جُنید پہلوان اور ایٹمی پاکستان

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا، پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا، بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا، یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا،ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی، خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے، اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے، بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو، اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا،وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں، وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آجاتا ہے، پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے، اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے، میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے،جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا، بادشاہ نے کہا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے، بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے، تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا، ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا، دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلہ دیکھنے کے لئے آنے لگے، جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا،جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی، اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا، اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا، بادشاہ اپنی سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تھا، جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا، سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں، جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا، مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے، جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا، اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے، کہ اچانک وہ "اجنبی" لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا کھاڑے میں پہنچ گیا، ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں، لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا، کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے، پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتا اجنبی نے آہستہ مگر جلدی سے جنید سے کہا ، جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں، زمانے کا ستایا ہوا ہوں، میں آل رسول ﷺ ہوں، میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں، خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی، بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں، میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم ﷺ کے گھرانے سے عقیدت ہے، آج خاندانِ نبوت کی لاج رکھ لیجئے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا، تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی، تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی،

اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے، اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں، سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل رسول ﷺ پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی، فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہوسکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندانِ نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں، اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آسکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں، جنید فیصلہ دے چکا، اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی، اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا،کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا، پینترے بدلے جا رہے تھے، کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا، پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھتا، دونوں باہم گتھم گتھا ہوگئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا، جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندانِ نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا، پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا، حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمع نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا، میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا، ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی، خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا،اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا، زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا، رات ہو چکی تھی، لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے تھے.،آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدانِ محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا،جنید سوچتا ،کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضورﷺکے مقدس ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندانِ نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، آل رسول ﷺکا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبدِ خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف وسرور میں ڈوب گیا، در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں "الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ" جنید سمجھ گئے ،یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں، فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ،جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو، نبی زادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا، سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں، آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے، تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو،ان کلمات کے بعد حضور ﷺ نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حالتِ خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیاگیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آگئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے، بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا،بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا، ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے-(تاریخی واقعہ) ۔

یہاں اس پُر لطف واقعے کے ذکرکرنے کا منشایہ ہے کہ جنید پہلوان نے آل رسول ﷺ کی لاج رکھی، تو اللہ تعالی نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا،اسی طرح ایٹمی پاکستان اگر ایران کے مقابلے میں خودداراہل حرمین کی تائید میں لیت ولعل کے بجائے کھل کر سامنے آتا، تو اس مملکت خداداد کو کیا کچھ ملتا، اس کا اندازہ لگانا اس وقت مشکل ہے، لیکن شریف خاندان کی کمبختیوں پرلکھنے کیلئے دفتر کے دفتر درکارہیں ،صرف اتنا عرض ہے کہ شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ نے جدہ میں ملاقات اس لئے کی کہ ریاض آنے کی زحمت گوارا نہ کریں ،تاکہ وہ شاہ سلمان کے سامنے ‘‘عذرلنگ’’پیش کرنے کا مرتکب نہ ہو۔
بمصطفیٰ برساں ،کہ دیں ہمہ اوست
*اگر بأو نہ رسیدی، تمام بولہبی ست
صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814414 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More