صہیونی اشیاء کا بائیکاٹ اور قومِ مسلم کی روش

عرب کے قلب میں ’اسرائیل ‘نامی خنجر کے پیوست ہونے کے دن سے آج تک وقتاً فوقتاً اہلِ فلسطین پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے جارہے ہیں۔ہر بار کی جنگ میں اسرائیلی دہشت گردوں کے جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں سے ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہوتے رہے ہیں۔مگر عالمی امن اور بھائی چارہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں اور حقوقِ انسانی کے علم برداروں کو اہلِ فلسطین کا درد نظر نہیں آتا۔ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔اکیسویں صدی کے بھیانک ترین حملے اسرائیلی دہشت گردں نے نہتے فلسطینیوں پر کیے۔ اسکولوں اور اسپتالوں کو نشانہ بناکر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ ظلم و جبر کی انتہا کو یہ مظالم کم تھے کہ اسرائیلی ایوانِ حکومت میں اربابِ سیاست نے مسلم فلسطینی بچوں کو سانپ کے بچے اور ان کی تقدس مآب ماؤں(جنہوں نے شہرِ قدس کی آزادی کے لیے اپنی مانگ سُونی گردی، والدین اور بھائیوں کے جنازے دیکھے؛ حتیٰ کہ اپنی گود میں کھیلنے والے بچوں کو بھی قربان گاہِ غزہ میں بیت المقدس کی آزادی کی خاطر نثار کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ) کے خلاف حیا سوز طنزیہ جملے بَکے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز کہا۔ اس پر طرہ یہ کہ ان داستانِ مظالم کو یہودی نواز میڈیا نے کبھی ایک پل کے لیے بھی سامنے آنے نہیں دیا۔ مگر دنیا بھر میں ان مظالم کی کہانیاں سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہوئیں۔ لیکن دنیا میں موجود ۵۶؍ یا ۵۷؍ ممالک جو اپنے آپ کو ’’مسلم‘‘ بتاتے ہیں اور بعض تو مسلمانوں کے ’’قائد‘‘ بھی بنے پھرتے ہیں۔ ان ممالک کے کانوں پر جُو تک نہیں رینگی۔ ان کی غیرت بھی نہیں جاگی کہ کم از کم مسلم ملک کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسرائیل اور اس کے حامیوں سے سفارتی تعلقات کو منقطع کیا جاتا۔ یا اسرائیل کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت نہیں توکم از کم فلسطین کی حمایت یا اہلِ فلسطین کے لیے حوصلے مند دو جملے ہی ادا کرسکتے ۔ مگر سوائے جامعہ ازہر مصر، طیب اردگان (ترکی) اور رمضان عبدالرؤف (چیچنیا) کے کسی نے یہ جرأت وہمت نہیں کی۔

فلسطین کے حق میں مسلم ممالک کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ نے عالمِ اسلام میں شدید بے چینی پیدا کردی ۔ مسلمانوں نے اپنی اپنی استعداد اور جذبہ کے مطابق اسرائیلی درندگی کے خلاف اور فلسطینی مظلوموں کے حق میں مظاہرے کیے۔ اور مسلم مذہبی شخصیات کی رہنمائی میں اہلِ فلسطین سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے اسرائیلی و امریکی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا۔صرف برصغیر میں بائیکاٹ کی تحریک کا یہ اثر ہوا کہ اسرائیلی معیشت روزانہ کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھانے پر مجبور ہوئی اور بادلِ ناخواستہ انہیں فلسطین پر بم باری روکنی پڑی۔

اگر مسلمان اجتمائی سطح پر اور دائمی طور پر صہیونی اشیاء کے بائیکاٹ پر عمل شروع کردیں تو یقینا فلسطین میں وقفے وقفے سے ہونے والی صہیونی دہشت گردی پر بڑی حد تک روک لگ سکتی ہے۔ اور عالمی سطح پر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرنے کی جسارت شاید ہی کوئی کرے۔ مگر افسوس! ہمارے جذبات وقت اور حالات کے ساتھ سرد پڑ جاتے ہیں؛ طوفان کی آمد پر تحریکات اُٹھتی ہیں مگر طوفان گزرنے کے ساتھ اس کی لہروں کے ساتھ خاموش ہوجاتی ہیں اور مستقبل کے خدشات سے بے پرواہ قومِ مسلم اپنے روز مرہ کے معمولات میں لگ جاتی ہے۔مسلمان رفتہ رفتہ اپنے عہد و عزم کو بھول جاتے ہیں جو انہوں نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے کیے تھے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ آج بھی ارضِ فلسطین سے دھواں اُٹھ رہاہے ۔ غزہ کی سرزمین خونِ مسلم سے اب بھی لالہ زارہورہی ہے۔ بیواؤں، یتیموں اورمظلوموں کے نالے بلند ہورہے ہیں۔ امتِ مسلمہ کے وقار کو پامال کیا جارہا ہے،بیت المقدس پر آج بھی صہیونیوں کا قبضہ ہے۔آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون بناکر شائع کیے جارہے ہیں۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اولیاے کرام کے مزارات پر حملے کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں معاشی و سیاسی اور تعلیمی سطح پر یتیم کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔اور یقینا ہر ذی شعور اس بات پر متفق ہے کہ ان سب کے پیچھے صہیونی سرمایہ اور فکر کی کارفرمائی ہے۔

ہمیں اسلامی ممالک کے سربراہوں سے کوئی امید اور آس نہیں کہ وہ قومِ مسلم کو ان خدشات و خطرات سے کسی طرح بچائیں گے کیو ں کہ انہیں تو اپنی بادشاہت، وزارت و صدارت کی فکر ہے اور اسی کے تحفظ کے لیے وہ آپس ہی میں جنگ و قتال میں مصروف ہیں۔ انہیں اپنی اپنی سرحدوں کی فکر ہے۔ قومِ مسلم کی زبوں حالی اور مظلومی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔اس لیے یہ ہر کلمہ گو مسلمان کی اخلاقی و ایمانی اور ملّی ذمہ داری ہے کہ وہ صہیونی اشیاء کا ہر ممکن بائیکاٹ کرے، بالخصوص گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈے مشروبات کی دکانوں سے کولڈ ڈرنکس خریدتے وقت امریکی و اسرائیلی پروڈکس خریدنے سے پرہیز کریں۔ اگر دکان دار مسلم ہے تو اسے اپنے عہد کی تجدیداور ایمانی فریضہ کا احساس دلوائیں اور اگر غیر مسلم ہے تو اسے Be Indian and Buy Indianکا نعرہ یاد دلائیں۔اس کے علاوہ دیگر چیزیں جو امریکی و اسرائیلی کمپنیوں اور ان کے شراکت داروں کے ذریعے فروخت کی جارہی ہیں ان کے متعلق بھی یہی روش اختیار کرنی چاہیے ۔
٭٭٭
 
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 120139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.