الیکٹرانک کرائم بل کی منظوری....انٹرنیٹ کا غلط استعمال رک سکے گا؟

 جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دور حاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے نت نئی شکلیں پیدا کرکے انسانی زندگی کے دائرے کو وسیع تر کر دیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں انٹر نیٹ کی ایجاد بھی ہے، جس سے ایک نئے عہد یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا، جسے اصطلاح میں سائبر میڈیا کہا جاتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں صرف فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سال کے ستمبر تک ایک کروڑ 54 لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی، جس کا مطلب ہے کہ ہر بارہ سیکنڈ بعد ایک نیا صارف فیس بک سے وابستہ ہو رہا ہے، جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آن لائن سرگرمیاں کس تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔ جس تیز رفتاری کے ساتھ پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے، اسی تیزی سے سائبر کرائم کی تعداد اور رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔ جبکہ مختلف موبائل کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تیز ترین تھری جی انٹر نیٹ پیکجز کے بعد سائبر کرائم کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے بعد اسمارٹ فونز کے ذریعے وڈیو بنانا اور اس کو کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپ لوڈ کرنا آسان اور سستا ہوگیا ہے۔ جب کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہولت کو اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صارفین کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کو لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے، حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ و نامناسب تصاویر و ویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی کی وجہ سے ہی ملک میں بے ہودہ اور فحش مواد سرچ کرنے میں کئی بار پاکستان سرفہرست رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ انٹرنیٹ کے غلط اور غیر قانونی استعمال پر کوئی خاص گرفت نہیں ہے، اس لیے مجرمانہ سرگرمیاں آزادی کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ جن میں غیرقانونی طور پر کسی دوسرے کی معلومات تک رسائی، لسانیت و عصبیت کے نام پر ملک اور پاکستانیوں کے خلاف نفرت پھیلانا اور قومی تشخص، ملکی دفاع اور اسلامی اقدار کے خلاف مواد شامل ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر انٹرنیٹ کی دنیا میں اسلام مخالف مواد کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی کافی حد تک وضاحت اس رپورٹ سے ہوجاتی ہے، جس کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر الحادی فکر رکھنے والے درجنوںگروپس ہیں، جن میں سے اکثر کا تعلق ”فیس بک“سے ہے۔ تحقیق کے مطابق باقاعدہ طور پر پاکستانی انٹر نیٹ کی دنیا میں ملحدوں نے 2008ءکے اوائل میں اپنے قدم جمائے اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ عمل بڑھاتے چلے گئے۔ پہلے پہل انہوں نے بلاگ بنائے اور بلاگنگ کے ذریعے شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا اور ان کے بارے میں شکوک پھیلانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کے بعد پاکستانی ملحدین نے بلاگنگ سے ایک قدم آگے بڑھا کر ایک طرف تو متحد ہو کر اسلام مخالف ویب سائٹس لانچ کیں، جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا پر مختلف ناموں سے اکاﺅنٹ کھولے، جن سے اسلام مخالف مواد کی تشہیر کھل کر کی جانے لگی۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پر ایسے بہت سے اکاﺅنٹس اور پیجز ہیں، جن پر نعوذباللہ کھل کر اللہ تعالیٰ، نبی آخر الزمان، قرآن مجید اور اسلام کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ مختلف ممالک میں فیس بک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کسی کو بدنام کرنے یا بلیک میل کرنے پر ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور اس جرم کے مرتکب افراد سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان میں ایسی شکایات کو سردخانے کی نذر کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم میں بے حد اضافہ ہورہا ہے، عوام کی جانب سے جن پر قابو پانے کا پرزور مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2015 کی منظوری دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائبر کرائم روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ مذکورہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز بل 2015، ٹیلی گراف ترمیمی بل 2014 اور گرے ٹریفک میں کمی کا جائزہ لیا گیا، جب کہ کمیٹی نے انسداد الیکٹرانک کرائمز بل 2015 کی منظوری دی ہے۔ انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق حساس اور قومی نوعیت کے ڈیٹا تک رسائی اور اسے چرانے پر 6 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ، ہیکنگ اور کمپیوٹر معلومات تک غیرقانونی رسائی پر 3 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ جب کہ کسی تصویر کو بگاڑ کر انٹرنیٹ پر اس کی تشہیر کو قابل تعزیر جرم قرار دیتے ہوئے7 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔ الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر سے کےے جانے والے مزید جرائم کی روک تھام کے لےے نئی سزاو ¿ں کا تعین کرتے ہوئے نفرت انگیز لٹریچر وتقاریر کی تشہیر پر 5 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ اور غیر قانونی سموں کی فروخت پر 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ حساس آن لائن نظام میں مداخلت پر 7 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ اور سائبر ٹیررازم کا جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید اور 5 کروڑ جرمانے کی سزا کی تجویز بھی بل میں شامل ہے۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔ کچھ لوگوں نے سائبر کرائم کے حوالے سے منظور کیے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ منظور کیے گئے بل کے ذریعے عوام کی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک کی اکثریت نے سائبر کرائم کے حوالے سے منظور کیے گئے بل کی حمایت کی ہے۔

واضح رہے کہ سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے، مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔ عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنے آیا، مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔ ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرانک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ سائبر کرائمز کی شکایت ”نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبرکرائمز“ (این آر تھری سی) کے پاس اس ای میل ایڈریس [email protected] پر تمام دستاویزات کے ساتھ درج کرائی جاسکتی ہے۔ یہ ادارہ 2007 میں اپنے قیام کے بعد سے سائبر کرائمز کے تمام درجوں کی شکایات کو موصول کررہا ہے۔ اب تک این آر تھری سی کو ڈیٹا تک مجرمانہ رسائی، دھمکی آمیز کالز اور الیکٹرانک فراڈ کے حوالے سے تین سب سے بڑی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس ادارے میں ایک شکایت کو درج کرانے کا عمل تحریری یا آن لائن ایک شکایت جمع کرانے سے شروع ہوتا ہے۔ نامکمل اور نامعلوم افراد کی شکایت کو یہ ادارہ زیرغور نہیں لاتا، اس لیے ضروری ہے کہ اپنا کیس درج کراتے وقت مدعی تمام پہلوﺅں کو مکمل کرے، تاکہ اسے ابتدائی سطح پر مسترد نہ کیا جاسکے۔ اگلے مرحلے میں این آر تھری سی کی جانب سے قانونی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، تاکہ جانا جاسکے کہ جمع کرائی گئی درخواست اس حوالے سے نافذ قوانین کی کسی شق پر پورا ترتی ہے یا نہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں فیلڈ آفس کی جانب سے شکایت کی تصدیق کاعمل شروع کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شکایت نافذ قوانین کی شقوں سے میل نہ کھاتی ہو، اس کو مسترد کرنے کے احکامات جاری ہوجاتے ہیں، جبکہ تصدیقی مرحلے کے دوران شکایت کنندہ سے تحریری سمن، ای میل یا ٹیلیفون سمیت مختلف ذرائع کے ساتھ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مرحلے میں شکایت کنندہ سے اس کے پاس معلومات یا اطلاعات کے حوالے سے پوچھا جاتا ہے، تاکہ شکایت کے مستند ہونے کے بارے میں جانچا جاسکے۔ اس مرحلے میں ناکامی کی صورت میں بھی شکایت کی فائل بند ہونے کے احکامات جاری ہوجاتے ہیں، تاہم تصدیقی عمل کامیاب ہوجائے تو پھر تحقیقاتی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں ایک تفتیشی افسر عام طور پر تحقیقات کے عمل کو آگے بڑھاتا ہے اور تصدیق شدہ معلومات کو تفتیشی اصولوں کے پیمانے میں پرکھتا ہے۔ عام طور پر اس مرحلے میں ملزمان کی شناخت اور ان کا محل وقوع تلاش کرلیا جاتا ہے۔ مگر یہ تحقیقاتی مرحلہ بھی متعدد وجوہات کی بنا پر روکا جاسکتا، جیسے شواہد کی عدم دستیابی یا شکایت کنندہ کا اپنی شکایت کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہ رکھنا وغیرہ، تاہم کسی تحقیقات کا کامیاب اختتام ایک ایف آئی آر درج ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ تیکنیکی اور ڈیجیٹل فارنسک رپورٹس تحقیقاتی مرحلے میں عام طور پر اور ایف آئی آر رجسٹر ہونے کے بعد بھی درکار ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر ایک شکایت درج کرانے سے شروع ہونے والا سفر تصدیق، تحقیقات اور ایف آئی آر کی شکل میں مکمل ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق سائبر کرائم پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے بل منظور ہوچکا ہے، لیکن منظور کیے گئے قوانین پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے، کیونکہ اگر قوانین پر عمل نہ ہوا تو مجرم ذہن کے افراد آزادی کے ساتھ انٹرنیٹ پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوکر قوم کے لیے نقصان کا باعث بنتے رہیں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.