تخلیق ، تخلیق کار اور قاری

بجا اور کھرا سچ ہے کہ
قاری ہی وہ کسوٹی ہے جو کسی بھی خیال ، یا ہئیتِ خیال
{مراد نظم ،غزل یا دیگر اصناف سخن} کے مقام و مرتبہ کا تعیّن کرتا ہے
اگر آپ کو اچھا اور صاحب مطالعہ و ذہنِ رسا رکھنے والا قاری میسّر آ گیا تو وہ آپ کی تخلیق کے وہ وہ پہلو آشکار کر سکتا ہے جو شاید آپ پر بھی منکشف نہ ہوں
اور یوں ایسا قاری تخلیق اور تخلیق کار دونوں کو امر کر دے
لیکن اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو پھر تخلیق اور تخلیق کار دونوں کا اللہ ہی حافظ ہے
کیونکہ بیج جتنا بھی اعلٰی ہو سنگ مرمر پر اس کے اگنے کا انتظار خیال خام کے سوا کچھ معانی نہیں رکھتا اور بین جس قدر بھی سریلی بجائی جائے بھینس کو آگے اس کا بجانا سعئی لاحاصل ہے
----------------
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آوً کہ گلشن کا کاروبار چلے
۔۔۔۔۔ فیض احمد فیض

یہ شعر میں نے مختلف موقعوں پر دو مختلف احباب کو سنا کر اس سے متعلق اظہار رائے کی گذارش کی تو ایک صاحب فرمانے لگے کہ شاعر صاحب ، شغلِ شاعری کے ساتھ ساتھ شاید گل فروشی کا دھندا کرتے ہیں اور ان کے کھیت جن میں وہ پھول کاشت کرتے ہیں ان کا مالی/کاشتکار کہیں فرار ہو گیا ہے اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے سو شاعر صاحب اس احساس کے تحت {کہ وہ آجائے تو کاروبارِ گل فروشی پھر چمک اٹھے} لہک لہک کر اور گا گا کر اسے بلا رہے ہیں مندرجہ بالا تشریحات سن کر میری تو سٹی گم ہو گئی جبکہ دوسرے صاحب شعر سماعت فرما کر پہلے تو کافی دیر واہ واہ کرتے اور سر دھنتے رہے اور باالآخر یوں گویا ہوئے کہ ایک صاحب محو استراحت تھے کہ رات کسی پہر بوجوہ بیدار ہو گئے بستر چھوڑا صحن میں آ کر تازہ پانی سے وضو کیا اور دروازہ کھول کر مکان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئےلامکان۔۔۔۔
عازمِ سفر ہو گئے
مفسرین و شارحین "وقوعہء ھٰذا" سے متعلق تحریرتے ہیں کہ
وہ زمیں سے آسمان و سدرہ و لامکاں تک کا سفر طے کر کے واپس پلٹ آئے اور
بستر گرم رہا۔۔۔۔
پانی نل سے ٹپکتا رہا۔۔۔۔
کنڈی ہلتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ، ایسا ہرگز نہیں
بلکہ بستر کی گرمی {حرارت جو زندگی ہے} کی محتاج ہے
پانی کا قطرہ نل سے ٹپک کر دھانے سے زمیں تک کے سفر کا جتنا فاصلہ طے کر چکا تھا وہِیں پر ساکت و جامد ہو گیا نہ کہ مسلسل ٹپکتا رہا
اور کنڈی پنڈولم کی طرح متحرک تھی مگر حرکت مفقود ہونے کی وجہ سے وہ بھی جس زاویے پر جا چکی تھی وہیں ٹھہرگئی نہ کہ متواتر ہلتی رہی
کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس لئے کہ زمینی مکان سے سوئے لا مکان جانے والا ان سب میں
"لولاک لما خلقت الافلاک "
گر ارض و سما کی محفل میں لو لاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں
کے مصداق
وہ جانِ جہان و جانِ کائنات جب اس کائناتِ ہست و بود سے رخصت ہو گیا تو کائنات کی ہر چیز بے رنگ ، بے بو ، ساکت ، جامد ، بے جان و مردہ ہو گئی یعنی نبض ہستی تھم گئی بالکل اس لباس کی طرح جس میں سے صاحب لباس نکل جائے تو وہ ساکت جامد ہو جاتا یے
یا
اس جسم کی طرح جس میں سے روح نکل جائے تو وہ بے حرکت ، ساکت ،جامد ہو جاتا ہے
جب کائنات ان کیفیات کا شکار ہو گئی تو صاحب عرفان و وجدان شاعر نے ان کیفیات کے تناظر میں
جان عالم ، روح کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے دست بستہ عرض کی کہ
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آوً کہ گلشن کا کاروبار چلے
بس جب وہ تشریف لے آئے تو بستر کی گرمی ، پانی کے ساکت قطرے اور جامد کنڈی کوزندگی ملی اور زندگی پاتے ہی سب نے حال سے مستقبل کا سفر شروع کر دیا
مندرجہ بالا دونوں تشریحات و تفاسیر واضح کر رہی ہیں کہ تخلیق یا تخلیق کار کے علمی مقام و مرتبے کا تعین کرنے میں قاری کی کتنی اہمیت و افادیت ہے باالخصوص ایسا قاری جو بالغ نظری ، وسعتِ علمی اور باریک بینی جیسی صفات کا حامل ہو
وگرنہ بہت خوبصورت اور بلند مرتبت تخلیقات بھی بین کی مدھر اور سریلی آواز کے مصداق ہونے کے باوجود کم فہم ، کم علم اور کوڑھ مغز کے روبرو بھینس کے آگے بین بجانے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ۔۔۔
Dr Qamar Siddiqui
About the Author: Dr Qamar Siddiqui Read More Articles by Dr Qamar Siddiqui: 12 Articles with 53229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.