کیا آپ ’’ہیموفیلیا ‘‘ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

خون کیا چیز ہے اور انسان کے جسم میں اس کی کیا اہمیت ہے یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں اور جو لوگ نہیں جانتے انہیں اس کی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب صرف اور صرف خون کی کمی کی وجہ سے ان کی اپنی یا پھر ان کے کسی عزیز کی جان خطرے میں ہو اور ایمرجنسی کی صورت میں فوراً اسکا بندوبست کرنا پڑ ے۔ خون کی قدرو قیمت صرف اس بنا ء پر اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ خون اصل میں وہی ہوتا ہے جو قدرتی طور پر انسان کے جسم میں بن چکا ہوتا ہے کیونکہ خون کو مصنوعی طریقے سے نہیں بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور مادہ اس کا متبادل ہوتا ہے۔
 

image


آج کے سائنسی دور میں بہت سے مصنوعی اعضاء جیسے نقلی ٹانگیں ، ہاتھ پاؤں ،دل،گردے،مصنوعی بالوں کے علاوہ اگر کھانے پینے کی اشیاء پر نظر ڈالیں تو پاؤڈر والا دودھ اور بہت سے مصنوعی فلیور وغیرہ ایجاد کر لئے گئے ہیں جن کا استعمال بڑی کامیابی سے جاری بھی ہے لیکن انسان مصنوعی طور پر ایسا خون بنانے سے ابھی تک قاصر ہے جو انسانی جسم کے لئے کارآمد ثابت ہو۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خون اپنی کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اور پھر جب یہ ہی قیمتی خون زرا سی چوٹ وغیرہ لگنے سے یونہی بہنا شروع ہو جائے اور پھر کافی دیر تک بہتا ہی رہے بلکہ ضائع ہوتا رہے تو یہ کتنا تشویشناک امر ہے۔

معمولی سی چوٹ لگنے پر بھی خون کا زیادہ عرصے تک ضیاع ہونا اور قدرتی طور پر بہنے سے نہ رکنا ہی دراصل ’ ہیموفیلیا ‘ کا مرض کہلاتا ہے۔پاکستان میں تو زیادہ تر لوگ اس بیماری کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔

ہیموفیلیا کا عالمی دن ہر سال 17 اپریل کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد لوگوں میں اس ہیموفیلیا جیسی بیماری کے بارے آگاہی پیدا کرنا اور اس مرض کے علاج کے لئے آسانیاں اور سہولیات میں اضافہ کرنا شامل ہوتا ہے تاکہ اس مرض کے شکار افراد کی زندگیوں کو بہتر اور محفوظ بنایا جاسکے۔ ایک مشہور عالمی تنظیم (WFH)ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا اس مقصد کو پورا کرنے میں اپنا ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

ہیموفیلیا ایک امراضِ طاریہ ہے یعنی یہ ایک خاندانی یا موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور یہ کزن میرج کی وجہ سے زیادہ پھیلتی ہے اور اس کی علامات میں جسم پر نشان پڑنا، زخم آنے کی صورت میں خون کا نہ رکنا اور جوڑ کا سوجھ جانا شامل ہیں۔ اس بیماری کے مریض کو اگر جسم کے کسی حصے پر چوٹ لگ جائے اور پھر اس سے خون نکلنے لگے تو وہ خون رکتا نہیں بلکہ کافی دیر تک بہتا ہی رہتا ہے۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات کہ کوئی چیز کاٹتے ہوئے انگلی پر چھری سے کٹ لگ جائے تو خون ایک خاص وقت تک بہتا ہے اور پھر اس پر ایک جِھلی سی بن جاتی ہے جسے انگریزی میں (کلوٹ) کہتے ہیں اور اس کلوٹ کی بدولت ہی خون قدرتی طور پر خود بخود ہی رک جاتا ہے یا پھر جم جاتا ہے لیکن ہیموفیلیا کے مریضوں کے ساتھ ایسا عمل بالکل بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے خون میں (کلوٹ) بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہ کلوٹنگ ہی تو جسم کا خون ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔ چونکہ خون پلازمہ(پروٹین ) ،سرخ خلیات ،سفید خلیات اور پلیٹلیٹس پر مشتمل ہوتا ہے اورکلوٹنگ بنانے میں سب سے اہم کردار پروٹین ادا کرتے ہیں لہذا خون میں موجود یہ پروٹین ،پلیٹلیٹس کے ساتھ مل کر کلوٹنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اس بیماری میں خون جمانے والے ذرات کی کمی ہوتی ہے اور یہ بیماری ہونے کی سب سے اہم وجہ جین میں ہونے والی خرابی ہے جو کہ X کروموسوم میں ہوتی ہے اور اگر کلوٹنگ کرنے والے جین کو نقصان پہنچ جائے تو ہیموفیلیا جیسی خطرناک بیماری جنم لیتی ہے۔ ہیموفیلیا کے شکار زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں یعنی یہ بیماری زیادہ تر مردوں میں ہی پائی جاتی ہے۔ ہیموفیلیا کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ایک ہیموفیلیا A جبکہ دوسری ہیموفیلیا B۔لوگ زیادہ تر ہیموفیلیا Aہی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ہیموفیلیا Bکے مریض کی تعداد بہت ہی کم ہے ۔ یوں کہہ لیں کہ ہیموفیلیا کے مریضوں میں 80%ہیموفیلیا A اور 20% ہیموفیلیا B کا شکار ہوتے ہیں۔
 

image

جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ خون میں کچھ کلوٹنگ فیکٹرز ہوتے ہیں جو خون جمانے کا کام کرتے ہیں جیسے فیکٹر 8 اور فیکٹر 9۔ اب ہیموفیلیا A کا مرض فیکٹر 8 کی کمی اور ہیموفیلیا B کا مرض فیکٹر 9 کی کمی کی وجہ سے لگتا ہے۔اس وقت دنیا میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد 4 لاکھ کے قریب ہے جن میں سے 1لاکھ ساٹھ ہزار کی تشخیص ہو چکی ہے۔

دنیا بھر میں اس بیماری کے 75%فیصد مریض ایسے ہیں جو اپنا علاج باقاعدگی سے یا مناسب انداز سے نہیں کرواتے یا پھر بالکل بھی نہیں کرواتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 20ہزار بچے ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔جن میں 90% ایسے ہیں جو جہالت ،غربت ،اس بیماری بارے آگہی کی کمی اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے قاصر رہتے ہیں۔حکومت پاکستان کی بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ہیموفیلیا جیسے مرض پر بالکل بھی توجہ نہیں رہی جو کہ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے ساتھ سراسر ظلم و نا انصافی ہے۔

میرا حکومت سے سوال یہ ہے کہ کیا ہیموفیلیا سے مرنے والا شخص انسان نہیں ہوتا؟ اگر انسان ہوتا ہے تو پھر ان مریضوں کی دیکھ بھال اس طرح کیوں نہیں کی جاتی کہ جس طرح تھوڑی بہت دوسری بیماریوں والے مریضوں کی ہوتی ہے۔ میر اتو یہ کہنا کہ ہیموفیلیا کی وجہ سے اگر صرف ایک شخص کی بھی جان چلی جاتی ہے تو یہ بھی اتنی ہی افسوسناک اور نقصان دہ بات ہے جیسے کہ کوئی شخص ایڈز، شوگر یا کینسر کی وجہ سے مرجاتا ہے ۔ لیکن صد افسوس کہ حکومت کی طرف سے اس ہیموفیلیا کے اداروں کو صحیح معنوں میں نہ تو کوئی خاص توجہ او ر نہ ہی کوئی مالی تعاون حاصل ہے ۔ وزیر صحت اپنی صحت کے ساتھ ساتھ ان مریضوں کی صحت کا بھی کچھ سوچیں!

پاکستان میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی ایک ویلفیئر سوسائٹی ( PHPWS)اپنے ذاتی وسائل کے ساتھ ہیموفیلیا کے مریضوں کا علاج کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہیموفیلیا کے لئے خصوصی طور پر مالی رقم بھی مختص کرے اور سنجیدگی کے ساتھ اس مرض پر توجہ دے تاکہ ہیموفیلیا کے مریضوں کابھی بہتر طریقے سے علاج ہو سکے اور قیمتی زندگیوں کو محفوظ بنا یا جاسکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

World Haemophilia Day will be observed today (April 17) by the World Federation of Haemophilia (WFH) to raise awareness about haemophilia and other bleeding disorders. It was started in 1989 and is held annually; April 17 was chosen in honour of Frank Schnabel’s birthday. Frank Schnabel established the WFH in 1963.