ٹی بی قابل علاج

24مارچ کو ٹی بی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس بیماری کے بارے میں عوام الناس میں آگہی پیدا کرنا ہے اس مرض کی تاریخ تو بہت پرانی ہے ۔ بابائے طب بقراط نے 370سے 470 قبل مسیح کے درمیان اسے تشخیص کیا طب کی کتابوں میں ایک ہزار پانچ سو سال قبل اس کی شہادت ملتی ہے اس دور میں زیادہ تھکاوٹ،بھوک اور سینے کی تکلیف سے منسوب کیا جاتا تھا۔ 1689ء میں پھیپھڑوں کی ٹی بی کی باقاعدہ تشخیص کی گئی۔ٹی بی مریضوں کے لئے پہلا سینی ٹوریم پولینڈ میں 1859ء میں قائم کیا گیا۔ 1882ء میں رابرٹ کاکس نے ٹی بی کا جرثومہ دریافت اور تشخیص کیا جس پر اسے1905ء میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔1906ء میں ٹی بی کے لئے ویکسیئن دریافت کی گئی لیکن بی سی بی ویکسئین کا باقاعدہ استعمال1921 ء میں شروع کیا گیا۔

ٹی بی کی علامات میں کھانسی اہم علامت ہے۔تین ہفتوں سے زائد کھانسی کا برقرار رہنا اور عام ادویات سے ٹھیک نہ ہونا۔کھانسی کے ساتھ بلغم اور خون کا آنا،وزن کا بتدریج کم ہونا،بھوک کا کم ہونا،شام کے وقت ہلکا سا بخار اور پسینے کا آنا۔اس طرح کے حالات میں فوری ہسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔ ٹی بی کی تشخیص کے لئے مختلف ٹیسٹ کئے جاتے ہیں،مونٹوکس جلد میں ایک انجکشن لگایا جاتا ہے۔ 48سے72گھنٹوں میں اس جگہ پر گلٹی بن جاتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ مریض میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں۔IGRAٹیسٹ خون کے ذریعے جسم میں مدافعاتی نظام چیک کیا جاتا ہے۔ایکسرے کے ذریعے پھیپھڑوں کی ہڈیوں میں ٹی بی کی تشخیص کی جاتی ہے۔

تمام تر کوششوں کے باوجودترقی پذیر ممالک میں ٹی بی کے مریضوں کی شرح زیادہ ہے۔متعدی مرض ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے میں پھیلتی جاتی ہے لیکن مکمل اور بروقت علاج سے قابو پایا جاسکتا ہے ملک بھر کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات دستیاب ہیں جو کہ انٹر نیشنل ڈونرز مہیا کرتے ہیں۔ٹی بی قابل علاج ہے کی عوام میں آگہی کے لئے کئی این جی اوز کام کرتی ہیں جنہیں انٹر نیشنل ڈونرز ہی سپانسر کرتے ہیں ۔ٹی بی سے مکمل نجات کے لئے آٹھ ماہ کا کورس مکمل کروانا بہت ضروری ہے جس میں اچھی خوراک بھی اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے غربت کی وجہ سے اچھی خوراک جس میں گوشت،انڈا،مچھلی اور پھل خریدنا بہت مشکل ہے مفت ادویات تو دستیاب ہیں لیکن مناسب خوراک کا کوئی بندوبست نہیں اس وجہ سے بھی اینٹی ٹی بی آرگنائزیشن مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکیں اس کے علاوہ انٹرنیشنل ڈونرز کی طرف سے ملنے والی بھاری امداد مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کی بجائے این جی اوز کے مالکان،اہلکاران اور محکمہ صحت کے افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں حالانکہ سب کو پتہ ہوتا ہے یہ چیریٹی کا پیسہ ہے ۔اس کے باوجود اس پر ہاتھ صاف کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ٹی بی کے مریض علامات ظاہر ہونے کے باوجود داکٹر سے رابطہ نہیں کرتے اگر رابطہ کرلیں تو مکمل ٹیسٹ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے تشخیص میں بھی مشکلات ہیں۔تشخیص ہوجائے تو اکثر مریض علاج ہی شروع نہیں کرواتے ۔شروع کرواتے ہیں تو درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں اس وجہ سے کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں ٹی بی کے مرض پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکااوراس وقت ٹی بی کے مریضوں کی تعداد8لاکھ ہے جس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اچھی رہائش اور مناسب خوراک حسب ضرورت مہیا نہیں تنگ و تاریک اور گنجان آباد علاقے بھی اس مرض کے فروغ کی بڑی وجہ ہیں جہاں آکسیجن اور سورج کی روشنی کی کمی ہوتی ہے جبکہ ٹی بی کا جرثومہ سورج کی روشنی اور حرارت سے ختم ہوجاتا ہے اورتاریکی میں پرورش پاتا ہے۔حکومت کو ملک کے مخیر حضرات کے تعاون سے ٹی بی کے مریضوں کے لئے ادویات کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک کا بھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ہمارے ملک میں روز بروز بڑہتے ہوئے مریضوں کی تعداد کویورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی سطح پر لے آئیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 19397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.