اب اردو بولنےاور لکھنے میں شرم نہیں آتی

میرے آباؤ اجداد کا تعلّق آگرہ سے ہے، میں بھی وہیں پیدا ہوا۔ پاکستان بنا تو پنجاب میں بسیرا ڈالا۔ گھر میں اُردو اور گھر سے باہر پنجابی زبان روانی سے بولنے لگا کیونکہ ہجرت کے وقت محض ایک سال کا تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کے لئے کراچی آیا تو اطمینان ہوا کہ گھر کیا ؟ باہر کیا ؟ ہر جگہ اردو بولیں گے مگر یہ جان کر بہت صدمہ ہؤا کہ یہاں تو سگے رشتہ داروں نے یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ میں فلانے کا بیٹا ہوں ، پنجابی سمجھ کر اپنا رشتہ دار ماننے سے ہی انکاری نظر آئے کیونکہ اردو بھی پنجابی میں بولنے لگا تھا۔ ملازمت چونکہ ا نٹرنیشنل ائر لائنز میں تھی لہٰذا سارا دن منہ ٹیڑھا کر کر کے انگریزی بولنے کی مشق کرنا پڑتی تاکہ دوسروں کو محسوس ہو کہ بہت زیادہ باہر کے ممالک جانا ہوتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے بھی سبقت لے جانے کی عمر تھی۔

نتیجہ یہ کہ اردو بے چاری ہو گئی ، نفسیاتی طور پر اس کو بہ حیثیت زبان ہی تسلیم نہ کرنے کا عمل اور اس موقف کی وکالت اس روز تک جاری رہی جس روز تک میرا لکھا ہوا آرٹیکل ہماری ویب پر شائع نہ ہو گیا جو ہماری ویب کی انگریزی سے اردو ڈکشنری دیکھنے کے دوران ایسے ہی جمع کرا دیا تھا۔ اس روز ایسا لگا جیسے قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔( ہماری ویب کی دریافت ایسے ہوئی کہ ائر لائنز سے ریٹائرمنٹ کے بعد گزشتہ تین سال سے پاکستان ٹائمز ملائیشیا کا کنسلٹنگ ایڈیٹر ہونے کے ناطے اس کے لئے انگریزی میں آرٹیکلز معہ اردو ترجمہ اور ملائیشیا کے بارے میں معلومات " یہ ہے ملائیشیا" جو انگریزی زبان میں انٹرنیٹ پر میسّر تھیں ان کا اردو ترجمہ کر رہا تھا جس کے لئے گھر میں موجود ڈکشنری اور انٹر نیٹ پر دستیاب تمام ترجموں سے بہتر ہماری ویب کی ڈکشنری سے ملتا تھا)۔ہماری ویب پر ابھی مشکل سے دس آرٹیکلز بھی شائع نہ ہوئے کہ ہماری ویب کے بانی اور سی۔ای۔او جناب ابرار احمد صاحب نےاپنے آفس میں لکھنے والوں کی ایک میٹنگ بلائی جس میں اردو کی مزید بہتری سے متعلق آراء درکار تھیں۔ میٹنگ کے دوران اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ نو جوان ابرار صاحب اردو زبان کو دوبارہ زندہ کرنے اور نئے سرے سے ترویج کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ میٹنگ سے واپس آنے کے بعد سے ہی میری اردو زبان کے بارے میں منفی سوچ میں کمی آنا شروع ہو گئی کیونکہ میں نے بہت عرصے بعد کسی کو اردو زبان سے نئی نسل کو ایک نئے اور تیکنیکی طریقے سے روشناس کرانے کی عملی کاوش کو بذاتِ خود دیکھا۔ مزید چار کالم لکھنے پر ہماری ویب کے ابرار احمد صاحب کی طرف سے بہترین کارکردگی کا سرٹیفکیٹ موصول ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک عظیم لکھاری ہوں اور نہ صرف انگریزی بلکہ اردو زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔
 

image


جنوری 2015 میں ہماری ویب رائٹرز کلب تشکیل پایا جس میں ممبر بنا لیا گیا اور بیس آرٹیکلز و کالم لکھنے پر لگ بھگ سات ہزار لکھنے والوں میں سے ان پہلے پندرہ لکھنے والوں میں شامل کر لیا گیا جن کے تمام آرٹیکلز و کالمز کی ای-بُک تیار کی گئی اوران ای- بُکس کی تقریبِ رونمائی 4/ اپریل 2015 کو پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی جس کے مہمانِ خصوصی تھے محترم پروفیسر سحر انصاری صاحب۔ دعوت نامہ موصول ہوا ، خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی حد۔ شرکت کی، مکمل اردو میں تقریریں سنیں اور پروگرام کی نظامت نہایت حسن و خوبی سے نبھانے والے محترم جناب عطا محمد تبسم صاحب (جنرل سیکریٹری رائٹرز کلب) نے میرے تعارفی کلمات کے بعد مجھ سے بھی کچھ کہنے کا کہا تو ایک تو پہلے ہی اتنے قد آور اردو دانوں کی تقریریں سن کر اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھا اور پھر مجھے بھی اردو زبان میں ہی کچھ کہنا مجبوری تھی ۔ انٹرنیشنل ائر لائنز میں اکتالیس سال ایرو ناٹیکل انجینئر ہونے کے ناطے پاکستان کے اندر اور غیر ممالک میں تقریباً تمام ہی تقریریں انگریزی زبان میں کیں۔ پہلی مرتبہ اردو میں بولا لیکن جب چار منٹ میں چار بار تالیاں بجیں تو یقین ہو گیا کہ اردو ایک نہایت آسان اور فصیح و بلیغ زبان ہے اسی وجہ سے ہماری قومی زبان ہے۔ یقین کے ساتھ فخر بھی محسوس ہوا نہ کہ ندامت و احساسِ کمتری جو کہ اس سے پیشتر ہوتا تھا۔

آج مجھے نہ تو اردو زبان میں بات کرنے میں کوئی عار ہے اور نہ ہی لکھنے میں کوئی دشواری ۔ ہماری ویب کے بانی و روحِ رواں جناب ابرار احمد صاحب ، ہماری ویب کی پوری ٹیم اور ہماری ویب رائٹرز کلب کے تمام عہدیداران یقیناً قابلِ تحسین ہیں کہ ان تمام حضرات نے میری منفی سوچ کو مثبت رنگ میں ڈھالا جس کے ثبوت کے طور پر مجھے ایک شیلڈ کی شکل میں انعام سے نوازا ۔
 

image

ان تمام حضرات کی دن و رات کی محنت نہ صرف میرے بچّوں بلکہ موجودہ ، مستقبل کی نسلوں کے لئے اردو زبان بولنے و لکھنے میں نہایت ممد و معاون ثابت ہوگی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی مانند اپنی قومی زبان پر بھی فخر محسوس کریں گے۔ ان سب کی ان خدمات کو سلام!

محترم ابرار احمد صاحب کی خواہش پر ہماری ویب رائٹرز کلب کی میٹنگ میں طے شدہ فیصلے کا اعلان تقریبِ رونمائی کے خطاب میں محترم ابرار احمد صاحب نے کیا کہ اردو زبان کی طرح پورے پاکستان میں بولے جانے والی تمام زبانوں کے فروغ و ترویج پر کام شروع ہو چکا ہے اور امید ہے کہ بہت جلد عوام کو ان تمام زبانوں کے پڑھنے اور لکھنے کی سہولت میسّر ہو گی جس کے بعد انشاءاللہ ہماری ویب پاکستان کی واحد و منفرد ویب سائٹ بن جائے گی۔
 

image
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112217 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More