ورکرز ویلفئیر بورڈ ملازمین کا بنی گالہ میں دھرنا

 صوبائی وزیر شاہ فرمان ، ورکرز ویلفئیر بورڈ اور اُس کے تحت چلنے والے سکولوں اور کالجوں کے ملازمین کے درمیان خلیج اور اِختلاف بڑھتا جا رہا ہے۔بورڈ اور ملازمین کے درمیان یہ اِختلافات بہت پہلے سے چلے آ رہے ہیں ۔ بورڈ میں نااہل افسران اورپھر ایسے وزیر با تدبیر کا اس کے اوپر سایہ ہے۔ اُس کی روایتی سوچ یہ ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اِس کے ذریعے اپنا ووٹ بیلنس بڑھائے گا۔حالانکہ یہ کم فہمی ہے۔اس سے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ووٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ اِختلافات کیوں اِتنے شدت تک پہنچے؟ متعلقہ وزیر با تدبیر نے بو رڈ سے این ٹی ایس کے ذریعے ایک نہیں تین مختلف اِشتہارات شائع کروائے۔ جن میں مختلف آسامیوں کے سامنے اہلیت کے خانے میں ایک انوکھی قسم کی اہلیت شامل کی گئی۔ جس کامختصر متن انگریزی میں کچھ یوں ہے۔ــThe preference will be given to those who are already in contract۔شاید اِن کے نزدیک تبدیلی یہی ہے۔کہ لوگ کچھ ایسا سُنے اور پڑھے۔جو اس سے پہلے کسی نے سُنا اور پڑھا نہ ہو۔اِن اِشتہارات کے فوراََ بعد اِمپلائز یونین بھی حرکت میں آگئی۔ تمام ملازمین نے مِل کر اپنا حق مانگنے کیلئے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ کا رُخ کیا۔جب ۱۲ اپریل کو ملازمین نے بنی گالہ میں اپنا جمہوری حق مانگنے کیلئے خیمے گاڑ دیئے۔تو صوبائی وزیر نے پارٹی کے سیکرٹری اِطلاعات شیریں مزاری کے ساتھ مِل کر ایک پریس کانفرنس کیں۔جس میں کچھ ایسے جملے اِستعمال کیے گئے۔جو پارٹی کے منشور کی عکاسی نہیں کرتے۔ایک یہ کہ بنی گالہ میں دھرنا دینے والے اگر اہل ہیں تو عدالت کیوں نہیں جاتے۔دوسرا یہ کہ پچھلے دور میں یہ لوگ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے۔تیسرا بیان جو کہ اس پریس کانفرنس سے بھی پہلے متعلقہ وزیر نے جاری کیا ہے۔کہ یہ لوگ جعلی ڈگریوں پر بھرتی کیے گئے۔ایک جملہ یہ بھی ہے۔ کہ اِن ملازمین میں ۷۰۰ کے قریب ایسے اساتذہ ہیں ۔جِن کا تعلق بنوں سے ہیں ۔اور اُن کا کنٹریکٹ جون میں ختم ہو رہا ہے۔اِن کی کنٹریکٹ میں تجدید نہیں کی جائے گی۔

پہلے جملے کے جواب میں یونین کے صدر یونس مروت کا کہنا ہے۔کہ عمران خان کو چاہئیے۔کہ وہ اِس بیان پر صوبائی وزیر کو شوکاز نوٹس جاری کرے۔کیونکہ اگر آپ ہمیں عدالتوں میں جانے کیلئے دعوت دیتے ہیں۔تو پھر لوگوں نے آپ کی پارٹی کو اِتنی اکثریت کیوں دی؟اگر آپ لوگوں کو اِنصاف دینے میں ناکام ہے۔تو پھرآپ کیوں منہ پر مونچ اُٹھائے اسمبلی میں بیٹھے ہیں؟ دوسری بات ، اگر اُن کا بیان یہ ہے۔کہ پچھلی دور میں سیاسی بھرتیاں ہوئیں۔تو اُن سے سوال غرض ہے کہ محترم ! اِس ملک میں وہ محکمہ بتائیں سِوائے پبلک سروس کمیشن کے(اب تو اس کی شفافیت پر بھی اُنگلیاں اُٹھتی ہیں)۔ جِن میں سیاسی بھرتیاں نہ ہوئی ہو؟ متعلقہ وزیر تو سیاست سے ناواقف لگتے ہے۔ کیونکہ اِس سے پہلے کسی بھی پارٹی نے پچھلے دور کے لوگوں کو نوکریوں سے نہیں نکالا۔اگر ایسا ہوگا تو پھر یہ سیاسی انتقام کو جنم دے گی۔اس فیصلے سے نہ صرف ملازمین بیروزگار ہونگے۔بلکہ ۴۰۰۰کے قریب خاندان متاثر ہونگے۔ اِنکے والدین کی دل آزاری اور اِن کے بچوں کی پرورش متاثر ہوگی۔جعلی ڈگریوں کے سوال پر دھرنے میں ٹیچر کے ساتھ جب سوالات ہوئے۔ تو ان میں گولڈ میڈلسٹ، ایم فل حتی کہ تین اور چار مضامین میں ماسٹر کرنے والے بھی ملے۔تحریک اِنصاف کے سارے اراکین اسمبلی میں شایدایک ممبر بھی تین چار ماسٹر ڈگری ہولڈر موجود ہو۔ ملازمین کے ڈگریوں کی باربار چھان بین کرائی گئی۔ اب این ٹی ایس سامنے آگیا۔یونین کے صدر نے ایک مثال سے اِس کا جواب دیا۔کہ پولیس والوں کی دوڑ کے ذریعے ایک دفعہ بھرتی کرائی گئی۔پھر تین یا چار سال بعد پھر ان پولیس والوں کو از سرِ نو دوڑ کے ذریعے بھرتی کیا جا رہا ہو۔تو یہ سراسر پاگل پن نہیں تو اورکیا ہے۔یہ تحریک انصاف کی سیاسی ناپختگی ظاہر کر رہی ہے۔اِن اشتہارات میں یہ بھی انوکھی بات ہے ۔کہ پہلے یہ ملازمین تین سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے تھے۔اب یہی ملازمین این ٹی ایس کے ذریعے ایک سال کیلئے بھرتی ہونگے اور وہ بھی ٹیچرز۔مزیدیہ کہ اس ٹیسٹ کا اطلاق تو نئی بھرتیوں پر ہوتا ہے۔ پہلے سے بھرتی شدہ لوگوں سے دوبارہ ٹیسٹ لینا ظلم اور زیادتی ہے۔آخری جملہ یہ کہ جن لوگوں کا کنٹریکٹ جس کسی بھی وقت ختم ہو رہاہے۔اُن کی تجدید نہ کرنے کاقبل از وقت بیان عصبیت اور ظلم پر مبنی ہے ۔اِس سے اور بھی مسائل پیدا ہونگے۔

عمران خان صاحب بذاتِ خود اِس مسئلے کی سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے پچھلے پانچ ،چھ دنوں سے بنی گالہ میں بیٹھے تعلیم یافتہ لوگوں کی موقف کو سُنے۔ اور اِن ملازمین کو بیروزگار ہونے سے بچائے۔ نئی آسامیاں تخلیق کرے۔ پرانے لوگوں کو نہ چھیڑے۔صرف تعلیم کے لیے فنڈز فراہم کرنا، گھر آیا اُستاد جیسے مہم شروع کرنا ہی کافی نہیں۔ بلکہ تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنا،تعلیمی اداروں میں باقاعدگی لانااور تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی سے ہی اس جنگ زدہ صوبے کو ترقی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 31 Articles with 19693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.