پکیاں سڑکاں۔۔۔۔سوکھے پینڈے۔۔۔۔؟؟؟

نصاب کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی جو کچھ یوں تھی کہ تین بادشاہ ایک جگہ اکٹھے ہوئے ۔فیصلہ کیا کہ ایک سال بعد ملیں گے ۔اس دوران ہم اپنے اپنے ملک میں اچھے کام کریں گے اور سال بعد سب سے بہترین کام کرنے والے کو اعزاز سے نوازا جائے گا۔

سال بعد تینوں ریاستوں کے سربراہ حسب وعدہ اکٹھے ہوئے اور چوتھی ریاست کے غیر جانبدار منصفین کا انتخاب کیا گیاکہ سب سے بہترین کا فیصلہ کریں گے۔سب سے پہلے جس ریاست کا دورہ کیا گیا وہاں کے بادشاہ نے اپنے شہروں کو باغات میں بدل دیا تھا۔ جابجا رنگ برنگے پھول کھلے آنکھوں کے بھا رہے تھے۔ہرجانب سبزہ ہی سبزہ تھا۔شاہرات کے کنارے ،گھروں کی منڈیروں پر بھی پھولدار پودے اگائے گئے تھے۔بڑے بڑے قطعات اراضی کو پھل دار درختوں کے باغات میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ہوسو ہریالی ہی ہریالی تھی۔ساتھی بادشاہوں اور منصفین نے اس خوبصورتی کی دل کھول کر داد دی اور ذوق باغبانی کو سراہا۔بادشاہ اس دادو تحسین کی وجہ سے ابھی سے اپنے اپنے آپ کو فاتح سمجھنے لگا تھا۔

دوسری ریاست کا دورہ شروع کیا گیا۔وہاں کے بادشاہ نے شاہرات و گلیات کو پختہ کرنے اور عمارتوں کو از سرنو تعمیر کیا تھا۔لہذا ریاست کا کوئی بھی راستہ کچا یا ناہموار نہ تھا اور نہ ہی کوئی ایسی عمارت کہ جو شکستہ ہو یا اس میں کوئی اور تعمیراتی نقص ہو۔ہر جانب جدید اور خوبصورت انداز میں تعمیرات کی گئیں تھیں،راستوں کو کشادہ اور پختہ کیا گیا تھا۔ ان تمام تعمیرات میں خوبصورتی کو مدنظر رکھا گیا۔ دوسری ریاست کے بادشاہ کے ذوق تعمیر اور کارکردگی کو ساتھی بادشاہوں نے کھل کے سراہااور منصفین نے بھی احسن تعمیرات کی تعریف کی۔اس ریاست کا بادشاہ بھی اپنے آپ کو فاتح سمجھنے لگا۔

درجہ بالا دونوں ریاستوں کے بادشاہوں نے جس جس شعبہ کو اپنے لئے ہدف قرار دیا تھا ۔ انہوں نے اس شعبہ کو حددرجہ محنت اور دقت نظر سے مکمل کیا اور اس کو اوج کمال تک پہنچایا۔چاہئے وہ باغات کی تعمیر ہو یا شاہرات کی ،کوئی بھی ان میں نقص نہیں نکال سکتا تھا۔منصفین نے تعمیرات کو ہر زاویہ سے دیکھا لیکن اس کے ساتھ وہ کچھ اور بھی دیکھتے رہے۔

اب باری تھی تیسری اور آخری ریاست کی کہ جس کے معائنہ کے بعد منصفین نے ’’فاتح‘‘ کا فیصلہ کرنا تھا۔جب ریاست کا دورہ شروع کیا گیا تو یہ وفد بادشاہ کی ہمراہی میں سلطنت کے جس جس علاقہ سے گزرا وہاں کی عوام نے اپنے بادشاہ کا والہانہ استقبال کیا۔ عوامی استقبال کا رنگ ایسا تھا کہ جیسے تمام رعایا ’’ دیدہ ودل فرش راہ‘‘کیئے ہوں۔ہنستے مسکراتے چہرے،بادشاہ سے والہانہ محبت،محبوب بادشاہ کے دید شوق میں وارفتگی ایسی کہ ساتھی بادشاہ حیران و ششدرکہ یہ محبت و الفت ان کو کیوں نصیب نہ ہوئی ہے۔جب منصفین نے یہ شاندار استقبال دیکھا کہ جو ایک صحتمند اور پرجوش عوام کر رہے تھے ۔جن کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔تو اسیے میں وہ عمارتوں و باغات کو بھول کر اس شاندار صحت مند رعایا کا موازنہ دوسری دو ریاستوں کی رعایاسے کرنے لگے۔نہ ان کو عمارتوں کے حسن تعمیر کا خیال رہا اور نہ آرائش گلستان کو انہوں نے دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس سے قبل دورہ کی گئی ریاستوں کی رعایا مفلوک الحال لوگ پر مشتمل تھی، غربت جن کے لباسوں اور بھوک جن کے بجھے چہروں سے عیاں تھی۔جسم لاغر و کمزور تھے اور استقبال پر وہ ایسے لگے تھے کہ جیسے مفت کی مشقت کر رہے ہوں۔مگر تیسری ریاست جس میں وہ موجود تھے وہاں حالات دیگر دو ریاستوں کے بالکل برعکس تھے۔یہاں کی رعایا صحتمند ،چہروں سے پھوٹتی سرخی،ہشاش بشاش،خوش و خرم اور استقبال میں ایسے مگن کہ گویاوہ کسی ’’عبادت‘‘ کو جوش و خروش سے سرانجام دے رہے ہوں۔

قصہ مختصرمنصفین نے تیسری ریاست کے حق میں فیصلہ دیدیااور یوں وہاں کا بادشاہ فاتح قرار دپایا۔خلاصہ سبق یہ بیان کیا گیا تھا کہ فاتح بادشاہ نے دیگر دو بادشاہوں کو کامیابی کا راز یہ بتایا کہ اصل ترقی رعایا کی خوشحالی ہے۔کیونکہ عمارتیں مکینوں کے بغیر کچھ نہیں اور باغات کو بھی انسان ہی سراہاتا ہے۔اگر ان عمارتوں اور باغات کو استعمال کرنیوالوں کی زندگیاں سہل نہیں ہوں گیئں تویہ عمارتیں اور باغات بیکار ثابت ہوں گے۔آپ نے بھی اکثر پڑھا یا سنا ہو گا کہ اگر ’’ اندر کاموسم‘‘ ٹھیک نہ ہو تو پھر ہر سو ہریالی،خوبصورت رہائش غرض کہ برکھا رت ،سب کا سب پھیکا پھیکا لگتا ہے۔

برسوں قبل پڑھے ہوئے اس سبق کی یاد پچھلے دنوں ’’پکیاں سڑکاں۔۔۔سوکھے پینڈے‘‘ کے نعرہ سے پھر تازہ ہوئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذرائع نقل وحمل کا بہترین نظام ترقی کا ضامن ہوتا ہے مگر صرف یہ ہی نہیں۔۔۔کیونکہ جس صوبے کیلئے کھربوں روپے کی شاہرات کی تعمیر ہو رہی ہوں لیکن اس کے غریب مزدور گھروں سے دور بے آب گیاہ علاقوں میں مزدوری کے کیمپوں میں گولیوں سے چھلنی کر دیئے جاتے ہوں،جہاں ہر سہ ماہی میں مزدور بچہ مالکان کی بربریت و وحشت کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتا ہو،غربت سے تنگ آئے والدین اپنے لخت جگر فروخت کرنے پر مجبور ہوں،بچوں سمیت والدین زہر کے پیالے پی رہے ہوں، بیوائیں افلاس کے باعث بچوں سمیت نہروں میں کود کر خودکشیاں کر رہی ہوں،بڑے بڑے ہسپتالوں میں مریض آکسیجن و ادویات کی کمی کی وجہ سے یا جعلی ادویات کی وجہ سے مرجاتے ہوں،جہاں اندھوں پر بھی حقوق مانگنے پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہوں،چوریاں ڈکیتیاں جہاں معمول کی خبر کی طرح پڑھی جاتی ہوں ،قلم سے کھیلنے کے دنوں میں ہاتھ اینٹین بناتے ہوں،جہاں دو روز کی بارش غریب کے گھر ہفتہ کے لئے چولہا ٹھنڈا کر دے ۔ وہاں اگر انتہائی اہم ضروریات کی فراہمی پر خرچ ہونے والی رقم سالانہ میزانیہ کا عشر عشیر بھی نہ ہو اور وہاں ہر طرف کھربوں کے
پکیاں سڑکاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوکھے پینڈے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
Raja Ghulam Qanbar
About the Author: Raja Ghulam Qanbar Read More Articles by Raja Ghulam Qanbar: 23 Articles with 16848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.