خون اور پانی

’’کہتے ہیں کہ ایک محلے میں دو آدمیوں کے پاس کافی مہنگی گاڑیاں تھیں۔ اُن میں سے ایک آدمی کی گاڑی چوری ہوگئی تو اُس نے دن رات دعا مانگنی شروع کردی کہ یااﷲ میرے پڑوسی کی گاڑی بھی چوری ہوجائے تاکہ وہ بھی میرے جیسا ہوجائے۔‘‘ یہی حال پاکستانی قوم کا انڈیا کے کرکٹ میچ کی مرتبہ تھا۔ پوری قوم یہ دعا مانگتی رہی کہ ہم تو ہار گئے ہیں اب انڈیا بھی ہار جائے۔ حالانکہ کہتے ہیں کہ ’’دشمن مرے تو خوشی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دوست نے بھی ایک دن مرجانا ہوتا ہے۔‘‘ انڈیا اگر ہاری تو اپنی غلطیوں سے ہاری پاکستانی قوم کی دعاؤں سے نہیں اور اگر جیت جاتی تو اپنی محنت سے جیتتی۔ کیونکہ پاکستانی قوم کی دعاؤں میں اگر اتنا اثر ہوتا تو وہ آسٹریلیا سے میچ نہیں ہارتے۔

جب کسی سے پوچھا جائے کہ وہ انڈیا کی شکست کیوں چاہتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ انڈیا ہمارا دشمن ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دشمن ناکام ہو۔ لیکن اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسا دشمن ہے جو آج ہمارے ہر گھر میں موجود ہے اور ہر گھر میں اُس دشمن کے ٹی وی ڈراموں کو دن رات دیکھا جاتا ہے۔ اس کی فلموں کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے اداکار اور اداکاراؤں کو اپنا آئیڈیل بنا کر اُن کی پوجا کی جاتی ہے۔ انڈین فیشن کو بے پناہ شوق کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔ یہ کیسا دشمن ہے جس کا مکمل کلچر آج ہم مکمل طور پر اپنا چکے ہیں۔ کیا یہ دشمن صرف کرکٹ اور ہاکی کے کھیل تک محدودہے، کہ بس وہ اس میں ہار جائے اور ہم جیت جائیں۔ لیکن ہم اس دشمن کے سامنے کیا کچھ ہار چکے ہیں شاید اس کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ ہم اپنا کلچر، اپنی تہذیب، اپنا آئیڈیلزم سب کچھ اس دشمن سے ہار چکے ہیں۔

’’انڈیا کتا ہائے ہائے‘‘ اور ’’امریکہ مردہ باد‘‘ کے جنون انگیز نعروں لگانے والوں کو صرف ایک موقع امریکہ یا انڈیا جانے کا مل جائے تو وہ فوراً سر کے بل بھاگے بھاگے جائیں گے اور کبھی بھی انکار نہیں کریں گے۔ امریکی اور انڈین ملٹی نیشنل کمپنی کی چیزوں کو کھانے سے منع کرنے والوں کو اگر ان کمپنیز میں جاب کرنے کا موقع مل جائے تو وہ ایک لمحے کیلئے بھی کبھی انکار کا نہیں سوچیں گے۔ اگر یہ سب کچھ دشمنی میں جائز ہے تو پھر دشمن کیسا اور دشمنی کیسی؟ اس نام نہاد دشمنی میں شاید ہم خود اپنے دشمن بن چکے ہیں۔ اپنی تہذیب، اپنے کلچر اور اپنے مذہب کے دشمن بن چکے ہیں۔ ہماری اس دشمنی سے تو دشمن بھی لطف اندوز ہوتا ہوگا کہ وہ جب چاہے ہم کو گلے سے لگا لے اور جب چاہے دھتکار کر باہر کردے۔ کاش ہمیں اپنے دوست اور دشمن کی پہچان ہوسکے اور ہم دوستی اور دشمنی کے درمیان فرق کو جان سکیں اور دوست کے ساتھ صرف دوستی اور دشمن کے ساتھ صرف دشمنی کریں۔
Kashif Shahzad
About the Author: Kashif Shahzad Read More Articles by Kashif Shahzad: 7 Articles with 4170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.