چار لاکھ کا کیک ،مسٹ اور ایم بی بی ایس میڈیکل کالج

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنے تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو الدردا ؓ فرماتے ہیں ایک آدمی کو حرملہ کہا جاتا تھا اس نے نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ ایمان تو بس یہاں ہے اور زبان کی طرف اشارہ کیا اور نفاق یہاں ہے اور دل کی طرف اشارہ کیا اور میں اﷲ کا ذکر بس تھوڑا سا کرتا ہوں حضور ؐ نے یہ دعا فرمائی اے اﷲ اسے ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل عطا فرمااور اسے اس بات کی توفیق عطا فرما کہ یہ اس سے محبت کرے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر کام میں اس کے انجام کو خیر فرما ۔

قارئین آج کے کالم کے عنوان میں اتنی بھاری مالیت کے کیک کے متعلق آپ بہت کچھ سوچ رہے ہونگے آپ کے خیال میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے معتبر ریکارڈ کا حصہ بننے کے لیے شاید کوئی بہت بڑا کیک آزادکشمیر یا پاکستان میں بنا دیا گیا ہے یا یہ کسی قسم کی رشوت یا نذرانے کا علامتی نام ہے یا وہم و گمان کے مختلف گھوڑے اور گدھے دوڑاتے ہوئے مختلف اندازے لگائے جا رہے ہونگے ہم آپ کو زیادہ سسپنس میں نہیں رکھتے اور براہ راست اس کیک کی طرف چلتے ہیں جس کی قیمت کشمیری اور پاکستانی قوم مل جل کر اپنے خون پیسے کی کمائی سے چار لاکھ روپے ماہانہ کی شکل میں ادا کر رہی ہے ہمارے پڑھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس طرح کا دفتری اور افسری نظام پاکستان میں رائج ہے ہندوستان نے اس نظام سے گورا صاحب کے جانے کے فورا بعد نجات حاصل کر لی تھی مولانا ابو الکلام آزاد نے ہندوستان میں وہ اصلاحات کا بل پاس کروایا تھا کہ جس کی روسے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام پر کاری ضرب لگا دی گئی تھی اور اسی طرح بھارت میں کبھی بھی آج تک فوج اور آرمی کے جرنیلز کو وہ خصوصی حیثیت حاصل نہیں ہے جو پاکستان میں مختلف مارشل لاز لگنے کے بعد ’’ بے لکھے آئین ‘‘ کی رو سے قرار پائی ہے بھارت میں عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزرائے اعظم مختلف الزامات پر جرنیلوں کو برطرف بھی کرتے رہے اور بیوروکریسی کو بھی جمہوری سیٹوں اور عہدوں پر بیٹھنے والے جمہوری نمائندے آہنی ہاتھوں سے ٹریٹ کرتے رہے بد قسمتی سے پاکستان اور آزادکشمیر میں اس کے بالکل برعکس ماحول موجود ہے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے جب پاکستان بننے کی طرف قوم کو راستہ دکھایا اور متحدہ ہندوستان میں انتخابات ہوئے تو مشہور یہ ہے کہ مسلم لیگ نے اگر ان انتخابا ت میں کسی کھمبے کو بھی کھڑا کیا تھا تو اس کھمبے کو مسلمانوں نے محمد علی جناح ؒ کا نمائندہ سمجھ کر پاکستان بنانے کی خاطر ووٹ دے دیئے بعد ازاں یہی کھمبے ’’ کھوٹے سکے ‘‘ بن کر پاکستانی اور کشمیری قوم کا نصیب بن گئے اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی یہ کہنا پڑ گیا ’’ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ‘‘ حبیب جالب مرحوم بہت بڑے عوامی شاعر تھے اور ان کی شاعری میں انسان کا در د اور ایک عام پاکستانی کی آواز بولتی تھی اس دور کی شاعر ی میں حبیب جالب نے ’’بائیس گھرانوں ‘‘کا ذکر کیا تھا جن کے ہاتھوں میں پاکستان کی تمام معیشت مرتکز ہو کر رہ گئی تھی یاد رکھیے کہ ہمارا دین ہمیں دولت کے ارتکاز کی بجائے دولت کو مسلسل حرکت میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے لیکن آج جو بھی یہ نصیحت کرنے کی کوشش کرے اسے ’’ تلقین شاہ ‘‘ کی گالی دے کر چپ کروادیا جاتا ہے ۔بد قسمتی سے وہی بائیس گھرانے آج بڑھتے بڑھتے شاید دو سو بائیس گھرانے بن چکے ہیں لیکن ایک عام پاکستانی اور کشمیری اب بھی اس کلب کا حصہ نہیں ہیں جو قومی تقدیر کے فیصلے کرتا ہے ۔اس سب عمل کے دوران بیوروکریسی نام کی ایک ایسی مخلوق بھی وجود میں آئی جو ان کرپٹ سیاستدانوں کی خواہشات کو ’’ قانون اور آئین ‘‘ کے کپڑے پہنا کر اس ننگی جارحیت اور استحصال کو مناسب جواز فراہم کرتی تھی اس مخلوق کو ہمارے ملک میں ’’ بیوروکریسی ‘‘ کہا جاتا ہے خیر یہ تو آج کے کالم کے عنوان کا بیک گراؤنڈ ہے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھا اب اشاروں اشاروں میں آپ کو چارلاکھ کے کیک کے متعلق بھی بتاتے چلیں شرارتی مخبروں نے ہمیں بتایا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے ارباب بست و کشاد کو خوش رکھنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کچھ یار لوگوں نے بڑی زبردست حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے اور وہ حکمت عملی یہ ہے کہ اپنی اپنی نوکریاں اور وظیفے پکے رکھنے کے لیے وہ ہر ماہ ’’ بڑے صاحب ‘‘ کی دعوت کرتے ہیں اور اس دعوت میں بڑے صاحب کو ان کی پسند کا کیک کھلایا جاتا ہے جس کی قیمت قوم کو ان ڈاکٹرز کی تنخواہوں کی شکل میں چار لاکھ روپے ماہانہ پڑتی ہے شرارتی مخبر کا یہ بھی دعوی ہے کہ یہ دونوں ڈاکٹرز ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور کی پی ایم ڈی سی کی سکورنگ سسٹم میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی نمبر نہیں رکھتے اور ان کا شمار ’’ اضافی سٹاف ‘‘ میں کیا جاتا ہے شرارتی مخبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو اہم ڈیپارٹمنٹس شعبہ گائنی اور شعبہ نفسیات میں کسی بھی قسم کا پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر موجود نہیں ہے حالانکہ یہ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر تھوڑی سی کوشش کر کے حاصل کیے جا سکتے ہیں جس سے ایم بی بی ایس کی پی ایم ڈی سی سکورنگ میں بیس سے زیادہ پوائنٹس حاصل کیے جا سکتے ہیں جبکہ مجموعی طو رپر ایم بی بی ایس میڈیکل کالج کے بجٹ میں سالانہ پانچ کروڑ سے زائد کی رقم ایسے اضافی سٹاف پر خرچ کی جا رہی ہے جن کا پی ایم ڈی سی کی پوائنٹس سکورنگ میں کسی بھی قسم کا کردار نہیں ہے گویا یہ ایک کیک تو قوم کو چار لاکھ روپے میں ماہانہ پڑتا ہے لیکن مجموعی طور پر اگر شرارتی مخبر کی یہ شرارت سچائی پر مبنی ہے تو قوم کو ہر سال پانچ کروڑ روپے سے زائد کا ٹیکہ لگ رہا ہے ہم ارباب بست و کشاد اور وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ چیف سیکرٹری آزادکشمیر اور ہیلتھ سیکرٹری کے علاوہ سیکرٹری مالیات کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کریں جو ان معاملات کی چھان بین کرے اگر الزامات درست ہیں تو ایکشن لیا جائے بصورت دیگر الزاما ت کو شرارتی مخبر کی شرارت سمجھ کر نذر انداز کر دیا جائے ویسے بھی اپریل کے مہینے میں شرارتوں کا بُرانہیں منانا چاہیے ۔

قارئین اب ہم آپ کو میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف لیے چلتے ہیں جس نے نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن کی قیادت میں ایک سال میں زبردست ترقی کی ہے ۔وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور ہمارا اثاثہ ہے اور اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ اس میڈیکل کالج کو میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا حصہ بنا کر دیگر شعبہ جات بھی شروع کیے جائیں گے صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے منظوری دے دی ہے اور بہت جلد عملی طور پر کام شروع کر دیا جائے گا ۔میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا پہلا کانووکیشن 23اپریل کو منعقد ہوگا جس میں تین سیشن کے طلباء وطالبات کو ڈگریاں دی جائیں گی ان سٹوڈنٹس کی تعداد بائیس سو کے قریب ہے جن میں سے سات سو کے قریب سٹوڈنٹس پہلے ہی ڈگری حاصل کر چکے ہیں جبکہ پندرہ سو سے زائد سٹوڈنٹس کو کانووکیشن کے موقع پر پر وقار تقریب میں ڈگریاں دی جائیں گی ۔میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک سال کے اندر ریٹنگ میں انقلابی تبدیلی آئی ہے اور میں آج قوم کو خوشخبری دے رہا ہوں کہ پاکستان کی ٹاپ رینکنگ رکھنے والی یونیورسٹیوں میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی شامل ہو چکی ہے اور 87%مارکس حاصل کر کے ٹاپ ڈبلیو رینکنگ میں مسٹ شامل ہو چکی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزادکشمیر کے پہلے ٹی وی چینل جے کے نیوز ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام سچ کیا ہے میں جنید انصاری سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہاکہ دنیا کی تہذیب کا بہت بڑا واقعہ پہلی یونیورسٹی کا قیام تھا اور آج بھی صرف تعلیمی ترقی کے ذریعے ہی ہم بین الاقوامی میدان میں قوموں کا مقابلہ کر سکتے ہیں کشمیری طلباء و طالبات بہت ذہین ہیں اور اس ذہانت کو مناسب راستے کی ضرورت ہے ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ 23اپریل کو میرپو ر میں منعقدہ یونیورسٹی کے پہلے کانووکیشن کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور وفاقی وزیر مملکت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انجینئربلیغ الرحمن پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وزیرپاکستان اس تاریخی موقع پر یونیورسٹی میں تشریف لائیں ۔

قارئین ایک اور تاریخی موقع ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور نے فراہم کیا ہے جو بہت بڑے پیمانے پر تین روزہ میڈیکل کانفرنس منعقد کر رہا ہے اس کانفرنس میں پاکستان ،آزادکشمیر ،امریکہ ،برطانیہ ،سعودی عرب ،دوبئی سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک سے بڑے بڑے پروفیسر ڈاکٹر ز اور ریسرچ سکالر زشرکت کر رہے ہیں اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے زیر انتظام یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے تعاون سے 17,18,19اپریل کو تین روزہ بین الاقوامی میڈیکل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اور وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی ہونگے ۔ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور نے انتہائی قلیل مدت میں زبردست ترقی کی ہے اور اس وقت سب سے زیادہ مضبوط فیکلٹی اسی کالج کی ہے کالج کے خلاف کیا جانے والا پراپیگنڈا بے بنیاد ہے جس طرح آرمی کا کوئی بھی جنرل واہگہ بارڈر پر جاکر تنہا کھڑا نہیں ہوتا اسی طرح میڈیکل کالج کے کسی بھی پروفیسر کو مناسب کام کا ماحول فراہم کیے بغیر ان سے کام کی رپورٹ طلب کرنا زیادتی ہے ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور کی تمام فیکلٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود کام کرنا جاری رکھا اور آج ہمارا میڈیکل کالج مضبوط بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے ۔ایم بی بی ایس میڈیکل کالج سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بظاہر تو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنا دیا گیا ہے لیکن اس ہسپتال کی مشینری ،سٹاف سے لیکر تمام چیزیں اپ گریڈ کرنا ضروری ہیں بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور 27اپریل سے شام کی کلاسز کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے تا کہ بچوں میں کسی بھی قسم کی کمی نہ رہ جائے ۔نصابی تعلیم کے علاوہ میڈیکل سٹوڈنٹس کو کلینکل تجربہ فراہم کرنے کے لیے پروفیسرز ،ایسوسی ایٹ پروفیسر ز اور دیگر تمام ڈاکٹرز کا ویژن بالکل صاف ہے اور میرپور میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے تمام سٹوڈنٹس بین الاقوامی معیار کے ڈاکٹر ز تسلیم کیے جائیں گے ۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے آزادکشمیر کے پہلے ٹی وی چینل جے کے نیوز ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام سچ کیا ہے ودھ جنید انصاری میں خصوصی براہ راست گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے کہا کہ ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور کے خلاف کیا جانے والا پراپیگنڈا انتہائی ذہریلا او ر جھوٹا ہے ہماری تمام فیکلٹی اپنی اپنی جاب کے اوپر موجود ہے اور مستقبل میں ہم اس میڈیکل کالج کو ایک سو پچاس سیٹوں تک لے جائیں گے کوئی بھی ڈاکٹر یا عملہ فالتو نہیں رکھا گیا بلکہ ہمیں مزید سٹاف کی ضرورت ہے پی ایم ڈی سی نے پہلے بھی آزادکشمیر کے میڈیکل کالجوں میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی او ر اگر حکومت آزادکشمیر نے کلینکل سہولیات بہتر نہ کیں او ر پی ایم ڈی سی کی سفارشات پر عمل نہ کیا تو میڈیکل کالجز پر دوبارہ بھی پابندی لگ سکتی
ہے ۔

قارئین تعلیمی ادارے سیاست سے بھی پاک ہونا چاہئییں اور ان اداروں میں میرٹ کی بھی مکمل پابندی اور پاسداری ضروری ہے یاد رکھیے وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو اپنے مستقبل کی جڑوں میں خود دیمک کاشت کرتی ہیں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آزادکشمیر کے تمام میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں کشمیری قوم کا مستقبل ہیں خدا را ان اداروں کو ’’ ایمپلائمنٹ ایکسچینج بیورو ‘‘ مت بنائیے اور برادری ازم اور ذاتیات کی بنیاد پر میرٹ کو پامال مت کیجئے ورنہ مستقبل کی خانہ خرابی کے متعلق کوئی بھی پیش گوئی کرنے کی کوئی ضرور ت نہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک ڈاکٹر ایک خاتون کے کوائف لکھ رہے تھے لکھتے لکھتے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے
’’ محترمہ آپ کو چلنے میں تکلیف ہوتی ہے ،دل بھی گھبراتا ہے اور سانس بھی جلدی پھول جاتی ہے آپ کی عمر کتنی ہے ‘‘
خاتون نے جواب دیا
’’ اگلے سال میں تیس برس کی ہو جاؤگی ‘‘
ڈاکٹر صاحب نے آخری نوٹ لکھا
’’ خاتون کا حافظہ بھی کمزور ہے ‘‘
قارئین جس قدر زیادتی ہمارے سیاست دانوں او ر کالے انگریزوں نے قانون کے نام پر قوم کے ساتھ کی ہے اس پر بھی اگر قوم سبق نہ سیکھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے ۔اﷲ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 335126 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More