھٹو ایک ایسے لیڈر تھے جو اس طرح کا کرشمہ دکھا تے تھے۔ا ن کی ذات میں ایسا سحر تھا کہ لوگ ان کے جلسوں میں جوق در جوق شامل ہو تے تھے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کچھ پرانے پی پی پی کارکن عمران خان کے سحر کا مقابلہ ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی کرتے ہیں ۔ میری ذاتی رائے ہے کہ کسی بھی لیڈر کا ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بھٹو کو سیا ست کے ساتھ جو عشق تھا اور پھر سیاست پر جو عبور حاصل تھا وہ کسی بھی سیاستدان کے بس کی بات نہیں ہے۔کسی زمانے میں میاں محمد نواز شریف نے بھی ذولفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کی تھی اور ماؤ کیپ پہن کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ بھی ذولفقار علی بھٹو کی طرح عوامی قائد ہیں لیکن بات بن نہ سکی لہذا انھیں اپنا انداز ترک کرنا پڑا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان کے مقبول قائد ہیں لیکن اس کے معنی یہ کہا ں ہیں کہ ان کا موازنہ ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا جائے؟۱۹ اپریل کے جلسے میں عمران خان کس طرح کا انداز اپناتے ہیں کہ ان کی جماعت یہ انتخاب جیت جائے۔حالات تو اسی بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ این اے ۲۴۶ پر تحریکِ انصاف ہی فاتح ہو گی لیکن حتمی فیصلہ ۲۳ اپریل کو ہی ہو گا۔،۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 447075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.