کچھ منتشر باتوں کی مکس پلیٹ

آج کچھ نکات ،کچھ یادیں اور باتیں ایسی یاد آرہی ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق تو نہیں ہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس سمجھنے کی ضرورت ہے ۔کچھ خاندانوں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ چھوٹے بچوں کو ان کی توتلی زبان میں گالیاں دینا سکھایا جاتا ہے جو ان کے توتلے منہ سے انھیں بڑا اچھا لگتا ہے کوئی مہمان آتا ہے تو اس کے سامنے بھی بچے کو کہا جاتا ہے کہ بیٹا زرا سنانا تو۔۔اور پھر بیٹے صاحب توتلی زبان میں گالیاں بکنا شروع ہو جاتے ہیں ،مہمان حضرات بھی اس کو برا جاننے کے باوجود میزبان کا دل رکھنے کے لیے مصنوعی تعریف کرتے ہیں پھر وہی بچہ جب جوان ہو جاتا ہے تو کسی بات پر غصہ ہوتا ہے تو اپنے باپ کو گالیاں سناتا ہے تو اس وقت باپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے بچپن میں خود اس کی عادت بگاڑی تھی ۔بالکل اسی طرح ہماری اسٹبلشمنٹ کے کچھ نور نظر قومی جماعتوں کو پہلے اپنی توتلی زبان میں گالیاں دیتے تھے تو انھیں بہت اچھا لگتا تھا وہ چاہے علماء کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ ان ملاؤں کو بھینسوں کے باڑے میں باندھنے کی ضرورت ہے ،کبھی این پی کے شاہی سید کے بارے میں ایسی گندی بات کہہ دیں جس کو دہرانا بھی مشکل ہے کبھی ٹی وی کے اینکر پرسنز کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ ان کی مائیں تو مصروف رہتی ہیں ان کے باپوں کا پتا نہیں کبھی تحریک انصاف کی خواتین کو اپنی من پسند گالیوں سے نوازیں پھر چاہے بعد میں معافی مانگ لیں ان تمام بکواس پر ان کی سرپرست یعنی ہماری اسٹبلشمنٹ خاموش رہتی ہے ریاست کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے اور پھر جب یہی چہیتا جب خود ان کے بارے میں یہ کہہ کہ یہ ۔۔تھے ۔۔تھے ہیں اور۔۔تھے ہوجائینگے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ جس کو ہم نے زبان دی بلکہ زبان درازی کے مواقع فراہم کیے آج وہ ہمارے ہی منہ کو آرہا ہے تب احساس انگڑائی لیتا ہے اور پھر اتنے بڑے لیڈر کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی جاتی ہے ۔

بعض گھرانوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سب سے چھوٹے بچے سے بہت لاڈ کیا جاتا ہے اس کے اگر کبھی اپنے بڑے بھائی سے کسی بات پر لڑائی ہو جاتی تو باپ چھوٹے بیٹے کو کہتا کہ جوتا اٹھا اور اس کے منہ پر مار یعنی وہ چھوٹے لڑکے سے بڑے لڑکے کو پٹواتا ہے پھر جب وہی لاڈلا بیٹا جوان ہو جاتا ہے ایک وقت آتا ہے اپنے باپ کو مارتا ہے میں نے خود ایسے واقعات دیکھے ہیں جس میں بیٹوں نے اپنے باپ کو مارا ہے اس وقت باپ کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے بے جا لاڈ و پیار نے یہ دن دکھایا ہے بالکل اسی طرح ہماری اسٹبلشمنٹ نے سندھ کے شہری علاقوں میں اپنی لاڈلی تنظیموں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کر انھیں شے دی کہ بڑی سیاسی جماعتوں کو جتنا مار سکتے ہو مارو اور ہر انتخاب کے موقع پر انھیں کھلی چھوٹ دی کے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر مسلح قبضہ کر کے دینی جماعتوں کے مینڈٹ کو جتنا چرا سکتے ہیں چرا لیں انھیں کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے ۔بے جا لاڈ وپیار کی وجہ سے جب بچے بگڑجاتے ہیں تو انھیں باہر کی صحبت بھی خراب ملتی ہے بلکہ بعض کو تو ایسے لوگ یا مافیائیں مل جاتی ہیں جن کے پے رول پر وہ کام کرتے ہیں اس چیز سے شے پاکر وہ اپنے باپ کے سامنے بھی جوتا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری بعض لسانی تنظیموں کو ایسی بین الاقوامی ایجنسیوں کی اشیرباد مل جاتی ہے جن سے شے پاکر وہ اپنی ملکی ریاست کے سامنے تن کر کھڑے ہوجاتے ہیں ،اس وقت اسٹبلشمنٹ کو خیال آتا ہے کہ اب انھیں کٹ ٹو سائز کیا جائے ۔

یہ جو فیکٹری کے 259مزدور جلائے گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ رحمن بھولا نے کیمیکل چھڑک کر آگ لگایا تھا کیا ایم کیو ایم قاتل ہے ۔نہیں اس سانحے کے مقتولوں کا قاتل بھولا ہے نہ ایم کیو ایم یہ دراصل آلہ قتل ہیں اصل قاتل تو کہیں سات پردوں کے پیچھے چھپے ہیں جنھیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ان مظلوموں کے قاتل امریکن سی آئی اے والے بھی ہو سکتے ہیں موساد اور ایم آئی سکس کے اندر بھی ہو سکتے ہیں بھارت کی را کا معاملہ تو صاف ظاہر ہے پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا ہوا ملک ہے ہمارے دشمن یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ درندوں کا ملک ہے جو اپنے ہی جیسے انسانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں ۔منگل کے دن اے آر وائی کے پروگرام کھرا سچ میں مبشر لقمان نے ہندوستان کی حکومت کی طرف سے ایک بھاری رقم کراچی کی لسانی تنظیم کو دینے کا الزام لگایا ہے یہ پیسے ایسے ہی تو کوئی نہیں لٹاتااس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو ہماری وہ سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں جو سب کچھ جاننے کے باوجود کہ کون کیا کررہا ہے اور یہ کہ خود ان کی پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں کے قتل کا الزام ان کے کراچی کے صدر عبدالقادر نے اس تنظیم پر لگایا ہے اسی تنظیم کو وہ حکومت میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں ۔

عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گھر بناتی ہے لیکن اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا اس کی مثال اس طرح دی جاتی ہے کہ جب وہ بچپن میں اپنے ماں باپ کے گھر ہوتی ہے اور کسی چیز کے لینے پر اس کا اپنے بھائی سے جھگڑا ہوتا ہے تو اس کی ماں اسے ڈانٹتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ کیا تو اپنے خصم(شوہر)کے گھر سے لائی تھی اس وقت اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اس کا گھر نہیں ہے بلکہ یہ اس کا اصل گھر کوئی اور ہے ۔اور جب وہ اپنے سسرال میں ہوتی اور کسی بات پر ساس سے جھگڑا ہوتا ہے تو اس کی ساس طعنہ دیتی ہے کہ یہ کیا تو اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی ۔اس وقت اسے احساس ہوتا ہے کہ جب ماں کے گھر تھی تو شوہر کے گھر کا طعنہ دیا جاتا تھا اور جب شوہر کے گھر ہے تو باپ کے گھر کا طعنہ سننے کو ملتا ہے ،والدین کے گھر ہوتی ہے تو ماں باپ اور بھائی بہنوں کی خدمت کرتی ہے اور جب شوہر کے گھر ہوتی ہے تو شوہر اور سسرال والوں کی خدمت کرتی ہے دونوں گھروں کو سجانے اور بنانے کے باوجود وہ سوچتی ہے کہ اس کا کوئی گھر نہیں ہے اور ساری زندگی وہ اسی خوف اور احساس محرومی میں گزار دیتی ہے ۔

ہمارے ایک نانا (والدہ کے ماموں)تھے وہ بات بات پر پاکستان کے نقائص گنواتے تھے ایک دفعہ تنگ آکر میں نے کہا کہ جب پاکستان میں اتنی برائی تھی آپ آئے کیوں وہیں ہندوستان میں رہتے انھوں نے کہا کہ جب پاکستان بن گیا تو ہندو ہمیں طعنہ دیتے تھے کہ تم جاؤ اب اپنے ملک پاکستان کیوں نہیں جاتے اس لیے ہمیں آنا پڑا ۔بہر حال دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور لاکھوں جانوں کے نذرانے اور ہزاروں عصمتوں کی قربانیاں دے کر آگ اور خون کے دریا پار کرکے کئی لاکھ افراد پاکستان آئے جس میں زیادہ تر لوگ کراچی اور حیدرآباد کی طرف آئے ہندستان سے جو لوگ ہجرت کر کے آئے وہ اپنے ساتھ فہم و شعور کی ایسی اور اتنی دولت لے کر آئے جس نے اس نوزائیدہ ملک کے مستقبل کو تابناک بنادیا جس ملک کے بارے میں یہ پیشن گوئی کی جاتی تھی کہ یہ چند برسوں میں ختم ہو جائے گا وہ نہ صرف قائم و دائم رہا بلکہ مزید مستحکم بھی ہوا ۔قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہجرت کر کے آنے والوں نے ملک کا نظم و نسق بڑے نا مساعد حالات میں حکمت و تدبر سے چلایا شروع کے دنوں میں قناعت کی دولت سے مالا مال یہ طبقہ ایک ملک و ملت کی خدمت میں مصروف تھا تو دوسری طرف وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلاتا رہا جنھوں نے آگے چل کر اس ملک کا انتظام سنبھالنا تھا ۔

کراچی کے اردو داں طبقے کو دارالخلافہ کی تبدیلی کے جھٹکے کے بعد دووسرا بڑا گہرا شاک جو 1972 میں لگا وہ صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ تھا جس نے صوبے کی سیاسی ،سماجی اور معاشی حالات پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے سندھ کے شہری نوجوانوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے میرٹ کا قتل عام ہونے لگا جس کے نتیجے میں سندھ کے شہری نوجوانوں میں شدید قسم کی احساس محرومی نے غصہ،جھنجلاہٹ اور مایوسی کو جنم دیا جس کی انتہا نے ایم کیو ایم کوجنم دیا سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں نے جھولی بھر کر ووٹ اور نوٹ دیے لیکن 1985سے 2015تک تیس سال کے عرصے میں سندھ کے شہری نوجوانوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہوتے چلے گئے ہزاروں نوجوان آپس کے جھگڑوں میں موت کے منہ میں چلے گئے ہزاروں روپوش ہوگئے اور ہزاروں مقدمات کے بوجھ تلے دب گئے ۔یہ ایک بڑی دلخراش داستان ہے -

آج سندھ کے اردو بولنے والے لوگ ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انھیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ایم کیو ایم نے تو انھیں کہیں کا نہیں رکھا ایک زمانے میں مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر ،حسرت موہانی ،خواجہ ناظم الدین ،علامہ اقبال ،اور قائد اعظم جیسی نابغہ روزگار شخصیتیں ہمارے لیڈر ہوا کرتے تھے آج ہمارے لیڈر لنگڑے لولے اور کن کٹے ہو گئے ہم جب تک دینی جماعتوں کے ساتھ وابستہ تھے تو اتنی پریشانیاں نہیں تھیں جتنی آج ہیں ۔لیکن پھر وہ اس خوف کا بھی شکار ہیں کہ چاہے قاتل اور بھتہ خور سہی ،ظالم اور سنگدل سہی ،منہ پھٹ اور بدتمیز سہی ہماری ایک آواز تو ہے اگر یہ بھی نہ رہی تو پھر ہمارا کیا بنے گا ۔

جس طرح پہلے کہا گیا کہ عورت گھر بناتی ہے لیکن اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا اسی طرح آج کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم ملک بناتے ہیں اور کوئی ملک ہمارا نہیں ہوتا ہندوستان سے اس لیے نکالا گیا تھا کہ جاؤاب تمہارا ملک الگ ہے اور یہاں آئے تو مکڑ کا خطاب ملا ۔ایم کیو ایم پر جو آزمائش آئی ہوئی ہے یہ اس کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے قران ہمیں بتاتا ہے کہ بڑی بڑی عظیم الشان قومیں مکافات عمل کا شکار ہوئیں ہیں ۔اس تنظیم کو ایک بہت اچھی قوت فراہم ہوئی تھی ان کے رہنما چاہتے تو نوجونوں کی اس قوت کو اچھی اور تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کر سکتے تھے ۔

مایوسی کی کوئی بات نہیں بر صغیر ہند و پاک میں خلافت تحریک سے لے کر تحریک پاکستان تک چلی ہے اور جو قومیں نظریاتی تحریکیں برپا کرتی ہیں وہ کسی زمین یا خطہ کی محتاج نہیں ہوتیں برصغیر کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ملک حاصل کرنے کی جو تحریک تحریک پاکستان کے نام سے چلائی تھی ان کی اولادیں آج پاکستان میں اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان اور تکمیل پاکستان کی تحریکیں چلانے کے لیے دینی جماعتوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لیے آمادہ اور تیار ہیں اس لیے ایسے ہی مجاھدین کے لیے شاعر اسلام جناب علامہ اقبال نے کہا ہے کہ مسلم ہیں ہم سارا جہاں ہمارا ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.