سوچ سے کافی دور ہیں

نو پلاننگ
مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کیا ہیں یہ ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں اور ان اسباب کودرست کرنے کے لئے بھی وقتََا فوقتََا کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کوششوں کو کامیابی نہ ملنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ادارہ یا تنظیم یا فرد اس کام کو انجام دینے کے لئے آگے بڑھتاہے تو وہ جوش سے کام لیتے ہیں اور ہوش سے کام لینے کا ہوش بھی ان میں نہیں رہتا اور انکے پاس کوئی ایسی مستقل پلاننگ بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں۔یہودیوں کی قوم جودنیا کی جملہ آبادی میں سے صرف 1.39کروڑ ہے وہ اس دنیا پر اپنے ایجنڈے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے اور اس قوم نے دنیا کی دوسری قوموں کو اپنے سامنے سر جھکانے کے لئے مجبور کردیا ہے۔یہودیوں نے دنیا کو اپنے ماتحت کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ دنیا کے سامنے پوشیدہ ہے یہی وہ قوم ہے جس نے دنیا کے پورے فائنانشیل سسٹم کو اپنے قبضے میں کررکھا ہے، دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اسی قوم کے ماتحت کام کرتے ہیں اور یہی وہ قوم ہے جو میڈیا کو اپنا غلام بنائی ہوئی ہے اور دوسری قوموں جس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کو میڈیا کے ذریعے سے نقصان پہنچایا ہے ۔ آج صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 20؍ کروڑ کے قریب قریب ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان بیس کروڑ مسلمانوں میں نہ اتحاد ہے ، نہ سیاسی شعور ہے ، نہ سیاسی قائدین ہیں ، نہ ملّی قائدین ہیں اور نہ ہی انکا کوئی میڈیا ہے ۔ محض 1.39؍ کروڑ یہودیوں نے اپنی مستقل مزاجی اور پلاننگ کے ذریعے دنیا پر اپنی گرفت رکھی ہے لیکن ہم بیس کروڑ مسلمان ہوکر بھی اس ملک میں بے بس و لاچار ہوگئے ہیں اسکی وجہ کچھ ہے تو وہ پلاننگ کی کمی ہے !۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی مالی اور تعلیمی حالت بھلے ہی دوسرے طبقوں سے کمزور ہے لیکن انہیں مسلمانوں کا بڑا طبقہ بھی ملک کے مالداروں میں شمار ہوتاہے۔ رئیل اسٹیٹ ، ادویات کے کارخانے ، انڈسٹریس ، سافٹ ویئر کمپنیاں آج مسلمانوں کی مٹھی میں ہیں ۔ اسکے علاوہ بیرونی ممالک میں مقیم مسلمان بھی مالی حالت سے کمزور نہیں ہیں لیکن ان مسلمانوں کا مال سہی سمت میں نہیں لگ رہاہے اور وہ پیسہ ڈال کر پیسہ نکالنے کی کوشش میں ہیں جبکہ یہودیوں کا سوچنا ہے کہ پیسہ ڈال کر کام لیا جائے اور کام جب شروع ہوگا تو خود بخود پیسہ آنے لگے گا۔ مسلمانوں کو آج میڈیا کی اشد ضرورت ہے اور یہ وقتی ضرورت نہیں ہے بلکہ مستقل ضرورت ہے ۔ اس مستقل ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں مستقل منصوبے کی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ ہم اور آپ ہی تیار کرسکتے ہیں ۔ ہندوستان بھر کے جتنے بھی مسلم مالدار لوگ ہیں وہ اگر قومی میڈیا کے قیام کے لئے ایک ایک فیصد بھی سرمایہ لگاتے ہیں تو یقینا ہندوستان کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤز بن سکے گا۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے میڈیا نے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنایا ہے ۔ ہم نے حال ہی میں یہ بھی دیکھا کہ کس طرح سے بے قصور مسلمانوں کو قصوروار ٹہرانے میں میڈیا نے اہم رول ادا کیا ہے اور کس طرح سے ہماری آواز کو دبانے میں میڈیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ہمارے پاس ڈاکٹرس ، انجنیئرس، کارپوریٹ سیکٹر کے بزنس مین ، انڈسٹریلیسٹس کی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو میڈیا کی جو آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اسی طرح سے کئی مسلم سیاستدان جومسلمانوں کی رہبری کے دعویدار ہیں انہوں نے مسلمانوں کے نام پر اپنی تجوریاں بھری ہیں انہوں نے بھی کبھی اس جانب غور و فکر نہیں کی کہ مسلمانوں کا کوئی میڈیا ہو ۔ ملک کے بڑے بڑے سیاستدان و وزراء سیاست میں رہتے ہوئے بھی صحافت کادامن نہیں چھوڑا ہے کوئی صحافت میں آنے کے بعد سیاست کررہاہے تو کوئی سیاست میں آنے کے بعد صحافت میں ہاتھ ڈال رہاہے اور وہ جانتے ہیں کہ صحافت ہی بچاؤ کا واحد ہتھیار ہے ۔ مگر ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد گاڑی بنگلے کی فکر کرتے ہیں یا اپناکالا دھن ریئل اسٹیٹ میں لگاتے ہیں اگر وہی کام وہ میڈیا کے لئے کرتے ہیں تو وہ اس سے انکی دفاع بھی ہوگی اور قوم کی ترجمانی بھی ممکن ہے ۔ اس لئے عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان میڈیا کے قیام کے لئے لائحہ عمل تیار کریں اور باقاعدہ اپنی دفاع کے لئے ہتھیار بنائیں ۔مسلمانوں کے لئے میڈیا کی ضرورت اور اسکی اہمیت کے تعلق سے کافی چرچے ہوئے ہیں اور ان چرچوں کے درمیان وقتََا فوقتََا ایسے لوگ بھی سامنے آتے رہے ہیں جو مسلمانوں کی میڈیا کے ذریعے سے نمائندگی کرسکیں لیکن ان کی بروقت تائید و مدد نہ ملنے کی وجہ سے وہ پست ہمّت ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دراصل آج مسلمانوں کی شبیہہ کا تحفظ ہونا ہے تو وہ نہ مسجدوں کے منبر سے ممکن ہے نہ ہی چار دیواری میں بیٹھ کر گھنٹوں چرچے کرنے سے ۔مسجدوں سے مسلمانوں کی شبہیہ درست کرنے کے کام اس لیے ناممکن ہے کیونکہ آج مسلمانو ں کو مسجد کے اندر والے نشانہ نہیں بنارہے ہیں بلکہ مسجدوں کو ختم کرنے والے نشانہ بنارہے ہیں اور وہ مسجدوں میں بیٹھ کر ہمارے علماء کرام کے بیانات سننے سے قاصر ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے کے لئے آئے دن جلسے و اجلاس کا بھی خوب اہتمام کیا جارہاہے لیکن ان جلسوں میں پیش کیا جانے والا پیغام عام لوگوں تک پہنچ نہیں پارہاہے کیونکہ اس پیغام کو پہنچانے والا میڈیا ہمارے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسا میڈیا ہے جو ان جلسوں کی تشہیر کرسکے اس وجہ سے ہمارے علماء،اکابرین اور مقررین جو کچھ کہتے ہیں وہ جلسہ گاہ تک ہی محدود ہوکر رہ جاتاہے اور ان جلسوں کے ذریعے سے عام لوگوں کے لئے جو پیغام ہوتاہے وہ پیغام عام نہیں ہوتا۔ حال ہی میں مہاراشٹر کے ناگپور میں راشٹریہ سویم سیوکھ سنگھ کا قومی جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں سنگھ کے کارکنوں نے شرکت کی تھی اس جلسے کی سرخیاں ملک کی کم وبیش میڈیا چینلس راست نشریات کرنے کے پابند تھے اور کئی چینلوں میں اس جلسے کو لے کر بریکنگ نیوز بھی دکھائے تھے مانو کہ راشٹریہ سویم سنگھ ایک سرکاری ادارہ ہے اور اسی کی وجہ سے ملک چل رہاہے وہی دوسری جانب جمعیت العلماء ہند ، جماعت اسلامی کے بھی ملکی سطح پر پچھلے مہینوں میں ہی اجلاس کااہتمام کیا گیاتھا لیکن اسکی نشریات نہ سہی کم ازکم اسکرال یعنی مختصر خبروں میں بھی اسے ظاہر نہیں کیا گیا اسی طرح سے پچھلے دنوں ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قومی اجلاس کااہتمام ہواجس میں ملک بھر کے قانون دان ، علماء اور عمائدین کی شرکت ہوئی تھی اس پر بھی ہمارے قومی میڈیا کی نظریں نہیں جمی اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل نے یہ گنوارا سمجھا کہ پرسنل لاء بورڈ میں منظور ہونے والی قرار داتوں کی مختصر جھلکیاں پیش کی جائیں۔ اسی طرح سے منگلور میں دو ہفتے قبل ایک مسلم بچی کی آبروریزی کی گئی تھی اس آبروریزی کے خلاف ساحلی علاقے کے مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوکر زانی کو گرفتار کرنے کے لئے ریالی نکالتے ہوئے حکومت کی کمزوریوں کے خلاف احتجاج کیا لیکن میڈیا کی کم ظرفی دیکھئے کہ مسلمانوں کی اس ریالی کو انہوں نے بنگلور میں خود کشی کرنے والے آئی اے یس افسر کی موت کے خلاف احتجاج سے جوڑ دیا ۔ اسی طرح سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پچھلے کئی سالوں سے ملک گیر سطح پر مسلمانوں میں کیڈر بیس کام کررہی ہے مگر کبھی بھی میڈیا نے اس تنظیم کو فروغ دینے کی ذمہ داری نہیں لی لیکن جب بھی اس تنظیم کے اجلاس کے دوران گڑبڑی پیدا ہوئی تو ہمارا میڈیا اس تنظیم کو منفی طور پر پیش کرتارہاہے۔ درحقیقت یہ سب محض اس وجہ سے ہورہاہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس فرقہ پرست اور زہریلے میڈیا کا جواب دینے کے لئے متبادل میڈیا نہیں ہے ۔ جب کبھی میڈیا مسلمانوں کے خلاف زہرفشانی کرتاہے تو اسکے جواب میں ہم سڑکوں پراتر کر احتجاج کرتے ہیں ، نعرے بلند کرتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ صحافیوں کی پٹائی کرتے ہیں اور ان حرکتوں کوبھی میڈیا احتجاج کے طور پر نہیں بلکہ تشدد کرنے والی قوم کے طورپر مسلمانوں کو پیش کرتی ہے۔دراصل میڈیا کا جواب میڈیا سے ہی دینے کی ضرورت ہے لیکن ہم اس سوچ سے کافی دور ہیں ، ہمارا نصب العین آجکل اسلام کے موافق نہیں ہے بلکہ اسکے برعکس ہوتاجارہاہے ۔ ظلم کی تردید کرنا ، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور حقیقت کو سامنے لانا بھی اسلام کے دائرے میں آنے والی باتیں ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے علماء و اکابرین اس سمت میں غور کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ پتہ نہیں کہ انہیں کونسی الرجی ہے کہ وہ مسلمانو ں کو اس بات پر آمادہ نہیں کررہے ہیں کہ مسلمان اپنا قومی میڈیا بنانے کے لئے آگے آئیں۔ جس طرح سے مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر ات کے لئے تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ جس طرح سے ملک و بیرونی ممالک سے مسجدوں ومدرسوں کے لئے چندے وصول کئے جاتے ہیں اگر اسی طرز پر مسلمان اپنے قومی میڈیا کووجود میں لانے کے لئے تحریک چلائے تو یقینا بہت بڑا کام ہوسکتاہے اسکے بعد نہ ہمیں کسی میڈیا کی زہر فشانی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے پمفلٹ جاری کرنے پڑھینگے نہ ہی ہمارے وجود کو ظاہر کرنے کے لئے ہزاروں لوگوں کو جمع کرنا پڑھیگا۔ ایک اخبار لاکھوں لوگوں تک پہنچے گا تو ایک ٹی وی چینل سے کروڑوں لوگوں تک پیغام پہنچائیگا۔ اس میں بھی کچھ علماء کا کہناہے کہ ٹی وی تو حرام ہے اس لئے اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ لیکن آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دس بیس بچوں پر مشتمل مدرسوں کے لئے چندے ہزاروں بچوں کی موجودگی کا حوالہ لے کر وصول کیا جارہاہے تو یہ چندہ کونسا حلال ہوگیا؟۔ موجودہ دور میں کئی فلاحی تنظیمیں کام کررہی اور وہ بھی ایسے کام جس کی ضرورت خود قوم پورا کرسکتی ہے مثال کے طور پر مفت ختنوں کااہتمام، مفت شادیوں کا اہتمام، مفت خون کا چیک اپ کیمپ وغیرہ ۔ ہمارا سوال ہے کہ جس قوم کے ہر گھر میں ٹی وی ہے اور اسکے لئے ڈش کنکشن ہے اور کنکشن کے لئے وہ ماہانہ تین سو روپئے دے سکتی ہے تو کیا وہ اپنے بچے کی ختنہ کے لئے زندگی میں ایک دفعہ تین سو روپئے خرچ نہیں کرسکتی ؟۔ آج قوم کی ان تنظیموں کو اس طرح کے چھوٹے کام کرنے کے بجائے بڑے کاموں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور آج کا بڑا کام میڈیا کا قیام ہے ،اگر میڈیا ہمارے ہاتھ میں ہوگا تو کئی کام آسانی کے ساتھ ہوسکتے ہیں ۔
 a
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 172038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.