تھرپارکر میں تڑپتی انسانیت

زمین عطیہ خدا وندی ہے جسکے مختلف خطوں پر طرح طرح کی آزمائشیں ہر روز ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ دنیا کے سفر کرتے ہوئے کہیں سرسبز و شاداب کھیت دکھائی دیتے ہیں تو کہیں خشک اور بنجر زمینیں۔ کہیں زمینیں سونا اگل رہی ہیں تو کہیں بنجرپن کی وجہ سے ایسی نعمتوں کی نشو و نما سے محروم ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کے علاقہ تھرپارکر کا ذکر ہم ہرروز کہیں نہ کہیں سنتے رہتے ہیں۔ یہ بے آب و گیاہ علاقہ ہے جس کا انحصار بارشوں پر ہے اور وہ بھی بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ زمینیں بنجر پن اور کھیت خشک سالی کا شکار ہیں۔ تقریبا پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل یہ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے جس میں ہریالی کا نام و نشان دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ جب خشک سالی کا دور شروع ہوتا ہے تونہ صرف قحط سالی آتی ہے بلکہ انسانوں اور حیوانوں کیلئے یہ موت کا پیغام بھی ہو تا ہے۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے مرد، عورتیں اور بچے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ گھاس پھوس، چارہ اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے جانور بھی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہاں کا یہ معمول ہے کہ جس سال بھی بارشیں نہ ہوں ایسی ہی تکالیف اور مصائب کا سامنا یہاں کے انسانوں اور حیوانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات ان تڑپتے انسانوں کی آخری سسکیاں بھی ہمیں ٹی وی سکرین پر دیکھنے کو ملتی ہیں جو بے حس ارباب اقتدار اور فضول خرچی اور عیاشی میں مبتلا اصحاب ثروت کو قومی غیرت اور احساس ذمہ داری یاد دلا رہی ہوتی ہیں۔

یہ علاقہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کا حصہ ہے۔ یہاں سے ووٹ لیکر منتخب ہونے ولاے نمائندوں نے آج تک اس صورت حال کا جائزہ لیکر حکومتی سطح پر حسب ضرورت کام نہیں کیا۔ خوراک کی فراہمی، ہسپتالوں کے قیام اور انسانی و حیوانی زندگی کے بچاؤ کیلئے کوئی قابل قدراقدامات نہیں کیے گئے۔ بلکہ افسوسناک پہلو یہ کہ عین اس وقت جب انسانیت تھر پارکر کے صحراؤں میں تڑپ تڑپ کے مر رہی تھی تو سندھ حکومت اور وہاں کے سیاسی زعماء کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ’’سند فیسٹیوال‘‘ کے نام پر رقص وسرود کی محفلوں میں مصروف تھے۔ قومی دولت سے صرف ایک فسٹیوال کا خرچہ پینتالیس کروڑ روپے ہے ۔ اسی رقم سے ہسپتال بنا کر یا خوراک مہیا کرکے کئی مفلوک الحال انسانوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ا ن محافل کے شرکاء کو پڑوس کے علاقے تھر میں تاریخ کے بد ترین قحط کے نتیجے میں بپا ہونے والی قیامت صغریٰ کا زرا بھی احساس نہ تھا۔ملک میں بسنے والے افراد کے جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت وقت اور ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ آئین پاکستان کی کئی شقیں اس کاتقاضاکرتی ہیں۔ لیکن اسلام آباد کی ٹھندی اور پر لطف فضائیں اور کراچی کی روشنیوں سے بھرپور لگژری زندگی ہمارے حکمرانوں کو ان افتاد زدہ پاکستانیوں کے ناگفتہ بہ حالات سے نا آشنا رکھتی ہے۔ جی ہاں! جب خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی دلوں سے رخصت ہو جائے تو پھر ایسا ہی ہوا کرتا ہے اگرچہ کُر تے کی جیب پر اسلام کا لیبل ہی کیوں نہ سجا ہو۔ پھر ان تپتے صحراؤں میں بھوک سے بلکتے معصوم بچوں اورغم و اندوہ کی حالت میں روتی، پیٹتی اورچیختی چلاتی ماؤں کی دلدوز آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔بھوک سے نڈھال، ننگے پاؤں گھروں کو چھوڑ کر پناہوں کے متلاشییوں پر ان کی نظریں پڑ بھی جائیں تو وہ بیچارے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ تھرپارکر کا یہ صحرا یہاں کے مزدوروں، محنت کشوں،کاشتکاروں اور ان کے معصوم بچوں کیلئے ’’صحرائے موت‘‘ کی شکل اختیار کرتا جا رہاہے۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے علاقوں میں ابھی تک رسائی مشکل ہے جسکی وجہ سے حکومتی امداد بھی صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔ جب کوئی اعلی عہدیدار یا حکومتی شخصیت ان علاقوں کا دورہ کرے تو یہ ان غریبوں کیلئے اور بھی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ ارباب اختیار و اقتدار ان بھوکے اور پیاسے لوگوں کی موجودگی میں طرح طرح کے انواع اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں جبکہ ان غریبوں کے لب اور پیٹ اسی خشک سالی اور بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں۔ آنکھیں ترس رہی ہوتی ہیں اور ان کا دل بھی چاہتا ہے کہ ان کے منہ سے نوالا چھین لیں لیکن سخت سیکیورٹی اور آداب شاہی آڑے آجاتے ہیں۔

پاکستان، امریکہ، برطانیہ ویورپ اور دیگر ممالک کے نجی فلاحی ادارے بھی ان لوگوں کے حالات بدلنے کیلئے چندہ اکٹھا کرکے وہاں پانی، خوراک، ادویات اور رہائش کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی کہ یہ عطیات دیانتداری اور امانتداری کے ساتھ ان مستحقین تک پہنچیں۔ ورنہ قرآنی فرمان کے مطابق پیٹ میں (جہنم کی) آگ بھرنے کے مترادف ہو گا۔ لوگ عطیات دیتے ہوئے حسن ظن رکھتے ہے۔ ہم پر امید ہیں اور فلاحی اداروں کے ذمہ داران سے درخواستگار بھی کہ کسی صورت اس حسن ظن کو ٹھیس نہ پہنچے۔ یہ تمام فلاحی ادارے تحسین کے مستحق ہیں جو ہمارے چھوٹے چھوٹے عطیات کو ہمارے ان ضرورت مند بہن بھائیوں تک پہنچاتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی کثیرتعداد اور ناگزیر حالات کے پیش نظر یہ امداد ابھی تک ناکافی ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ تنقید برائے ت تنقید کرتے ہوئے صرف چندہ مانگنے کو بزعم خویش برا سمجھتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر ایسا وہ کرتے ہیں جو خود دیتے نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھیک مانگنا اسلام کی نظروں میں اچھا عمل نہیں لیکن جب کوئی چارہ کار نہ ہو تو مجبوری اور اضطرار کے حالات میں وہ بھی جائز ہے۔ ایسی ہی صورت حال میں قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے نبی کریمﷺ کودروازے پر آنے والے سائل کو نہ جھڑکنے کی تلقین کی۔ لیکن خدمت خلق یا خدمت اسلام کیلئے مانگنا تو سنت نبوی ہے۔ سیرت نبویﷺ کے کئی مستند واقعات گواہ ہیں آپﷺ نے منبر پہ بیٹھ کر صحابہ کرام ؓ اور آل بیت ؓسے مانگا اور انہوں نے دل کھول کر عطیات دیے۔

جہاں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اس حوالے سے اپنا فرض منصبی ادا کرے وہاں ہم میں سے بھی ہر ایک کی ذمہ د اری ہے کہ مقدور بھر ان لوگوں کی مدد میں حصہ دار بنیں۔ ہم اپنے اخراجات میں سے تھوڑی تھوڑی بچت کرکے کئی انسانوں کی جانیں بچا کے انہیں خوشیاں دے سکتے ہیں۔ ایک پونڈ کی بچت دو افراد کو ایک دن کی ضروری خوراک مہیاکر کے ان کی جان بچا سکتی ہے۔ جب ہم ٹیسکو، سینس بری ، ایسڈا یا کسی بھی سپر مارکیٹ سے خریداری کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ بجائے غیر ضروری اشیاء کی خریداری کرنے کے ہم تھوڑی سی بچت سے اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی جانیں بچا سکتے ہیں۔ صرف عبادات کے ذریعہ خشک ثواب بھی اچھی چیز ہے لیکن بسا اوقات بارگاہ ایزدی سے حصول رحمت کے لئے یہ ناکافی ہو تا ہے جب تک کہ جان نثاری کے جذبہ کے ساتھ خدمت خلق کی تڑپ دل میں موجود نہ ہو۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو، خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218868 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More