مودی جی کا دورہ:سیرکردنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

سیاست کی دنیا میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ جیسے لوگ کام زیادہ اور باتیں کم کرتےتھے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ بولتے تو بہت ہیں مگر کرتے بہت کم ہیں جیسے وزیراعظم نریندر مودی ۔ منموہن سنگھ نے خاموشی کے ساتھ ہندوستان کو دفاعی میدان میں خود کفیل بنانے کیلئے ؁۲۰۰۶ میں ایم ایم آر سی اے بنا کر ؁۲۰۱۲ تک بہت کچھ کیا مگرمودی جی نے دس ماہ کے اندراس پر پانی پھیردیا ۔ ان دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ منموہن کیکتھنی اورکرنی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا تھا وہ جعلی دیش بھکتی کا شور شرابہ کئے بغیر اپنا فرض ادا کرتے تھےجبکہ مودی جی جو کہتے ہیں اکثر اس کے بالکل اکثر کام کرتے ہیں ۔ بسیار کلامی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بہت زیادہ بولنے والے سےغلطیاں بھی اتنی ہی زیادہ سرزد ہوتی ہیں اور یہی سب حالیہ دورے کے دوران ہوتا رہا ۔

یوروپ کےاس دورے کی ابتداء ہی بدشگونی سے ہوئی۔ فرانس اور جرمنی کے علاوہ مودی جی یوروپین یونین کے صدر مقام برسلز جانا چاہتے تھے لیکن وہاں سے اس قدر سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا کہ مجبوراً بیلجیم کے بجائے کناڈا کو دورے میں شامل کرناپڑا۔ اس دورے کا اصل مقصد تو فرانس میں جاکررافیل جنگی جہازوں کا سودہ کرنا تھا لیکن اس کے ساتھ جرمنی کی نمائش اور کناڈا کی فرمائش کو زبردستی نتھی کردیا گیا۔ مودی جی نے خوداس حقیقت کا اعتراف اپنے انٹرویو میں اس طرح کیا کہ ہم احمدآبادی ایک ٹکٹ پر دو سفر کرنے کے قائل ہیں یعنی فرانس جاؤ تو واپسی میں جرمنی سے ہوتے ہوئے آو لیکن جرمنی کے بعد تین گنا فاصلہ طے کرکے کناڈا کے ونکوور شہر تک جانے کی حماقت بھلاکون کرسکتا ہے؟ عام احمد آبادی اس لئے کفایت شعار ہوتا ہے کہ اسے سیر سیاحت پر جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن مودیجیکامعاملہمختلفہے۔ وہ چونکہ سرکاری خرچ پر مزے لوٹتے ہیں اس لئےان پر خواجہ میر درد کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
سیرکردنیاکیغافلزندگانیپھرکہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

مودی جی کی جوانی تو کب کی گزر گئی لیکن اقتدار کے ملتے ہی دل جوان ہوگیا ہے ویسے اقتدار بھی جوانی کی مانند ڈھلتا سایہ ہے۔ مودی جی جب وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت بھی اپنے سیر سپاٹے کے ارمان نکال سکتے تھے لیکن گجرات فساد کے سبب امریکہ اور کناڈا نے ان پر پابندی لگادی۔ دیگر مہذب ممالک نے بھی فاصلہ بنا لیا۔ اب صورتحال بدل چکی ہے دنیا بھر کے دروازے کھل گئے ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا لیا جائے۔ان کی مقبولیت میں واقع ہونے والی کمی کا اعتراف انڈیا ٹوڈے کےحالیہ سروے میں ہوچکا ہے اور اظہار دہلی کے انتخابی نتائج نے کردیا ہے ۔

اس دورے کے دوران پانچ مقامات سے ضمنی انتخاب کے نتائج سامنے آئے۔ مہاراشٹرکے باندرہ میں جہاںچند ماہ قبل سینا اور بی جے پی نے مل کرجملہ۶۷ ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اس باراقتدار کے باوجود۵۳ ہزارسے آگے نہ بڑھ سکی جبکہ دونوں کانگریس کا مشترکہ امیدوار ۲۲ ہزار سے ۳۳ ہزار پرپہنچ گیا ۔ چرکھاری اترپردیش کی نشست پر جو اوما بھارتی کے حلقۂ انتخاب میں ہے بی جے پی ۳۶ ہزار ووٹ کے فرق سے ہار گئی۔ بی جے پی کے حلیف دو مقامات پر کامیاب رہے لیکن خود اسے ایک سیٹ بھی نہیں ملی۔ اس لئے مودی جی کوچل چلاؤ سے قبل ساری دنیا کی سیر کر لینے کی جلدیہے۔ان کیحالتبھی اس شعر کے مصداق ہے کہ ؎
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

پیرس میں جو کچھ ہوا اس کی سنگینی پر ذرائع ابلاغ فی الحال خاموش ہے اس لئے کہ دورے کو رنگین بنانے کیلئے جودولت کی شراب پلائی گئی ہے اس کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ جب خمار اترے گا تو حقائق سامنے آئیں گےلیکن اس موقع پر مودی جی کے نئے بھکت اوربی جے پی کی قومی انتظامیہ کے رکن سبرامنیم سوامی کے بیان کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سوامی نے دھمکی دی کہ حکومت اگر رفالے کا معاہدہ کرتی ہے تووہ قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ ان کے مطابق لیبیا اور مصر میں رفالے کی کارکردگی دیگرجنگی جہازوں سے خراب رہی ہے اسی لئے کئی ممالک نے اپنے آرڈر منسوخ کردئیے۔ اس جہاز کو بنانے والی کمپنی ڈیسالٹ دیوالیہ ہونے کے درپے ہے اس لئے اس کے ضروری کل پرزوں کی فراہمی بھی مشکل ہے۔ ایسے میں یہ معاہدہ صرف حکومتِ فرانس کی دلجوئی کیلئے کیا جارہا ہے۔ سوامی کے خیال میں اگر فرانس کا تعاون کرنا لازمی ہے تو بہتر ہےڈیسالٹ کو خرید لیا جائے۔

ڈیسالٹ کے ساتھ کئے جانے والے اس نئے سودے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو اس کے ذریعہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کیلئے ماضی میں کی گئی ساری کوشش پر پانی پھر گیا اور دوسرے کھلے ٹینڈر کے نتیجے میں جو شفافیت اور مسابقت تھی اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اب یہ حکومت سے حکومت کا معاملہ ہے اس لئےاس پر رازداری کا پردہ پڑ جائیگا۔ ؁۲۰۰۶ میں منموہن سنگھ نے ہندوستان کے اندر دفاعی پیدوارا کو فروغ دینے کیلئے ایم ایم آر سی اےکے تحت ٹینڈر میں حصہ لینے والی غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی تکنیک دینے کا پابندکیا تھا۔ پہلی کھیپ کے بعد بقیہ جہاز اور کل پرزے ہندوستان میں بننے تھے۔ پہلے توکوئی تیار نہیں تھا۔چھے سال کی طول طویل جدوجہد کے بعد ؁۲۰۱۲ میں ڈیسالٹ اس پر راضی ہوئی ۔ اس سودے کی تمام تفصیلات ذرائع ابلاغ میں موجود ہے ۔

فروری ؁۲۰۰۶ میں اس کام کی ابتداء ہوئی مئی ؁۲۰۰۸ میں فرانس حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ ڈیسالٹ مکمل تکنیک ہندوستان کے حوالے کرےگا ؁۲۰۰۹ میں ڈیسالٹ نے آنا کانی کی تو اس کو برخواست کرنے کی نوبت آگئی ۔ اس کے بعد اس نے ٹاٹا اور امبانی سے کل پرزوں اور دیکھ ریکھ کی سودیشی کمپنی بنانے میں تعاون کا وعدہ کیا۔ ؁۲۰۱۲ میں سب سے کم دام کی بنیاد پر ڈیسالٹ سے سودہ طے ہو گیا۔ اگست ؁۲۰۱۴ میں ارون جیٹلی نے وزیر دفاع کی حیثیت سے ایوان پارلیمان کو یقین دلایا کہ ڈیسالٹ ۱۸ جہاز بہت جلد فراہم کرے گی اور باقی ۱۰۸ اپنےلائسنس والی کمپنیوں سے( ہندوستان کے اندر) بنوا کرآئندہ سات سالوں مہیا کرے گی۔ دسمبر ؁۲۰۱۴ میں فرانس کے وزیر دفاع لی دریان نے ہندوستان کے نئے وزیر دفاع منوہر پاریکر سے ملاقات کی اور امید ظاہر کی کہ ڈیسالٹ سودے کی مشکلات تیز رفتاری سے دور کی جائیں گی ۔ اس بیچ ائیر بس نے اس کمپنی سے سرمایہ نکالنا شروع کیا اور حکومت فرانس کو اسے سنبھالنے کیلئے آگے آناپڑا۔ جنوری ؁۲۰۱۵ میں حکومت ہند نے ڈیسالٹ کوتنبیہ کی اور اپریل میں اس طرح کا معاہدہ کرلیا اس طرح ایم ایم آر سی اے کے تحت ہندوستان میں جہاز بنانے کا خواب کافور ہوگیا۔

اس فیصلے سے ’میک ان انڈیا‘ کے نام عوام کو بے وقوف بنانے کا جو کھیل رچایا جارہا تھا اس کو شدید جھٹکا لگا لیکن اس پر پردہ ڈالنے کیلئے مودی جی نےجرمنی کےہنوور شہر کی صنعتی نمائش میں ’میک ان انڈیا‘ کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ اگر یہ جہاز ہندوستان میں بنتے تو غیر ملکیوں کو ہندوستان میں آکر سرمایہ کاری کرنے کیلئے منت سماجت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ ہنوور کی یہ صنعتی نمائش ہر سال لگتی ہے جس میں دنیا کے کئی ممالک اپنا پیویلین لگاتے ہیں لیکن شاذو نادر ہی کسی ملک کاسربراہ اس میں شرکت کرتا ہے۔ ہندوستان نے بھی اس بار اپنا پیویلین لگایا اور مودی جی اسی موقع پر وہاں بہنچ گئے اس لئے انجیلا مرکل انہیں اپنے ساتھ افتتاح کی تقریب میں لے گئیں۔ اس کے بعد یوں خبر بنائی گئی گویا مودی جی کو اس کا افتتاح کرنے کی دعوت دی گئی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ فرانس کی غلطی پر پردہ پڑ گیا۔
اس دور ے میں پہلی مرتبہ مودی جی نے غیر ملکی سرزمین پر قومی سیاست کی بخیہ ادھیڑی جس کے سبب کا نگریس کو کہنا پڑا کہ کیا مودی اگلا انتخاب پیرس سے لڑنے والے ہیں؟جس مودی سرکار نے گرین پیس نامی تنظیم کی پریا پلییّ کو دہلی ائیرپورٹ پر یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ اگر وہ برطانیہ میں ہندوستانی کان کنی صنعت پر تنقید کردیں گی توقوم کی بدنامی ہوگی اسی کے وزیر اعظم نے بار بار اس جرم کا ارتکاب کیا۔ فرانس میں مودی جی نے کہا کہ سابقہ حکومت نےکوئلہ کانوں کے ٹھیکے اس طرح تقسیم کئےجیسے رومال یا قلم تحفہ میں دیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے کہ پانے والا اس کا مستحق ہے یا نہیں۔ اپنی شیخی بگھارتے ہوئے مودی جی نے کہا ہم نے ان سودوں کو منسوخ کیا( حالانکہ وہ کام عدالت نے کیا)جس میں سابق وزیر اعظم کانام بھی ہے۔ مودی جی اپنی تقریر میں اس قدر جوش میں آگئے کہ کہنے لگے ہم نے صرف دس فیصد کام کیا ہے اگر پوری میعاد یہ کرتے رہے تولوگ کہیں گے ۲۵ سال آپ ہی حکومت کریں۔مودی جی کی خوش فہمیاں اپنی جگہ لیکن لوگ کیا کرنے والے ہیں اس کا اشارہ انہوں نے دہلی کے انتخاب دےدیا ہے۔ ممکن ہےچار سال بعد ان کی حالت زار کی ترجمانی یہ شعر کرے کہ؎
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے

برلن میں مودی جی نے جو مضحکہ خیز تقریر کی اسے سن کر جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل یقینا ًہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئی ہوں گی ۔ انہوں نے کہا گزشتہ مرتبہ جب میں برلن آیا تھا تو جرمنی نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔ اس طرح انہوں نے خود یاددلا دیا انجیلا ان سے ملنے کے بجائے برازیل چلی گئی تھیں ۔ مودی جی شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان مبارک قدموں کی بدولت جرمنی ورلڈ چمین بنا یہ اسی طرح کا دعویٰ ہے جو انہوں نے دہلی میں کیا تھا کہ لوگ کہتے ہیں تم اتنے خوش قسمت ہو کہ تمہاری وجہ سے تیل کا بھاؤ گرگیا لیکن اب لوگ مودی جی سے نہیں کہتے کہ تم ایسے بدقسمت ہو کہ تمہارے سبب کسانوں کی فصل تباہ ہو گئی ۔
برلن کے اجتماع میں شرکت کیلئے سبھاش چندر بوس کے پوتے کو ہیمبرگ سے بلایا گیاتاکہ پنڈت نہرو پر کی یہ الزام لگا کر کردار کشی کی جاسکے کہ انہوںسبھاش چندر بوس کے اہل خانہ کی جاسوسی کی تھی۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی آئی کہ اندرا گاندھی نے خفیہ فائلوں کو نذرِ آتش کیا۔ ملک سے باہراس طرح کی اوچھی سیاست ماضی میں کسی ہندوستانی سیاستداں نے نہیں کھیلی ۔ ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا میں جرمن صنعتکاروں کو اپنے ملک کے اندر سرمایہ کاری کی دعوت دینے کیلئے آیا ہوں اور وہ لوگ ہرسال کم ازکم پانچ سیاح ہندوستان بھیجیں تاکہ سیاحت کی صنعت کو فروغ ملے۔ کیا یہ باتیں کسی ایسے ملک کے وزیراعظم کو زیب دیتی ہیںجو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا دعویدار ہو۔

مودی جی نے جرمنی میں یہ بھی کہا کہ جرمن ریڈیو سے ؁۱۹۵۰ کے اندر سنسکرت میں خبریں نشر ہوتی تھیں جبکہ ہمارے ملک میں یہ سیکولرزم کے منافی ہے۔ مودی یا تو تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا اوروں کو احمق سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں ؁۱۹۵۶ کے اندرسنسکرت کمیشن پنڈت نہرو نے قائم کیا اور ؁۱۹۷۴ میں اندرا جی نے سنسکرت خبروں کا بلٹین شروع کیا جبکہ دستور میں سیکولرزم کی شق اس کے بعد میں ڈالی گئی اس کے باوجود سنسکرت بلٹین جاری رہا۔ اب اگر جرمنی کے لوگ مودی جی سے پوچھیں ہم نے سنسکرت کو اس زمانے میں زندہ رکھا جبکہ اس کو کوئی پوچھتا نہیں تھا لیکن تمہاری حکومت کے اقتدار میں آتے ہی کیندریہ ودیالیہ سے تعلیمی سال کے وسط میں بزور قوت جرمن زبان کو ہٹا کر سنسکرت مسلط کردی گئی۔ کیا یہ احسان فراموشی نہیں ہے؟

مودی جی میں اگر ذرہ برابر دوراندیشی ہوتی تووہ مسئلہ کوچھیڑ کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی نہ مارتے۔ مودی جی سے اگر کوئی پوچھے کہ سنسکرت کی بقاء و ترویج کیلئے ان کی سرکار اور سنگھ پریوار نے کیا کیا؟ تو وہ کیا جواب دیں گے۔سنسکرت ایک قدیم زبان ہے اور اس کا علمی وادبی سرمایہ بہت وسیع ہے۔ مودی جی اس زبان کو دوبارہ زندہ تو نہیں کرسکتے لیکن اگر وہ سنسکرت کے ادبی سرمایہ کا ترجمہ ہی کروادیں تو یہ ملک و قوم کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی لیکن چونکہ اس طرح کے سنجیدہ کام کرنے سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوتا اس لئےمودی جی سے تو کم ازکم اس کی توقع کرنا فضول ہے ۔

سیاسی اعتبار سے کناڈا ہندوستان کیلئے ایک غیر اہم ملک ہے ۴۲ سال قبل اندراگاندھی نے وہاں کادورہ کیا تھا اس کے بعد کسی وزیراعظم نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کناڈا میں ۱۲ لاکھ ہندی نژاد لوگ بستے ہیں اور ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اسی لئے وزیراعظم ہارپر کے لئے مودی جی کے دورے کی سیاسی اہمیت ہے۔ ہندوستان کے مقابلے چین کے ساتھ کناڈا کے قریبی تعلقات ہیں جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ؁۲۰۱۴ میں چین اور کناڈا کی درآمد وبرآمد ۷۸ بلین تھی جبکہ ہندوستان کے ساتھ صرف ۶ بلین کا کاروبار ہوا۔ ایک سروے میں جب کینڈین لوگوں سے پوچھا گیا کہ آپ ہندوستان اور چین کے درمیان تجارت کیلئے کس کو ترجیح دیں گے تو ۵۸ فیصد نے چین کے حق میں رائے دی۔
مودی جی نے گزشتہ سال امریکہ کا دورہ کرکے اپنی شہرت بڑھانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا اس کے باوجود پڑوسی کناڈا میں صرف ۲۲ فیصد لوگ مودی جی کی تصویر کو پہچان سکے اب اس میں کتنا فیصد تکاّتھا کون جانے؟ کسی زمانے میں کناڈا ہندوستان کو یورینیم فراہم کرتا تھا لیکن ؁۱۹۷۰ کے جوہری دھماکوں کے بعد اس نے پابندی لگا دی ۔مودی جی کی کو شش ہے کہ یورینیم کی فراہمی پھر سے شروع ہوجائے ۔ اس سروے میں جب لوگوں سے دریافت کیا گیا کہ ہندوستان کے تعلق سے آپ کے ذہن میں سب سے پہلے کیا خیال آتا ہے تو نہایت دلچسپ جوابات سامنے آئے۔۶۸ فیصد لوگوں نے کہا وہ کثیر آبادی والا ملک ہے ۔ ۴۶ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خواتین کیلئے غیر محفوظ خطہ ہے ۔ ہندوستان کو عظیم جمہوریت سمجھنے والے صرف ۱۲ فیصد اور معاشی پاورہاوس خیال کرنے والوں کی تعداد ۷ فیصد نکلی۔ اس سروے سےعالمی سطح پر میک ان انڈیا والے کاغذی شیر کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ کناڈا کی راجدھانی اوٹاوہ میں گجرات کے فسادات کو لے کر ۲۰۰ مظاہرین نے احتجاج بھی کیا۔

مودی جی چاہے ساری دنیا میں اپنا شیر دکھاتے پھریں لیکن ان کے دل میں جوعدم تحفظ کا احساس ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نو دن کے دورے پر جاتے ہوئے بھی انہوں نے کسی کو اپنا قائم مقام بنانے کی جرأت نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ان کے اندیشوں میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے کہ پہلے تو وہ راجناتھ سنگھ کو اپنا قائم مقام بنا کر جایا کرتے تھے لیکن اب شاید انہیں لگتا ہو کہ کہیں راجناتھ واپسی پر اپنی جگہ خالی کرنے سے انکار نہ کردیں۔ اس بار مودی جی کی غیر موجودگی میں پے درپےنکسلی حملوں کے بعد پارلیمانی بورڈ کی ایک ہنگامی نشست راجناتھ کے گھر پر ہوئی تو یہ موضوع زیر بحث آگیا ۔

یہ پوچھے جانے پرکہ کیاراجناتھ سنگھ قائم مقام ہیں تو جواب ملا نہیں۔ جب پوچھا گیا اس نشست کی صدارت کس نے کی تو جواب تھا یہ غیر رسمی ملاقات تھی اس لئے کسی نے صدارت نہیں کی ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو وزیراعظم اپنے ساتھیوں پر اعتماد نہیں کرتا اس پر قوم کیسے اعتماد کرے؟ بقول دگ وجئے سنگھ یہ عجیب حکومت ہے کہ جب اس کا وزیراعظم ودیشی دورے پر جاتا ہے تو وزیر خارجہ ِودیشا میں یعنی حلقہ انتخاب میں ہوتی ہیں اورجب وہ دفاعی سودے کررہا ہوتا ہے تو وزیر دفاع گوا میں مچھلیاں خرید رہے ہوتے ہیں ۔ خیر وہ دن دور نہیں جب خود وزیراعظم بھی وہی سب کررہے ہوں گے جو فی الحال ان کے وزراء کررہے ہیں اس لئے کہ؎
نقش سارے نقش باطل کی طرح مٹ جائیں گے
صفحۂ ہستی پہ اک نقش فنا رہ جائےگا
جادۂ ہستی میں یہ شورو شغب کچھ دیر ہے
ہو کا عالم ہوگا،سونا راستہ رہ جائے گا
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.