سرسید احمد خان۔ ایک عہد ساز شخصیت

( 5ذی الحج1232ھ؍17۱کتوبر 1817 ۔ 5 ذی قعدہ1315 ھ؍27 مارچ 1898)
سر سید پر لکھنے کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق کا کہنا تھا کہ ’اس عہد اور ماحول کو پیش نظر رکھ کر سرسید کی زندگی کے کارناموں کی صحیح تصوریر کھینچنا بڑی محنت اور فرصت کا کام ہے اور شاید میں اس کام کا اہل بھی نہیں‘۔ایک ایسا شخص جسے کئی سال سرسید کو قریب سے دیکھنے ، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہو ، لکھنے کی عمدہ ترین استطاعت رکھتا ہو اور پھریہ کہ وہ سرسید کے مداح اور ان کے خیالات و نظریات سے ہم آہنگ بھی ہو اپنے آپ کو سرسید جیسی شخصیت پر لکھنے کا اہل نہیں سمجھ رہا تو مَیں کیا میری بساط کیا ، نہ ہی یہ میرا مقام ہے کہ میں علم کے اتنے عظیم مدبر، مصلح، مصنف، ھَمَمہ داں و ھمہ صفت، رہبرو رہنما، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ، جدید علم کی ترسیل و تبلیغ کے مُخترع،ایک نقطہ نظر و تحریک کے مبدع شخصیت پر قلم اٹھاؤں۔ لیکن یہ بھی دستور ہے زمانے کا ، لکھاریوں کا، مورخین کا کہ وہ بساط بھر حصہ ڈالتے ہیں عظیم شخصیات کی عظمت کو اور زیادہ عظیم کرنے میں حالانکہ وہ تو پہلے ہی عظمت کی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح عظیم لوگوں کو دیکھ لینا عظمت ہے اسی طرح عظیم شخصیات پر اپنی بساط کے مطابق قلم کی روشنی کو روشن چراغ کے ایندھن میں شامل کر لینا ہی مجھ جیسے ھیچ مدان کے لیے بڑی بات ہے۔ مَیں تو علم و عمل کے اس کلاں کو ان کی 117ویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں۔سر سید احمد خان جو 1817کو دہلی میں پیداہوئے تھے 27مارچ 1898کو دنیاسے ہمیشہ ہمیشہ کے رخصت ہوئے۔ سر سید کو جدائے ہوئے سو سال سے زیادہ ہوگئے لیکن وہ مسلمانوں کے دلوں میں آج بھی موجود ہیں۔ ان کا علمی و تحریری سرمایا ہماری رہنمائی و رہبری کے لیے آج بھی موجود ہے۔کسی شاعر نے سرسید کے لیے کیا خوب کہا ؂
صورت سے عیاں جلالِ شاہی
چہرے پہ فروغ صبح گاہی
وہ ریشِ دراز کی سُپیدی
چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی

سرسید جنہوں نے کمشنر کے دفتر میں نائب منشی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ذہین تھے منشی ہوگئے ، پھرمنصفی کے امتحان میں شریک ہوئے کامیاب قرار پائے اور منصف (جج)بن گئے ۔ انصاف پسند ، نڈر ، بے باک ، اپنے فیصلے پر قائم رہنے والے تھے چنانچہ بے شمار مخلوق کو انصاف فراہم کیا۔ اﷲ نے سرسید سے اس کے علاوہ بھی بہت سے کا م لینا تھا ۔ 1876میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور علی گڑھ کو اپنا مرکز و منبع بنایا۔ امپیریل کانسل کے رکن ، ایجوکیشن کیمشن کے رکن اور پبلک سروس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سرسید بنیادی طور پر مصنف تھے ، سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے لکھنے کا آغاز کردیا تھا اور کئی کتابیں بھی لکھ چکے تھے۔ اسی زمانے میں انہیں یہ احساس ہوگیاتھا کہ سرکاری ملازمت ان کے اصل مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ حالانکہ حکومت ان کی ایمانداری، سچائی، محنت سے کام کرنے کی دل سے قدر داں تھی یہی وجہ ہے کہ حکومت نے انہیں ’سر‘ کے خطاب سے نوازا اور اسی حوالے سے وہ ’سر سید‘ کے نام سے معروف ہوئے حالانکہ ان کا اصل نام ’احمد ‘ ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ محسوس کر لیاتھا کہ وہ آیندہ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس میں سرکار انہیں برداشت نہیں کرے گی چنانچہ انہوں نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور آزادی سے تصنیفی، تالیفی اور علم کے فروغ کی تحریک میں اپنی زندگی وقف کردی۔

سرسید ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں جو کچھ لکھا وہ تو اپنے جگہ معیار و تعداد کے اعتبار سے منفرد ہے مسلمانوں میں علم کے حصول کی جو تحریک انہوں نے شروع کی اور انگریزی سیکھنے کا مشورہ دیا اس کی بنیاد بنا کر انہیں فتووں اور کافروں کا ساتھی قرار دیا گیا لیکن یہ مرد آہن ، استقامت پہاڑ ثابت قدمی کے ساتھ، لوہے کی لاٹھ اور چٹان کی طرح مضبوطی سے اپنے موقف پرڈٹا رہااور کامیاب و کامران رہا۔ ایک وقت آیا کے لوگوں نے سرسید کی خیالات کی و نظریات کی نہ صرف تائید کی بلکہ انہیں وقت کی ضرورت قرار دیا اس طرح سرسید نے مسلمانوں کے لیے حصول علم کی جو تحریک شروع کی تھی اس میں وہ تنہا نہیں رہے بلکہ بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہمنواا ور ساتھی بن گئے۔ان کی مثال اس شعر کی مانند ہے ؂
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اپنے نظریے کو عام کرنے ، اپنی بات کو سمجھانے اور مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے سرسید نے اپنی تحریروں کا سہارا لیا۔ ان میں تصانیف و تالیفات بھی ہیں اور اخبارت و رسائل میں شائع شدہ مضامین بھی۔وہ مسلسل لکھتے رہیے اور چھپتے رہے۔ ان کی حیثیتوں کا تعین کرنا کہ ان کی خدمات میں سے سے زیادہ کسے مقدم رکھا جائے مشکل ہے۔ وہ ہمیں منصف بھی نظر آتے ہیں، وہ مذہبی مصلح بھی دکھائی دیتے ہیں،جدید علم الکلام کی بنیاد ڈالی جس کی بناء بپر قرآن مجید کے مندرجات کو عقل و سائنس کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا، قومی رہنما تو وہ تھے ہی، تعلیمی خدمات میں انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ترقی کرنی ہے تو علم حاصل کرو ۔ سر سیدبلا تفریق ہندوستان کے تمام لوگوں بشمول ہندو اور مسلمانوں کو یکساں تعلیم حاصل کرنے کے خواہ تھے۔ ا س دور میں وہ دونوں قومیتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے تھے ۔ پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے مسلمانوں کو خاص طو ر پر تعلیم حاصل کرنے اور وہ اردو زبان کے لیے سوچنے لگے۔ سرسیدانگریزی کے علاوہ فارسی، عربی اردو ز ساتھ ہی دینی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ انہوں نے مسلمان مفکرین کے خیالا ت و نظریات کا مطالعہ کیا خاص طو رپر صحابی، رومی اور غالب ؔ کو پڑھا۔ سرسید جو دیکھنے میں مولوی لگتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں دینی علوم پر بے انتہا دسترس حاصل تھی وہ ایک اچھے تیراک، پہلوانی کے ماہر اور دیگر کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔

انہوں نے مغلیہ دور کی عدالتوں کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی ہے وہ اپنے دور کے بڑے اور اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے انتہائی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے ، اور اپنے پیچھے نادر و تحقیقی مضامین اور بلند پایہ مقالات کا یک عظیم ا لاشان ذخیرہ چھوڑا گئے۔سر سید کے مضامین میں حقا ئق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاقیات بھی ہے موعظمت بھی، مزاح بھی ہے طنز بھی، درد بھی ہے سوز بھی، دلچسپی بھی ہے دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے سرزنش بھی الغرض ان کی تحریریں ہر موضوع پر لکھنے اور تحقیق کرنے والے کے لیے رہنما ئی کا بہترین ماخذ ہیں۔ جہاں تک ان کی تصانیف و تالیفات کا تعلق ہے وہ تعداد اور معیار کے اعتبار سے مختلف شعبہ جات میں رہنما ئی کررہی ہیں ان کی تصانیف و تالیفات میں ’تسہیل فی جر ثقیل‘1844، یہ کتاب ابو علی کے رسالے معیار الحق کا ترجمہ تھا، ’آثار الصنفادید‘1847،’قول متین در ابطال حرکت زمین‘1848اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن بعد میں سر سید یورپین فلسفہ کہ زمین سورج کے گومتی ہے کے قائل ہوگئے تھے۔ یہ تصانیف سرسید کی سائنسی موضوعات سے دلچسپی ظاہر کرتی ہیں، رسالہ راہ سنت و بدعت ‘1850،سلسلہ الا مملوک 1852، ’آئین اکبری‘ 1855، ’اسباب بغاوت ہند‘1858’سرکشی ضلع بجنور‘1858،’تبئین الکلام فی تفسیر التورات و انجیل‘1862،’تبئین الکلام (بائیبل کی تفسیر)1863،’تزک ِ جہانگیری‘ 1864،رسالہ احکام طعام اہل کتاب ‘1868،’انگریزی میں تاریخ بغاوت بجنور‘1869،’الخطبات الااحمدیہ‘1870،’رسالہ تہذیب الا خلاق‘ کا اجراء 24دسمبر1870سے شروع ہوا،’On Hunter's our Indian Musalmans‘، 1872یہ کتاب ڈاکٹر ھنٹر کی کتاب کا جواب تھاجس میں ھنٹر نے مسلمانوں اور وہابیت کے بارے میں بھی لکھا تھا۔’بغاوت ہند 1858کے اسباب(انگریزی)، 1873، ’ذلا القلب ِ ذکر الا محبوب ‘1879،’ازالہ الاذولا قرنین ‘ 1889،’طرقیم فی قصہ اشب الکہاف والا راقم‘1889’خلاق الاانسان الاما فی القرآن‘1891,’تفسیر الاجن والاجنا ن الامافی اقرآن‘1891،’ابتالِ غلامی‘ 1893،جس میں سر سید نے ثابت کیا کے غلامی قدرت کے خلاف ہے اور آزادی اور غلامی دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔’صراط فریدیہ‘1896,،’انتخاب الا خوانین یعنی قواعد دیوانی کا خلاصہ‘، تاریخ فیروز شاہی،کلمتہ الحق، تحقیق لفظ نصاریٰ، ’خلاق الا انسان الامافی القرآن ‘قرآن کی تفسیر ستھرویں پارے تک لکھ پائے تھے کہ
انتقال ہوگیا،اخبار ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ‘ کے نام سے جاری کیا۔

الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیات جاوید ‘‘ میں لکھا کہ سر سید احمد خان نے اپنی کتاب ’آئینِ اکبری‘ ۱۸۵۵ء میں مکمل کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جو ان کی اس علمی کا وش اور محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ سر سید نے مرزا غالبؔ سے رابطہ کیا کہ وہ اس کتاب کی تقریظ (اس وقت کی روایت کے مطابق ثنائیہ پیش لفظ) تحریر کردیں۔غالبؔ نے سر سید کی حوصلہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی کاوش کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا ۔ غالبؔ نے کتاب کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے طور پر ایک اصلاحی نظم لکھی جو فارسی میں تھی۔سرسید نے اس تقریظ کو آئین اکبری میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ نظم سر سید کی کتاب آئینِ اکبری‘ کا پیش لفظ یا تقریظ ضرور ہے لیکن اس کتاب کا حصہ نہیں۔ یہ دیباچہ یا مثنوی تعریفی نہیں بلکہ اس میں مصنف کی سرزنش بھی کی گئی اور بہت سے مفید مشورے غالبؔ نے سرسید کو دئے۔ دیباچہ نگاری کے سفر میں یہ اہم پیش رفت تھی اور غالب ؔ کی جانب سے دیباچہ نگاروں کو یہ پیغام بھی تھاکہ دیباچہ یا تقریظ صرف ثنائی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اصلاحی یا تنقیدی بھی ہوسکتی ہے۔

سر سید کا شمار ایسے ذہین اشخاص میں ہوتا ہے کہ جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہی نہیں بلکہ طبعی طو ر پر ذہین ہوتے ہیں۔ وہ جدید علم الکلام کے خالق تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کو ، نظریات کودلائل کے ساتھ، علم و فراست کی روشنی میں، قرآنی موضوعات کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیان کرنے کے لیے تحریر کاسہارا لیا۔ وہ زبانی جمع خرچ کرنے والے انسان نہ تھے بلکہ ایک پریکٹیکل انسان تھے جو بات کہنا چاہتے اپنی تحریر کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا تے۔ وہ انسان کی بھلائی اور بہتری کے خواہش مند تھے۔ مسلمانوں کی ترقی اور آگے بڑھنے کے خواہش مند تھے۔ اس کے لیے انہوں نے بھر پور طریقے سے اپنے قلم کا سہارا لیا، اسے استعمال کیا اور کامیاب و کامران ہوئے۔ علی گڑھ تحریک کا فیض سے سے دنیا ایک طویل عر صے تک فیض حاصل کرتی رہے گی۔ سرسید کے قائم کردہ اداروں سے فیض حاصل کرنے والوں نے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ علی گیرین ہونا ایک اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ سرسید ہماگیر اور کثیرالا قسم خصوصیات اور اوصاف کے حامل تھے ۔ ایسے لوگ دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں۔(26مارچ2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261065 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More