ہمارا نظام تعلیم توجہ کا منتظر

تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ، تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا پیدائش حق ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بد قسمتی سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس بنیادی حق سے ہی محروم ہیں اور کچھ وہ ہیںاور جن کو یہ حق میسر ہے ان کے حساب میں انتہائی ناقص تعلیم ہے۔ ہمارے تعلیم نظام میں یکسانیت نہیں ہے۔پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرہ پہلے ہی غریب اور امیر میں بنٹا ہوا تھا،رہی سہی کسر تعلیمی نظام میں تفریق نے پوری کردی ہے۔

آج ہمارا نظام تعلیم تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ یہ تقسیم گورنمنٹ، سیمی پرائیویٹ اور پرائیویٹ میں کی گئی ہے۔ گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی اکثریت غیر تربیت یافتہ اور نا اہل ہے۔ جن کی بھرتی سفارش اور سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے، اسی لئے سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ دلچسپی اور حاضری نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جو اساتذہ قابل ہوتے ہیں وہ گورنمنٹ کی جاب کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی اکیڈمیزاور انسٹیٹیوٹ کھول لیتے ہیں ۔ اس طرح وہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہیں اور اس کا خمیازہ ہمارا نظام تعلیم بھگتتا ہے۔ وہ پرائیویٹ ادارے جو سیمی پرائیویٹ طرز کے ہوتے ہیں تقریباً ہر گلی اور محلے میں نکڑ پر نظر آتے ہیں۔ وہاں متوسط طبقے کے بچارے والدین سے فیسیں تو لی جاتی ہیں مگر ان کا معیار تعلیم ناقص ہے۔ ان اداروں میں فیسوں کی مد میں طلبہ کو گھسا پٹا کورس پڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کو درسی کتابوں کو رٹوا کر سالانہ امتحان لے کر فیسوں اپنا فرض پورا کردیا جاتا ہے۔ ایسے اداروں کے بچے پورا سال پڑھ کے بھی کچھ خاص نہیں سیکھ پاتے۔ ان اداروں میں ناقص نظام کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ان سب کے باوجود بھی مہنگائی کا پیے میںپستے عوام اپنے بچوں کو ان درس گاہوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

اب بات ان نام نہاد پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جہاں تک رسائی ایک عام شہری کے لئے نا ممکن ہے۔ امریکی اوربرٹش طرز کے اسکولز اور کالجز کا رخ ایلیٹ کلاس کے بچے ہی کر سکتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ ادارے آج کل ہمارے معاشرے میں اسٹیٹس سمبل بن گئے ہیں۔ امراءاپنی کلاس کے دیگر لوگوں پر فوقیت لے جانے کے لئے اپنے بچوں کے داخلے مہنگے سے مہنگے ترین اسکول و کالج میں کرواتے ہیں۔
گورنمنٹ اور سیمی پرائیویٹ کے بر عکس ان تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہے مگر ان مہنگی درسگاہوں میں دنیا ئے تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ان اداروں سے بچے فارغ التعلیم ہو کر زیادہ تر بیرون ملک چلے جاتے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں اپنے مستقبل کے لئے بہتر مواقع ملنا دیکھائی نہیں دے رہا ہوتا اور یوں پاکستان ایک ہو نہار نوجوان سے محروم ہو جاتا ہے۔ انتہا تو یہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تدریسی کتابیں میں جدید طرزکا مواد شامل کرنے میں تاخیر برتی گئی ہے اور جن کلاسز کی کتب میں کہیں مضامین اپڈیٹ کیے گئے ہیں ان مضامین میں متنازع جدت لائی گئی ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تدریسی کتابیں اور کورس کئی سالوں سے اپڈیٹ نہیں ہوا ہے۔ جو کتابوں اور مضامین باپ نے پڑھے وہیں بیٹا بھی پڑھ رہا ہے۔ حتی کہ درسی کتابوں میں موجود غلطیوں کی بھی تصیح نہیں کی جاتی۔

میٹرک اورانٹر بورڈ کے حکومت کے زیر نگرانی ہونے والے امتحانات کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان امتحانات میں تعلیمی نظام کی جو دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اس پر خود لفظ تعلیم بھی نوحہ کنا ہوگا۔ پیپرآﺅٹ ہونے سے لے کر چیکنگ تک بدعنوانی کے ریکارڈ توڑ جاتے ہیں۔ سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری لیول طالب علموں کے مستقبل کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ انہیں مارکس کے ذریعے طالب علم پروفیشنل کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں، مگر ملک کے معماروں کے مستقبل کی فکر کیے بنا عہدیداران اپنے آنکھیں بند کیے پر سکون نیند لینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نوجوان مایوس ہوجاتے ہیں یہ ایک اہم وجہ ہے معاشرے میں پھیلتے عدم برداشت کی۔

تعلیمی نظام کو بہتر بنا کر ہی ہم بے روز گاری، بے امنی اور ملک کو درپیش دیگر مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ جب تک تعلیمی نظام تفریق ختم نہیں ہوگی، رٹا سسٹم ختم نہیں کیا جائے گا، تدریسی کتابوں کو اپڈیٹ نہیں کیا جائے گا، سیمی پرائیویٹ پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جائے گا، سرکاری اداروں کا معیار بہتر نہیں بنایا جائے گا اور او اے لیول اسکولز کے لئے اصول و ضوابط نہیں بنائے جائیں گے تب تک ہمارا نظام اسی طرح دھکا کھا کر چلتا رہے گا اور جس دن خدا نا خواستہ اس نظام تعلیم نے دھکا کھا کے بھی چلنے سے انکار کردیا اس دن ہمارا معاشرا اپنے بچی کچھی ساکھ بھی کھو بیٹھے گا۔ لہذا حکام بالا اور متعلقہ عہدیداران اپنی آنکھیں کھولیں اور اس اہم مسئلے پر توجہ دیں۔
Danyah Imtiaz
About the Author: Danyah Imtiaz Read More Articles by Danyah Imtiaz: 11 Articles with 10508 views I am Medical Student n I writes t00........ View More