میڈیا کی آزادی وبال جان بن گئی ۔

ہمارے ملک میں میڈیا کی آزادی اب وبال جان بن گئی میڈیا نے آزادی کے نام پر کئی حدود اس حد تک پار کرلیں کہ یہ میڈیا ایک بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑے جارہا ہے ایسی شتر بے مہار آزادی کا کیا فائدہ جو ایک معاشرے کا سکھ چین برباد کردے لوگ کہتے ہیں کہ محترم پرویز مشرف صاحب نے بہت سی غلطیاں کی جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے شائید میں ایک کم عقل انسان ہوں مجھے ان کی بہت سی غلطیاں نظر نہیں آتیں لیکن ان کی دو غلطیوں کو میں شائید کبھی فراموش نہ کرسکوں جس نے ملک کو اس سے کہیں زیادہ تباہ کردیا جتنا مشرف صاحب نے بہتر کیا تھا ایک بڑی غلطی این آر او کی وہ گنگا بہائی جس میں سب نے ہی ہاتھ دھولیئے اور پھر سے ہمیں چوسنا شروع کردیا اور دوسرا میڈیا کی اس حد تک آزادی دینا کہ وہ جو جی چاہے کرے۔

آج کل میڈیا کا حال دیکھ کر نہ صرف دکھ ہوتا ہے بلکہ ندامت محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا میڈیا کس سمت جارہا ہے کہیں ریٹنگ کی جنگ ہے تو کہیں بریکنگ کی دوڑ تمام صحافتی اصولوں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں ۔ ٹاک شوز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کسی دنگل پر کمنٹری نشر ہورہی ہو ، براہ راست وہ چیزیں دیکھائی جاتی ہیں جن کو دیکھانے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ایک وقت تھا جب صرف پی ٹی وی ہوتا تھا تو کرکٹ ، ہاکی،بوکسنگ، فٹبال میچوں یا یوم آزادی پر منعقد پریڈ یا پھر سربراہ مملکت جب قوم سے خطاب کرتے تھے تو اس پر براہ راست لکھا آتا تھا اب ہر خبر ہر بریکنگ براہ راست دیکھایا جاتا ہے انڈیا کے یوم آزادی پر پریڈ کے دوران گراونڈ میں کتا گھس گیا تو اسے بار بار براہ راست دیکھایا جاتا ہے کوئی اداکارہ اونچی ہیل کی وجہ سے گرگئیں تو بریکنگ نیوز بن گئی کسی سیاستدان کو عدالت میں پیش ہونا ہے تو براہ راست بریکنگ بن جاتی ہے اس پر ٹاک شوز شروع ہوگئے خدارا اس قوم پر رحم کریں کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں ملک میں اور بہت سے مسائل ہیں آپ کے اس رویے نے لوگوں کو زہنی مریض بنادیا ہے لوگ دن بھر کے تھکے ہارے جب گھر کو لوٹتے ہیں تو ان کا دل کرتا ہے کہ انھیں کچھ تفریح میسر ہو نہ کہ سنسنی خیز خبریں دل ہلادینے والے واقعات فضول کے ٹاک شوز مارننگ شوز ان تمام چیزوں نے ہمارے معاشرے کے بچوں کی معصومیت چھین لی ان کے لہجے بدل دئیے آپ کے ان پروگراموں نے انھیں زبردستی سیاست میں دھکیل دیا کم عمری میں ان کی وہ خواہشیں جنم لینے لگیں جن کو جان کر آپ کی روح کانپ اٹھتی ہے شہر میں بہت سی ادبی ، ثقافتی ، تعلیمی تقریبات ہوتی ہیں انھیں کوئی میڈیا دیکھانا بھی پسند نہیں کرتا انھیں اہمیت ہی نہیں دی جاتی کیونکہ ان میں سنسنی خیزی نہیں پائی جاتی ان پروگراموں میں وہ زبان وہ جملے استمال کیئے جاتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے مادری زبان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہمارے بچے اب وہ زبان بولتے نظر آتے ہیں جن کا ہم سے ایک رتی تعلق نہیں آج کل ایک اشتہار کئی چینل پر چلتا ہے جو ایک کولڈ ڈرنک کا ہے اس میں کہا جاتا ہے پیئیں اور گرمی کی " واٹ" لگائیں ، ایک مارننگ شو میں بولا جاتا ہے کہ آپ بہت " سندر " لگ رہی ہیں یہ تو میں صرف دو ہی جملوں کو یہاں بیان کرہا ہوں ہزارہا ایسے جملے ان پروگراموں میں بولے جاتے ہیں جن کا ہمارے ملک میں بولے جانی والی کسی بھی زبان سے تعلق ہی نہیں بات یہیں ختم نہیں ہوتی ایک ٹی وی کی مارننگ شو کی میزبان نے تو حد ہی کردی وہ پروگرام شروع کرتے ہوئے کہہ گئیں " رام رام " ابھی کچھ عرصے پہلے ایک ٹی وی چینل نے خبر چلائی کہ کتے کو گوشت مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے بعد میں علم ہوا کہ کچھ ہیرونچیوں کو اسی چینل نے پیسے دے کر کتے کا گوشت بنانے کا کہا تاکہ فلم بنا کر چلایا جائے ۔
کبھی جنات کو قابو کرتے ہوئے دیکھایا جاتا ہے کبھی کسی پر سے جن اتارتے ہوئے دیکھایا جاتا ہے ایک طرف ایسے ڈھونگیوں کو یہی چینلز فراڈ بتا کر بے نقاب کرتا ہے تو پھر انھیں ہی بہت پہنچا ہوا بابا بتا کر اپنے مارننگ شوز میں بلایا جاتا ہے ان مارننگ شوز میں وہ لوگ لوگوں کی قسمت اور آنے والے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں جنھیں خود اپنی قسمت کا معلوم نہیں۔

کچھ دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا تو ایک کالر نے انھیں لائیو کال کرکے کہا کہ خدارا میں کوئی اور انٹرٹینمنٹ دیکھائیں آج چھٹی کا دن ہے میں پندرہ گھنٹے سے دیکھ رہا ہوں ہر چینل صرف صولت مرزا کے بارے میں ہی دیکھا رہا ہے تو ٹاک شو کی میزبان اس کالر کو مشورہ دیتی ہیں کہ اگر ہر چینل یہی دکھارہا ہے اور آپ کو یہ پسند نہیں تو آپ کوئی انڈین چینل لگالیں انھیں یہ مشورہ دیتے شرم نہیں آئی کہ وہ ایک پاکستانی جو صحیح شکوہ کررہا ہے اسے ایک غیر ملکی چینل دیکھنے کا مشورہ دے رہی ہیں ۔

میں یہاں ارباب اختیار سے بھی گزارش کرونگا کہ اس جانب توجہ دیں کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں جب ہر چینل ہر ایک گھنٹے پر خبریں دیتا ہے تو یہ غیر ضرروری شوز سنسنی پھیلانے والی بریکنگ غیر تصدیق شدہ بریکنگ کی کیا ضرورت ہے ٹاک شوز کے نام پر روز تماشہ لگانا لوگوں کے زہنوں کو منتشر کرنا اسکی نفی کرنے کے لیئے کوئی قانوں بنائیں اور اس پر سختی سے عمل کروائیں ۔
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 150085 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More