پیغام کی آفاقیت

”وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (اسلام) کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا، اگرچہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔“(القرآن) یہ دنیا کی ایک مسلمہ سچائی ہے کہ حق ہمیشہ غالب آکر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے، کیونکہ حق آیا ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ ابتدائے اسلام میں دشمنان اسلام کے نزدیک یہ سوچنا بھی کسی مذاق سے کم نہیں تھا کہ اسلام ایک دن اپنی حقانیت اور قبولیت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا کر رہے گا، لیکن آج کفار خود اپنی زبان سے یہ اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے۔ واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کے تحت مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق ”2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا۔ کسی بھی مذہب کے مقابلے میں اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کے بعد مسلمان آتے ہیں، لیکن 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی اندازاً 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جبکہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔ آنے والے عشروں میں جہاں ایک طرف چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنائیں گے، وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے، جبکہ ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے۔“

اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کہ دشمنان اسلام نے اسلام کی تیز رفتار ترقی کے خوف سے ہمیشہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ ماضی قریب میں نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو اذیت، پریشانی اور گوناگوں مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ ٹوئن ٹاورز کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کی کالک سے اسلام اور مسلمانوں کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ دشمنان اسلام نے جہاں ایک طرف مسلم ممالک میں سازشوں کے جال بن کر بدامنی، خونریزی اور قتل و قتال کو جنم دیا، وہیں دوسری جانب امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر مختلف مسلم ممالک میں مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ نائن الیون کے بعد ہر زبان کی لغت میں موجودکون سا منفی ، ثقاہت سے گرا اور مکروہ لفظ ایساہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو بزور طاقت دبانے کی ہرعسکری کارروائی کو حق بجانب قرار دیا گیا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسلام دشمنوں کا خیال تھا کہ ”غلبہ اسلام“ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ”نیو ورلڈ آرڈر“ نافذ کردیا جائے گا۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ اسلام کے خلاف ماضی میں بھی اسی قسم کی بے تحاشہ کوششیں کی گئیں، لیکن آج تک اسلام آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔

دشمنان اسلام نے جوں جوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی، توں توں لوگ دیوانہ وار اسلام کی شمع کے گرد جمع ہوتے گئے۔ پوری دنیا میںاسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کا شوق عام ہوا اور غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم سٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دےا کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہد حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکا و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام تر مفادات سے بالاتر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دین فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا، جو تمام سابقہ مذاہب کی خوبیوں سے بھی مزین ہے۔ ”اشاعت اسلام“ کے مقدمہ میں مولانا حسین احمد مدنی لکھتے ہیں: ”اس (اسلام) کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاحات نے نہ صرف حلقہ بگوشانِ ادیان سابقہ کو اپنا گرویدہ بنالیا، بلکہ ریگستانوں میں بادیہ پیمائی کرنے والوں اور پہاڑوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا مطیع کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت تھوڑی سی مدت میں بحرِ اٹلانٹک کے ساحل سے لے کر بحرِ پاسفک کے کناروں تک اور بحرِ منجمد شمالی کے برفستان سے لے کر صحرائے کبیر افریقہ کی انتہائی گرم حدود تک ہزارہا ہزار میل کی مسافت میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔“ ہر دور میں اسلام نے اپنی تعلیمات کی جامعیت اور اپنے پیغام کی آفاقیت سے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی مخصوص وقت اور قوم کی حدود سے ماورا ایک آفاقی اور ابدی پیغام کا حامل ہے۔ اس بات کا اعتراف کفار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس کے طالع آزما سکندر زمانہ نپولین بونا پارٹ کا کہنا ہے: ”مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں، جب میں سارے ممالک کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا اور قرآنی اصولوں کی بنیاد پر متحدہ حکومت قائم کروں گا۔ قرآن کے یہی اصول ہی صحیح اور سچے ہیں اور یہی اصول انسانیت کو سعادت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔“

یہ اسلام کا اعجاز، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کشش اور اس آفاقی پیغام کا اثر ہے کہ جس نے بڑے بڑے اسلام دشمنوں کو بھی اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی پورے اسلامی تشخص و امتیازکے ساتھ امریکا یا یورپ میں نہ صرف آباد ہوں گے، بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکا کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعوبنائیں گے، لیکن یہ صورتحال کس قدر تبدیل ہوئی، مشہور انگریزی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شا کے اعتراف سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ”جینئن اسلام“ میں وہ لکھتے ہیں: ”آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب انگلینڈ، بلکہ پورے یورپ پر حکومت کرنے کا موقع پاسکتا ہے تو وہ مذہب ”اسلام“ ہی ہوسکتا ہے۔ میں نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانہ میںقابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ وہ کل کے یورپ کو قابلِ قبول ہوگا، جیسا کہ وہ آج کے یورپ کو قابلِ قبول ہونا شروع ہوگیا ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں نے ازل سے تا بہ امروز اللہ کے دین متین کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کا حربہ آزمایا، لیکن اسلام تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہر دور میں پوری قوت سے پھیلا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک پھیلتا رہے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.