30مارچ 2003 اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

عافیہ کی بارہ برس قید مکمل ہونے پر اک تحریر
امی جان ، پہلے آپ میری بات غور سے سنیں ، کل رات کو میرے خواب میں حضورﷺ تشریف لائے تھے، اس وقت میرے ٹوٹے ہوئے دانتوں میں بہت تکلیف تھی، آپ ﷺ میرے قریب آئے اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا ، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمانے لگے کہ تمہیں یاد ہے کہ غزوہ احد میں کفار کے حملے میں ، میرے دانت بھی ٹوٹ گئے تھے ، آج تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ، کافروں نے تمہارے دانت بھی توڑ دیئے ہیں،تم میری بیٹی ہو، تمہاری سب تکلیفیں جلد دور ہوجائینگی۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر مجھے معلوم نہیں ہوا ۔ امی جب میں صبح اٹھی تو میرے توٹے ہوئے دانتوں میں کوئی تکلیف نہیں تھی۔

یہ ایک خواب تھا جو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے برسوں قبل دیکھا اور اس کا ذکر اپنی والدہ عصمت صدیقی سے فون پر کیا۔ چند روز قبل جب عافیہ کے گھر جانا ہوا تو ان کی والدہ عصمت صدیقی سے ملاقات ہوئی ،بیمار جسم کے ساتھ اپنے گھر کے صحن میں واکر کے سہارے چہل قدمی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، لفظ چہل قدمی کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ دراصل اپنی بیٹی عافیہ کا انتظار کر رہی تھیں زیادہ مناسب ہوگا۔ بالکل ایسے جس طرح کسی اسکول سے بچہ لیٹ ہوجائے اور اس کی والدہ گھر میں بے چینی کے عالم میں ٹہلتی ہوں، رات دیر سے گھر آنے پر والدہ اپنے بچوں کیلئے بے چین ہو ۔ اس سمعے مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا کہ عصمت صدیقی صاحبہ اپنی بیٹی عافیہ کے انتظار میں اپنے بیمار جسم کے ساتھ انتظار کر رہی ہوں۔ان سے سلام اور ان کی مزاج پرسی کی اسی دوران عافیہ کا ذکر آگیا ، انہوں نے اک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنے آسماں کی جانب دیکھا ، اس کے بعد اپنے گھر کا جائزہ لیا پھر ہماری جانب دیکھتے ہوئے نم ناک آنکھوں کے ساتھ گویا ہوئیں بیٹا مجھے اب اﷲ ہی سے امید ہے وہی عافیہ کومجھ سے ملوائے گا۔ سارے لیڈروں کو دیکھ لیا ، سب کو آزمالیا بس اب اﷲ ہی آخری آسراہے وہ ہی اس کو باعزت رہائی دلواکر مجھ سے اور اپنے بچوں سے ملوائے گا۔

اس کے بعد انہوں نے عافیہ کے مختلف قصے سنانے شروع کر دیئے، ایک قصہ ، دو تین پھر چار قصے تھے وہ سنائے جارہی تھیں ، ہر قصے پر وہ کبھی جذباتی ، کبھی روہانسی ، کبھی نمدیدہ اور کبھی مسکرادیتیں۔ اس دوران ہم نے ان سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے سنی ان سنی کردی اور عافیہ کی باتیں ، عافیہ کے قصے سنانے میں مگن رہیں۔سنتے سنتے ہمیں تھکن کا سا احساس ہونے لگا لیکن وہ اس وقت عزم کا پہاڑ بنی کھڑی رہیں۔ اس وقت ایسا لگ ہی رہا تھا کہ وہ بیمار ہی نہیں ۔ سچ کہتے ہیں انسان کا دل مطمئن ہو ، مسرور ہوتو اسے ویروانوں میں بھی گیت ہی سنائی دیتے ہیں ، اسے سب اچھا اچھا سا لگتا ہے اک گمنا م سی خوشی کا سا احساس ہوتا ہے۔وہ احساسات ، جذبات اس وقت عصمت صدیقی کے پر نمایاں دیکھے جاسکتے تھے ، اگر اس وقت انہیں کوئی ایسا فرد دیکھتا جو یہ جانتا کہ اس عورت کی بیٹی بارہ برسوں سے اس سے دور ہے ، اس کا ایک بیٹا لاپتہ ہے ، اسے ۸۶ برس ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے جس میں سے کئی برس گذر بھی چکے ہیں،تووہ شخص اس بات کا یقین نہ کرتا ، کیونکہ وہ اس انداز میں اپنی بیٹی کا ذکر کئے جارہی تھی جیسے بیٹی قریب ہی کسی اسکول میں ہو، ہم نے انہیں بارہا کہا کہ آپ تھک جائیں گی آپ بیٹھ جائیں ، آرام کرلیں لیکن وہ تھیں کہ بس عافیہ عافیہ عافیہ

اپنی تحریرکا آغاز عصمت صدیقی صاحبہ کے بتائے ہوئے اس خواب سے کیا جو عافیہ نے برسوں قبل دیکھا تھا اور اس کا ذکرانہوں نے اپنی والدہ عصمت صدیقی سے کیا تھا، ان کی باتیں جاری تھیں اور میری نظروں کے سامنے اس وقت عافیہ کے کراچی سے اغوا ، پھر افغانستان اور پھر امریکہ میں ان کے حوالے سے آنے والی اطلاعات تھیں، ان کی رہائی کیلئے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جدوجہد آزادی کی طویل داستان تھیں، احمد ، مریم تھے ۔احمد جنہوں نے کچھ عرصہ قبل قرآن کو حفظ کیا ، اس کے ساتھ دنیاوی تعلیم میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، مریم جو اب بالکل اپنی ماں کی کاپی لگتی ہیں، اس کے ساتھ وہ معصوم سلیمان جو نجانے کہاں ہے، زندہ بھی یا نہیں۔ یہ سب ایک ایک کر کسی فلم کی طرح نظر آرہے تھے ، ان کے ساتھ پھر وہ ہستیاں بھی جو عافیہ کو اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، پرویز مشرف ہوں ، قصوری ہوں ، یا قریشی و حقانی ، ان کے بعد حکومت کرنے والے زرداری ہوں گیلانی ہوں یا موجودہ دور کے میاں نواز شریف ، جن کی اپنی لاڈلی بیٹی کا نام بھی مریم ہے، انہوں نے تو بارہا عافیہ کی والدہ اور ان کے بچوں سے وعدہ کیا کہ وہی عافیہ کو امریکہ سے لے آئیں گے لیکن افسوس انکی یہ ساری باتیں بھی سابقہ وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک کی طرح ثابت ہورہی ہیں۔ اک نا ختم ہونے والی فلم تھی ۔ ۵۵ سے زائد ممالک اور ان میں بسنے والے ایک ارب سے زائد مسلمان ایک عافیہ کو کفار کی قید سے چھڑانہیں سکتے ، کیوں ؟ کوئی جواب نہیں، اس سوال پر سبھی کی زبانوں پر تالے آجاتے ہیں ، ان کی گھگیاں بند جاتی ہیں۔ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، ہاں شاید اسی وجہ سے اس وقت عافیہ کی والدہ نے آسماں کی جانب دیکھ کر کہا تھا کہ اب ﷲ ہی سے امید ہے ، سب کو دیکھ لیا ۔

میرا یہ سوال ہر ذی شعور انسان سے خواہ وہ کوئی بھی ہو ، کسی بھی رنگ و نسل و مذہب سے متعلق ہو ، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج اگر اس عافیہ کی جگہ ان کی اپنی بہن یا بیٹی ہوتی تو وہ کیا کرتے ؟؟؟سوچیں اور حوب سوچیں جواب اگر ہوں تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ کو جواب دے دینا اور اگر نہ ہو تو روز آخرت میں اس وقت کیلئے تیار رہنا جب عافیہ ایک جانب ہوگی وہ کہے گی کہ اس نے میری رہائی کیلئے کچھ نہیں کیا ، وہاں منصف آج کے جج نہیں ہونگے وہاں منصف اﷲ ہوگا اوریہ بات یاد رہے کہ اﷲ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا ۔
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162374 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More