بات سے بات جو نکلی تو کہاں تک پہنچی

(حیاء غزل کا سفر ہماری ویب تک)
گھبرائیے گا نہیں ہم پھر سے پوری تقریب کا احوال آپکے گوش گذار نہیں کرنے جا رہے.ہمارے خیال میں ہمارے ہم عصر رائٹرز نے اس بارے میں کافی کچھ لکھ دیا ہے ہم تو صرف اپنے وہاں تک پہنچنے کی روداد آپ سے شیئر کرنا چاہ رہے تھے...اصل کی بات کی جائے تو پہلے ہم ایک شاعرہ ہی ہیں جو فی الحال اپنی گمنامی کے دور سے گذر رہیں ہیں..

ذہن و دل سے جو نکلی تو زباں تک پہنچی
بات سے بات جو نکلی تو کہاں تک پہنچی
حیاء غزل

بالکل درست بات سے بات جب نکلتی ہے تو کسے پتہ اسکی اڑان کہاں جا کے ختم ہو .

ختم ہو تی بھی ہے یا نہیں یہ بھی کسے پتہ.خیر چھوڑیئے یہ ایک الگ بحث ہےتو ہم بتا رہے تھے کہ ہماری شناسائ ہماری ویب سے کیوں اور کیسے ممکن ہوئ.

ٹھہریئے گلی سے کچھ آواز آرہی ہے.........ہم نے جیسے ہی دروازہ کھول کے دیکھا تو ایک کباڑیا اپنا ریڑھا گھسیٹتا چلا آرہا تھا....بھائ صاحب ذرا رکیئے گا..ہمارے آواز دینے پر وہ جیسے وہیں تھم گیا پھر دھیرے سے وہ اپنے ٹھیلے سمیت ہمارے دروازے پر چلا آیا.بہن جی کوئ سوکھی روٹی یا پرانا کباڑ یاردی وغیرہ دیکھئے میں سب سے اچھے دام لگاؤں گا.....وغیرہ وغیرہ..نہیں آہاں! نہیں بھائ ہم نے تقریبا ہنستے ہوئے بولا ایسا کچھ نہیں ہاں آپکے پاس کچھ ردی ہے تو اسکا دیدار ضرور کرا ئیے-

اہاہاہاہاہاہا آپ حیرت میں ہوں گے کہ ہم کہیں سٹھیا تو نہیں گئے یا خدانخواستہ کسی ڈاکٹر کی ضرورت تو نہیں پڑ گئ ہمیں...تو اپنی خاطر جمع رکھیئے ایسا بالکل نہیں.ہزار لائبریریاں ،شاپس چھان ماریں جو کلیکشن ان کباڑیوں کے پاس ملے گا وہ شاید ہی کہیں ملے.اب منہ میں انگلیاں دابنے کی کوئ ضرورت نہیں......جی ٹھیک سمجھے ہم کتابی کیڑا ہیں اور اپنی خوراک کے لیئے جیسے ہر طرف ہی منہ مارتے ہیں.اسکے لیئے ہم ان ردی والوں کو بھی نہیں بخشتے.دیکھا جائے بنظر غائر تو کہیں نہ کہیں یہ ہمارے معاشرے کے تعلیمی انحاط کا بھی آئینہ دار ہے.بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی جاتیں ہیں. تعلیمی موضوع پر بڑے بڑے سیمینار منعقد کیئے جاتے ہیں. لمبی لمبی دھواں دھار تقریریں کرکے بیش قیمت میڈل جیتے جاتے ہیں.پر ہوتا کیا ہے ہر سال کامیابیاں حاصل کرنے پر اکثر و بیشتر اسی قیمتی اثاثہ کو ردی کی صورت کباڑیوں کے ............. حوالے کردیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیئے جو کتب آپکے خیال میں آپکے کام کی نہیں رہیں انہیں ان بچوں اور لوگوں تک پہنچادیا جائے جو کسی وجہ سے یا اپنے مالی وسائل کی بناء پر تحصیل علم سے محروم ہیں.شاید ملک میں بر ھتی ہوئ ناخواندگی پر اس سے کسی حد تک قابو پایا جاسکے.مگر افسوس ایسا اصل میں ہوتا نہیں ہے.یقین جانیئے ہم نے بہت سی بیش قیمتی کتب ایسے ہی ردی کے مول خریدیں.شہر کی گلیوں میں ایسے بہت سے سرورق اڑتے دیکھے جنھیں ٹھیلوں پر کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے کاغذی پلیٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں.دیکھیئے ہم پھر سے بھٹک گئے. ایسے ہی تو عنوان بات سے بات نہیں رکھا ہم نے.سو ہم کہہ رہے تھے اپنا احوال. جی ناچیز نے کوئ تین سال پہلے فیس بک سے شاعری لکھنے کا سلسلہ شروع کیا.بڑھتے بڑھتے شعراء کے گروپس اور آن لائن مشاعروں میں شرکت کرنے لگے.یہاں آکر شاعری کے قوائد اور اوزان سے کسی حد تک آشنائی ہوئی.سو تحریر میں بھی بتدریج بہتری آنے لگی.اس ضمن میں ہم کچھ نام ایسے لینا چاہیں گے جنھوں نے ہماری بہت مدد کی.اور کررہے ہیں.ان میں ہمارے بڑے بھائ احمد جو خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں.جواد بھائی، عمیر قریشی، ناظم بخاری،طارق اقبال حاوی جو ایک بہت اچھے شاعر ہیں اور ہماری ویب پر بھی لکھ رہے ہیں،منصور راٹھور،پارس مزاری،جناب اسامہ سرسری جو بلا معاوضہ نئے لکھنے والوں کے لیئے ایک گروپ کے زریعے بحیثیت استاد کے تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں.،اور زین شکیل جو ایک نئے اور ابھرتے ہوئے شاعر ہیں.اور اسکے علاوہ بزم اشعار اور محفل غزل اور نہ جانے ایسے کتنے گروپ ہیں جن سے وقتا فوقتا ہمیں مفید مشوروں سے نوازا جاتا ہے.سو یہ سفر ایسے ہی قائم دائم تھا کہ ایک دن طارق اقبال حاوی نے ہمیں ہماری ویب کا مختصر تعارف اور احوال بیان کیا اور یہی نہیں بلکہ انہوں نے ہمیں ہماری ویب سے رابطہ کرنے میں بھی مدد کی.سو وہ دن اور یہ دن ہم ویب پر جب وقت ملتا ہے کچھ نہ کچھ لکھ کر بھیج دیتے ہیں.اس حوالے سے ہماری ویب قابل تحسین ہے.جس نے نئے لکھنے والوں کی بے حد حوصلہ افزائی کی اور یہی نہیں بلکہ لکھنے کے لیئے ہر طرح کی سہولت مہیا کی.آپ چاہیں کمپیوٹر پر ہوں یا لیپ پر یا آج کل عام سے اسمارٹ موبائل فون پر باآسانی اپنی کوئی بھی تحریر ہماری ویب کی رونق بنا سکتے ہیں.رسائل ہوں یا اخبارات ان تک رسائ اتنی آسان نہیں. تحریریں یا تو ردی کی زینت بن جاتیں ہیں یا پھر اشاعت میں اتنا وقت لے لیتی ہیں کہ آپ کے پاس مزید تحریروں کا ایک ذخیرہ جمع ہو جائے.ہماری ویب پر صرف تحریر بھیجیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کتنی جلدی قابل اشاعت ہوتی ہے.بس ایسے ہی ایک دن ہم معمول کے مطابق لکھنے میں مشغول تھے کہ ہماری ویب کی جانب سے خواجہ مصدق رفیق کی ایک میل موصول ہوئی جناب ہماری ویب کے سپورٹ آفیسر ہیں.اس میل میں ہمیں پہلی ای بک کی تقریب رونمائی میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا گیا.سچ مانیئے کافی دیر تک تو یقین بھی نہیں آیا.گھر والوں نے کہا کہ آج یکم اپریل ہے کہیں آپ کے ساتھ کوئ مذاق تو نہیں کیا گیا.ہاہاہاہاہاہا اس وقت تھوڑی دیرکے لیئے ہم بھی یہی سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ شاید ہوسکتا ہے باور پھر مبادا اسکے وہ میل بھی ہم سے ضائع ہوگئی.جس پر کنٹیکٹ نمبر تھا.خیر ہم نے ہماری ویب کا پیج کھول کر ویاں سے نمبر لیا.اور کال کی اور یہی نہیں ڈھیر ساری میل بھی.اور جبتک پورا اطمینان نہیں ہوگیا ہم چین سے نہیں بیٹھے.چار اپریل کو تقریب میں شرکت کی.گو کہ ٹریفک کے رش اور جابجا سگنل نے ہمیں کافی تنگ کیا پر پھر بھی تقریب میں جب نعت شریف کا آغاز کیا جانے لگا ہم پہنچ گئے. بہت خوبصورت نعت اور پر اثر آواز جسے ہم مدتوں فراموش نہیں کرپائیں. خیر تقریب کا آغاز ہوا.ممتاز اراکین ہماری ویب اور مہمانان گرامی وقتا فوقتا اپنی تقاریر پیش کرتے رہے. جن میں ہماری ویب کا ایک مختصرا جائزہ اور تعارف بھی شامل تھا یہی نہیں بلکہ آئندہ کا لائحہ عمل اور تر جیحات کو بھی موضوع بحث لایا گیا.خصوصا جناب رئیس صمدانی کے اس جملے نے تقریب کے تمام شرکاء کو تبسم پر مجبور کردیا کہ آج جس طرح ہماری ویب کا تعارف دیا گیا آپ سب مدتوں بھلا نہیں پائیں گے. اور پوری محفل کشت وزعفران ہوگئی.بہرحال یہ بذلہ سنجی کا مظاہرہ تھا پر حقیقت یہ تھی کہ یہ واقعی ایک یادگار تقریب تھی.تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء کے گروپ فوٹو بنے. اس وقت ہمیں کافی حیرت کا سامنا ہوا جب ہم سمیت تمام موجود نیو رائٹرز کو بھی فوٹو سیشن کے لیئے بلوایا گیا.پھر لائٹ ریفریشمنٹ سے سب کی خاطر خواہ تواضع کی گئی.ہم نے تقریب کے مہمان خصوصی، ممتاز شاعر اور ادیب جناب سحر انصاری اور معروف کالم جناب رئیس صمدانی سے ملاقات کی.اور انکے آٹو گراف بھی یاد داشت کے طور پر حاصل کئے. شام ہو چلی تھی اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا تھا بہت دور جانا تھا سو عجلت میں شرکاء کا شکریہ ادا کیئے بناء وہاں سے نکل آئے.گھر پہنچ کر اس غلطی کے ازالے کے لیئے شکریہ کی میل کی.کچھ دن بعد ہی تقریب کی تصاویر اور ویڈیو بمعہ پریس ریلیز اور اس پر لکھے گئے تمام آرٹیکلز اور کالمز کی تفصیلات اور لنکس کے ساتھ بذریعہ میل ہمیں مل گئیں.ہم سچ میں ہمیشہ یہ دن یاد رکھیں گے اس دن ہمارے چہرے پر خوشی صاف دیکھی جاسکتی تھی.
شکریہ ہماری ویب
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87886 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More