دوسروں کے تنازعات سے اپنے وطن کو دور رکھیں ۔

ہم کب خودمختار ہونگے کب اپنے فیصلے خود کرینگے کب ایسا وقت آئے گا کہ ہم کسی ملک سے قرضہ نہیں لینگے یہ وہ سوالات ہیں جو بچپن سے میرے ذہن میں گونجتے ہیں اور ہر نئی آنی والی حکومت کے ساتھ ان جوابات ملنے کی امید قائم ہوجاتی ہے لیکن بہت جلد تمام امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں کسی بھی حکومت کو قائم ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ نئے نئے مسائل جنم لینے لگتے ہیں نہ ہی ہم اڑسٹھ سال میں خود مختار ہوسکے نہ ہی اعتماد کے ساتھ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے قائد نے اس ملک کی خاطر کیا نہیں کیا لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دئیے اس لیئے کہ ان کی آنے والی نسلیں اس ملک کو پھلتا پھولتا دیکھیں دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ قدم ملا کر چلتا دیکھیں لیکن شہدائے تحریک پاکستان کی قربانیاں اور قائد کا خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ،کبھی کوئی ہمیں ساتھ نا دینے پر پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی دھمکی دیتا ہے کبھی ہماری خود مختاری پر حملہ کرتا ہے کبھی ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے کبھی ہمارے لوگوں کے قاتلوں کو بذریعہ طاقت یہاں سے اپنے ملکوں میں لے جایا جاتا ہے کبھی ہمارے ملک میں گھس کر حملہ کیا جاتا ہے ، کیا یہی آزادی ہے جس کے لیئے قائد نے ہمیں یہ ارض پاک حاصل کرکے دیا تھا ۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے ہم اڑسٹھ سال میں بھی کیوں مستحکم نہ ہوسکے تو ایک ہی جواب سمجھ آتا ہے ہمیں کوئی لیڈر ہی نہیں ملا ایماندار اور وطن پرست قیادت ہی میسر نہیں آئی ہم جن سے قرضے لے کر اپنی معیشت چلاتے ہیں تو وہ اس کے عوض ہم پر اپنی فیصلے بھی تھوپتے ہیں اور ہمیں آنکھیں بھی دیکھاتے ہیں ، ابھی ہم افغانستان کے بارے میں اتحادی افواج کا ساتھ دینے کی سزا ہی کاٹ رہے ہیں کہ ایک نیا مسعئلہ ہمارے سامنے سر اٹھا رہا ہے سعودی عرب اور یمن کی ایک محدو جنگ شروع ہوگی اس میں بھی ہمارے حکمراں خود کودنے کو تیار ہیں کہیں ہمیں دوسروں کے معاملات میں زبردستی کودنے پر مجبور کیا جارہاہے تو کہیں ہم خود کودنے کو بیتاب ہیں ! خدارا ہوش کے ناخن لیں اپنے ملک کے اندرونی معاملات دیکھیں انہیں بہتر کرنے کی کوشش پر ہی تمام وسائل بروئے کار لائیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں پاکستان کو تو زمانہ نوجوانی میں ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجانا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی ایسا نہیں ہوا اب اس اڑسٹھ سالہ بوڑھے پاکستان پر رحم کریں غیر ملکی امدادوں سے جان چھڑائیں جب آپ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ چین ہمارا پرانا اور بہت گہرا دوست ہے تو اس کی خارجہ پالیسیوں سے سبق سیکھیں وہ کسی بین القوامی جھگڑوں میں اپنے آپ کو نہیں الجھاتا بلکہ نیوٹرل رہتا ہے اور تمام توجہ اپنی عوام کی خوشحالی اور اپنے ملک کی ترقی پر مرکوذ رکھتا ہے اور یہی اس کی ترقی کا راز ہے۔

کہتے ہیں کہ تلخ تجربات سے انسان بہت سیکھتا ہے کیا اس سے تلخ تجربہ کوئی اور ہوگا کہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان ہمارے وطن عزیز نے ہی اٹھایا امریکہ کا ساتھ دینے کے باوجود ہماری تزھیک کی گئی تمام غیر ملکی ائیرپورٹس پرپاکستانیوں کے ساتھ نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جانے لگا کئی زمانے سے امریکہ میں مقیم لوگ واپس اپنے ملک میں آنے پر مجبور کردیئے گئے دنیا بھر میں پاکستانیوں ا ور مسلمانوں کا امیج تباہ و برباد ہوکر رہ گیا ان سب کے باوجود ہم سے ڈو مور ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے دہشت گردی کے خلاف ساتھ دینے کے باوجود ہمیں ہی دہشت گرد سمجھا جانے لگا ملک کے اندر ہی ہمارے بے پناہ دشمن پیدا ہوگئے جو آج تک ہم پر ہر طرح سے وار کررہے ہیں کیا یہ جنگ جو ہم نائن الیون کے بعد سے لڑرہے ہیں اس کے لیئے کسی ملک نے ہمارا ساتھ دیا یا کسی نے کہا کہ ہم اپنی فوج پاکستان بھیجنے کو تیار ہیں نہیں کسی نے نہیں کہا اگر کسی نے کہا تو صرف لفظوں کی حد تک ہمارا ساتھ دیا اور ہماری افواج آج تک یہ جنگ خود اپنے بل بوتے پر لڑرہی ہے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ قیام پاکستان سے لیکر شائید ہی کبھی وطن عزیز اتنے مشکل دور سے گذرا ہو جتنا اب گذر رہاہے قیام پاکستان کے وقت لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو بے گور کفن چھوڑ کر منزل کی طرف رواں دواں رہے کہ ان کی منزل اب آزاد وطن ہوگا جہاں وہ ہر فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے کوئی ان کے حقوق غضب نہ کرپائے گا لیکن ابھی اس خواب کو حقیقت ہوئے کچھ برس ہی بیتے ہونگے کہ پڑوس میں چھپے دشمنوں نے سازشیں شروع کردیں ہم پر جنگ مسلط کردی انیس سوپینسٹھ اور انیس سو اکھتر میں ہماری خودمختاری پر حملے کیئے گئے پھر ہمیں کارگل کی جنگ میں جھونکا گیا اور نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اتنا جانی اور مالی نقصان برداشت کرچکا ہے جو اب تک لڑی جانے والی جنگوں سے کہیں زیادہ ہے یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کو اتنا نقصان بیرونی محاذوں پر نہیں ہوا جتنا اندرونی محاذوں پر ہوچکا ہے پاکستان اس وقت اس صورتحال سے دوچار ہے کہ اس کے چند دشمن بے نقاب ہیں تو سینکڑوں زیر نقاب بھی ہیں اس قدر شدید نقصان کے باوجود پاکستان تن تنہا اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے اس سلسلے میں بہت سے آپریشن کیئے گئے جن میں سوات راہ راست سوات شمالی وزیریستان میں راہ نجات اور اب ضرب عضب جاری ہے اسی دوران دشمن نے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا بظاہر تو اس میں کئی بدنام زمانہ تنظیم ملوث نظر آئیں لیکن بادی النظر میں اس میں ایک ایسی عالمی سازش نظر آتی ہے جو پاکستان کو کسی صورت میں ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتی ۔

تو اس صورتحال میں ہمیں کیا ضرورت ہے پھر سے کسی کی جنگ اپنے ملک کے اندر لانے کی ، ہاں اس بات سے قطعی انکا ر نہیں کہ سرزمین سعودی عرب تمام عالم اسلام کے لیئے مقدس ہے اگر خدانا خواستہ مقدس جگہوں کی سا لمیت کو کئی خطرہ لاحق ہو تو آپ پر فرض ہوتا ہے کہ اس کے دفاع کے لیئے تمام وسائل بروئیکار لائیں لیکن چونکہ فی الحال اس کے کوئی آثار نہیں تو آپ اس وقت سعودی عرب کو صرف اس بات کا یقین دلائیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ہم پوری طرح تمام مقدس مقامات کا دفاع کرینگے نہ کہ فوری طور پر فوج بھیجنے کا اعلان کردیا جائے۔

اب وقت کا تقاضہ ہے ایک بہترین اور ٹھوس خارجہ پالیسی بنائی جائے اپنے وطن کی خود مختاری کو مقدم رکھا جائے یہ اڑسٹھ سالہ بوڑھا پاکستان مزید کسی تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا قوم کو سب یاد ہے چاہے
میمو گیٹس ہو یا ریمن ڈیوس یا ایبٹ آباد کا مشکوک آپریشن جو بھی ہوا ہماری خودمختاری کی دھجیاں اڑا دیں لیکن افسوس کہ ان سب تلخ تجربات کے باوجود ہمارے حکمران پھر اسی ڈگر پر چلنے کو تیار کھڑے ہیں اور خدا نہ کرے اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنے دوستوں کی تعداد میں کمی اور دشمنوں کے تعداد میں خاصہ اضافہ دیکھیں گے اور کئی پڑوسی ممالک سے روابط بھی تناو کا شکار ہوجائینگے اس وقت ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ اس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے محافظ پاکستان کی افواج ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کا قیام سیاسی اور جمہوری طاقتوں کے زریعے عمل میں آیا تھا -
محمد ارشد قریشی
About the Author: محمد ارشد قریشی Read More Articles by محمد ارشد قریشی: 2 Articles with 1304 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.