(افسانہ .....کٹی پتنگ( دوسری قسط

اس کے آرام میں کوئ خلل نہ ہو اس لیئے وہ دونوں لائٹ آف کرکے کمرے سے باہر چلے گئے اور یہی نہیں ثمینہ سیماب کو روم اندر سے لاک کرنے کی بھی ہدایت کر گئیں.تاکہ مہمانوں میں سے بھی کوئ اسے ڈسٹرب نہ کرے. پر اسکی آنکھوں میں نیند کہاں تھی.آرام تو جیسے کوسوں دور تھا.ذہن الجھا ہوا اور پریشان،بے آواز بہتے آنسوؤں نے اسکے بے داغ چہرے پر جیسے بہتے کاجل کی ان گنت لکیریں کھینچ دیں تھیں.اس نے بستر سے اٹھ کر آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی.یکلخت ہی جیسے اسے اپنے چہرے سے نفرت محسوس ہونے لگی.شدید بے بسی کے عالم میں اس نے پاس پڑا اسٹون کا بنا خوبصورت سا شو پیس شیشے پر دے مارا.

شیشہ پوری طرح تو ٹوٹا نہیں پر اب اس میں چٹک کے بڑے واضح نشان نظر آرہے تھے.آئینہ اب بھی سیماب کا چہرہ دکھا رہا تھا پر ان گنت ٹکڑوں میں بٹا ہوا.وہ جھنجلا کرواپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئ.گانوں کے شور میں شاید کسی نے کسی نے کسی نے کانچ کے ٹوٹنے کی آواز پر دھیان نہیں دیا.

اب وہ بار بار کبھی اپنی پیشانی مسلتی تو کبھی ہتھیلیاں.....اوہ!میرے خدا میں کہوں بھی تو کس سے کبھی ذہن میں ماں باپ کا خیال آتا کہ سچ جاننے کے بعد انکا ردعمل کیا ہوگا؟؟؟؟ کبھی اسے فیصل کی لاش چھت سے جھولتی نظر آتی. یہ سب جان کر کہیں بابا.......... نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی کبھی ماں کا آنسوؤں سے تر ندامت بھرا چہرہ تنگ کرتا تو کبھی لوگوں کی باتوں کا خوف ستاتا.پھر جیسے اسکے دماغ میں کوئ خیال برق کی مانند کوندا.........وہ تیزی سے اٹھی اور اپنی الماری میں کچھ تلاش کرنے لگی.جلد ہی اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئ.

یہ زہریلی دوا تھی.پر جیسے ہی وہ تیزی سے اسکا ڈھکن کھول کر پینے کی کوشش کرنے لگی.اسکے ہاتھ کانپنے لگے اور بوتل اسکے ہاتھوں سے گر گئ.اب ہاتھ کیا اسکا پورا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا.وہ بے دم ہوکر وہیں فرش پر ڈھیر ہوگئ.اب کیا موت بھی میرے نصیب میں نہیں. کیا کروں ....کچھ سمجھ نہیں آرہا.جانے کتنے دن، مہینوں یا شاید سالوں سے وہ اپنے آپ سے ایسے ہی لڑ رہی تھی پر اب جیسے حد ہی ہو گئ تھی.اس نے خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی.خودکشی ہی ہر مسئلے کا حل نہیں......

تمہیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اسکا حل سوچنا ہوگا.جیسے اسکے اندر سے کوئ آواز آئ .....وہ ہمت کرکے اٹھی اور وضو کرکے واپس روم میں آئ اور نماز کی نیت کرنے لگی.....عبادت نے اسکے بے چین دل کو جیسے قرار دے دیا...اس نے سارا غبار اپنے سجدے میں نکال دیا ...نماز ختم کرکے جب اس نے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو جیسے اسکے لب ہی سل گئے شاید الفاظ باقی ہی نہیں بچے تھے اسکے پاس..... پر کہتے ہیں میرا مالک بڑا غفور و رحیم ہے اس سے کچھ نہین چھپا اور نہ ہی چھپایا جاسکتا ہے وہ دلوں کی زبان بھی خوب سنتا ہے...اور اب جیسے اس نے سارا معاملہ اپنے رب کو ہی سونپ دیا ہو. وہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کررہی تھی.

ایسا آخر کیا تھا؟؟جو اسے پریشان کررہا تھا.وہ بھی ایسے وقت جب لڑکیاں اپنی آئندہ زندگی کے سپنے بننے میں مصروف ہوتیں ہیں؟؟؟؟

آخر ایسی کونسی کمی تھی اسکی زندگی میں.فیصل صاحب کے پاس نہ پیسے کی کمی تھی نہ ہی عزت کی شہر کے متمول اور عزت دار گھرانوں میں انکے گھر کا شمار ہوتا تھا.سیماب کے لیئے بھی انہوں نے کبھی کوئ کمی نہیں ہونے دی اسکے بولنے سے پہلے ہر چیز اسکے پاس لادیتے. اسکی تعلیم وتر بیت میں اس پر توجہ مین کبھی بھی تو کوئ کمی نہیں کی. ویسے بھی وہ انکی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی تو کمی کرتے بھی کیوں؟ ؟؟ کوئ روک ٹوک نہیں اور تو اور اسکی دوستوں کو بھی گھر میں اتنی ہی عزت دی جاتی پھر کیا؟ ؟؟ آپکا ذہن بھی الجھ رہا ہوگا ہے نا
پر کچھ تو تھا ایسا جس نے اسے انتہائ قدم اٹھانے پرمجبور کردیا تھا......
شاید یہ جاننے کے لیئے ہمیں اسکے گذرے وقت میں جھانکنا ہوگا......

شام ہونے لگی تھی پرندے بھی اپنے گھونسلوں کی طرف واپسی کے لیئے پروان بھر رہے تھے.باہر ہر طرف جیسے سناٹا سا چھا گیا تھا سوسائٹی کے بنے خوبصورت بنگلوز کی قطاریں ایسے لگ رہین تھیں جیسے وہ صدیوں سے ویران پڑے ہوں.وہ بہت اداس سا چہرہ لیئے ریلنگ پر سر ٹکائے
نہ جانے کیا سوچنے میں مصروف تھی کہ اسی وقت ثمینہ بیگم کی آمد ہوئ..کیا بات ہے میری گڑیا کیا سوچ رہی ہے؟؟
کچھ نہیں ماما! بس ایسے ہی ...سیماب نے سر جھٹک کر جواب دیا...
اوکے بیٹا پر یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے پتہ ہے نا آج کچھ خاص مہمان آرہے ہیں؟؟؟
چلو جلدی سے منہ ھاتھ دھو کر اپنی حالت سدھارو اور ذرا اچھے سے ریڈی ہونا...ثمینہ بولیں...
ماما مجھے نہیں ....آپ ضد نہ کریں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں...اس کا لہجہ قدرے الجھا ہوا تھا...
ایسا نہین کہتے بیٹا! وہ مہمان اپکے بابا کے ہیں اور خاص آپکو دیکھنے کے لیئے آرہے ہیں اور اسطرح کرین گیں تو انھیں بہت دکھ پہنچےگا...انھون نے بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی...
اوکے ماما اس نگ بے دلی سے اپنے کاندھے اچکائے بابا کو دکھ پہنچانے کا اسکا ارادہ نہین تھا ویسے بھی اسکے خیال مین وہ ورلڈ بیسٹ بابا تھے
گاڑی کے ہارن کی آواز پر انہوں نے جیسے نیچے جھانکا دیکھو وہ لوگ آگئے..میں جلدی سے سب تیاریان دیکھتی ہوں
تم تیار ہوجانا جلدی بیٹا جاتے جاتے بھی وہ اسے الرٹ کرتی ہوئ گئیں.
تھوڑی دیر کے لیئے اس نے بھی نیچے آنے والوں پر نظر کرنے کی کوشش کی....
پر یہ کیا گاڑی سے باہر قدم رکھتے ہوئے روحیل کی جیسے نظریں پل بھر کے لیئے وہیں ٹک گئیں...
سروقامت،خوبصورت چہرے اور کسے بدن کے مالک روحیل نے جب اس بڑی بڑی گہری جھیل سی آنکھوں والی اس بے پرواہ سی لڑکی کو دیکھا تو گھنی مونچھوں تلے اسکے لبوں پر دھیمی سی مسکان نے اپنا ڈیرا جما لیا.... ہممممم بات ہے ملنا پڑے گا...
اس نے جیسے ابھی سے سیماب کے ساتھ اپنے پلان بنانا شروع کردیئے تھے...
یک دم ہی پیچھے سے آتی ہوئ آواز جیسے اسے واپس ہوش کی دنیا میں لے آئ ...موصوف کیا صبح تک یہین کھڑے رہنے کا ارادہ ہے راستہ دیں گے گاڑی سے نیچے اترنے کا اندر بھی تشریف لے جانا ہے....
باپ کی بات پر روحیل اپنی بغلیں جھانکنے لگے....ہاں کیوں نہیں! آ آ ...آپ اتریں چلین چلتے ہیں....
انکی اس حرکت پر انکے والدین مسکراتے ہوئے معنی خیز نظرون سے انھیں دیکھنے لگے..... سیماب بھی اب اندر جا چکی تھی.....
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87859 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More