پاکستانی ٹیلنٹ

یہ خبر اگرچہ تھوڑی سی پرانی ہے ، لیکن دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے بارہ فروری 2015کو اپنی ویب سائٹ پر پاکستانی محققین کے ایک کام یاب تجربےکے بارے میں خبر شائع کی تھی ۔ میں اس خبر کی چند چیدہ چیدہ باتیں یہاں تحریر کرتا ہوں ۔اس خبر کے مطابق: پاکستانی محققین نے گھریلو کوڑے کرکٹ میں شامل پلاسٹک کو انتہائی جدید طریقے سے ری سائیکل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔پاکستان میں اس طریقہ کار سے متعلق تجربات حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم اور معدنیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحت علی کی زیر نگرانی انجام دیے گئے ہیں۔کراچی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈکٹر رضا شاہ بتاتے ہیں کہ پلاسٹک ری سائکلنگ کا یہ طریقہ نہایت ماحول دوست ہے، "یہ ایک ایسا پراسس ہے جس میں پلاسٹک کا کوڑا فیول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں خاص طور سے کراچی کے جو بڑے مسائل ہیں ان میں سے ایک آلودگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پلاسٹک کا کوڑا ہے جس میں پولیتھن بیگ کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو ماحول میں شامل ہو کر تلف نہیں ہوتے اور مختلف بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔"

پاکستان کے ان ہو نہار محققین نے یہ عمل کس طرح کیا ،اس کے بارے میں ڈاکٹر رضا شاہ کہتے ہیں : اس عمل میں پلاسٹک کو ایک کیٹالسٹ یعنیٰ ایسا مادّہ جو دُوسرے مادّوں میں کیمیائی عمل کو تیز کرتا ہے، اس کی موجودگی میں پلاسٹک کو حرارت دی جاتی ہے۔ اس سے پلاسٹک میں شامل پولیمر کو توڑ کر ہائیڈرو کاربن کے مالیکیولز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، جو فیول کے طور پراستعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہائیڈرو کاربن عام طور پر پیٹرول اور ڈیزل میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے جو طریقہ اختیار کیا اس میں ہم نے کیٹالسٹ تیار کیا وہ عام مٹی تھی جسے ریفائین کیا گیا اور کیٹالسٹر بنایا۔اس کے علاوہ ہم نے ایک سادہ سا آلہ تیار کیا ، جسے حرارت دے کر کیٹالسٹ کو استعمال کرتے ہیں اور پلاسٹک کو ہائڈرو کاربن میں تبدیل کرتے ہیں ۔ یہ ایک سادہ سا پراسس ہے ، جس میں کوئی بہت ہائی ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوتی ۔

معذرت چاہتا ہوں کہ خبر طویل ہو گئی ۔ مگر اس ضمن میں سائنسی پراسس من و عن لکھنا ضروری تھا ۔ بہ صورت دیگر خبر پوری طرح سمجھ نہ آتی ۔بلا شبہ یہ خبر پاکستانی قابلیت اور ٹیلنٹ کو ظاہر کرتی ہے ۔ میری کوشش رہتی ہے کہ اس طرح کی خبروں اور رپورٹوں کی تشہیر کروں ، جس میں پاکستان کے باشندوں کی صلاحیت اور قابلیت کا اظہار ہو ۔اس لیے اس خبر کو جو اگر چہ پرانی تھی ، مگر پاکستان کے سائنسدانوں کی قابلیت اور صلاحیت کا مظہر تھی، مجھے اپنی اس تحریر میں لکھنا پڑا ۔ پاکستان کے لوگوں میں قابلیت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ سائنس کی دنیا میں کچھ ایسے کار نامے بھی ہیں ، جو پاکستانیوں نے سر انجام دیے ۔ لیکن ان کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اگر پاکستان میں سائنس کی تعلیم معیاری ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت سائنسی تحقیقات میں نہ صرف دلچسپی لے ، بلکہ اس کے لیے بجٹ میں ایک بھاری رقم مختص کرے تو ہمارے ہو نہار محققین اور سائنس دانوں کی صلاحیت اور قابلیت میں مزید نکھار آجائے گا ۔اور وہ بہ آسانی دنیا کو باور کراسکیں گے کہ ہم بھی قابلیت ، لیاقت صلاحیت اور مہارت میں کسی سےکم نہیں ۔ ہم بھی دنیا کے دیگر ملکوں کے سائنس دانوں اور محققین کی طرح بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔

یہاں ایک اور خبر قابل ِ ذکر ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے محققین اور سائنس دانوں میں تحقیق کی کتنی جستجو پائی جاتی ہے ۔ یہ خبر بی بی سی اردو نے شائع کی ہے ۔ اس خبر کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے : "کراچی کی آغا خان یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر نوید احمد خان کو جراثیم کی کھوج نے اپنے بچوں کے باتھ روم سے کاکروچ کے دماغ تک پہنچا دیا ہے۔" ڈاکٹر نوید احمد خان بتاتے ہیں : "میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے جو ان کی اتنی افزائش نسل ہو رہی۔ یقیناان کے اندر کوئی مضبوط مدافعاتی نظام موجود ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔" پھر با لآخر ڈاکٹر نوید احمد خان اور ان کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم نے یہ راز معلوم کر ہی لیا کہ کا کروچ کا مدافعاتی نظام اتنی مضبوط کیوں ہے ۔ ڈاکٹر نوید احمد خان اور ان کی ٹیم نے جب کاکروچ پر تحقیق کی تو انھیں معلوم ہوا کہ کاکر وچ سے ملنے والی مالیکیول انسانی جسم میں انفیکشن پیدا کرنے والے "ایم آر ایس اے " اور "ای کولائی " بیکٹریا کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ۔اس طرح یہ بات پہلی بار معلوم ہوئی کہ کاکروچ ایسے حقیر جان دار میں بھی قدرت نے ایسے اجز ا رکھے ہیں ، جو انسانی جسم کے لیے کا رآمد ثابت ہو سکتے ہیں ۔ بالا شبہ اس تحقیق کا کریڈٹ بھی پاکستانی ٹیلنٹ کے سر جا تا ہے ۔ اس تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستانی بھی کسی سےکم نہیں ۔

ایک اور خبر بھی نظر سے گزری ، جس سے پاکستانی ٹیلنٹ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ 10 اپریل بروز جمعہ کو روزنامہ جنگ میں ایک خبر شائع ہوئی ۔ اس خبر کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر نے ایک ایسا لیزر پین ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل کر لیا جس سے برین ٹیومر کا سراغ لگانے میں مدد ملتی ہے ۔ 36 سالہ ڈاکٹر بابر وقاص نے یہ لیزر پین ،اس سے مماثل آلہ کینیڈا میں جلد کے کینسر کے علاج میں استعمال ہوتے دیکھ کر ایجاد کیا ۔ اس خبر سے بھی پاکستانی ٹیلنٹ کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔جب پاکستان میں ڈینگی کی وبا نے آفت پھیلائی ہوئی تھی ، اس وقت پاکستان کی ایک یونی ورسٹی نے اس بیماری کے خاتمے کے لیے اہم پیش رفت کی تھی ۔ یہ پاکستانی کی ایگری کلچرل یونی ورسٹی آف فیصل آباد (یو اے ایف ) تھی ۔اس وقت یو اے ایف کے وائس چانسلر نے بارہ سائنس دانوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا تھا ۔ تاکہ وہ ڈینگی کے خاتمے کے لیے تحقیقات کر سکیں ۔ اس ٹیم نے ڈینگی پھیلانے والے عوامل کے بارے میں آگاہ کیا تھا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ کیوں کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں تحقیق و تجسس کا بہت زیادہ شوق پایا جاتا ہے ۔ ان کی تحقیقات نہ صرف ملک و قوم کے لیے سود مند ثابت ہوں گی ، بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے بھی کا ر آمد ثابت ہوں گی ۔ اسی پر اکتفا ہے ۔
 
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 144161 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More