تلاش راہ ۔ ۔ ۔ایک مطالعہ

 طارق محمودمرزا سالہا سال سے دیار غیر میں مقیم ہیں ٗ مگر بہت سے دیگر لوگوں کی طرح ان کا دل بھی اپنے وطن میں ہی رہتا ہے ۔ وہ اپنے دیس سے محبت کرتے ہیں۔ انہیں باہر رہ کر اپنے وطن کی یاد قدم قدم پر آتی ہے۔جو انہیں تڑپاتی بھی ہے اور کبھی کبھی رُ لاتی بھی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وطن کی مٹی کی خوشبو اُن کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یورپ جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں رہ کر بھی وہ اپنے دینی عقائد ٗاپنی خاندانی روایات اور مشرقی اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔وہ اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں کہ جو باہر جا کر اُنہی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیتے ہیں اور پھر اُٹھتے بیٹھتے اپنے ملک اور یہاں کے نظام پر تنقید اور یہاں کے لوگوں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔یورپ کی روز افزوں ترقی اور چکا چوند اُ ن کی آنکھوں کو ضرور بھلی لگتی اورمتاثر بھی کرتی ہے ٗ مگراس سب کچھ کے باوجود وہ اپنے گاؤں کے مناظر اور اس کی کچی گلیوں کوکبھی نہیں بھولتے۔اپنے بچپن کے شب و روز ٗچھوٹی چھوٹی شرارتیں ٗ معصوم خواہشات اور خوشگوار یادیں وہ فخر سے بیان کرتے ہیں ۔کیوں کہ یہی تواُن کا سرمایہ حیات ہیں۔طارق محمود مرزا اپنی ان بہت سی خو بیوں اور منفرد صفات کی بدولت اپنے دوست احباب اور معاشرے میں ایک نمایاں اور خاص مقام رکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اﷲ تعا لیٰ نے ان کوتلاش و جستجو اور غور و فکر جیسی عظیم دولت سے بھی نوازا ہے۔ وہ ایک حساس دل بھی رکھتے ہیں۔قرطاس و قلم کے بھی شہ سوار ہیں۔ وہ اپنے جذبات و احساسات اور تجربات و مشاہدات کو اپنے خاص اسلو ب اور اندازمیں لوگوں تک پہنچا تے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں تن بیتی اور جگ بیتی کو شیئر کرتے ہیں۔اُن کے کردار ہی نہیں بولتے بلکہ بین السطور بھی وہ بہت کچھ کہتے جاتے ہیں۔ان کے کرداروں کے مکالمے اور الفاظ کی گہرائی اور گیرائی قاری کے سامنے نئے نئے در وا کرتی چلی جاتی ہے۔ درد دل رکھنے والے قارئین کے لئے جگہ جگہ غور و فکر کے سامان موجود ہوتے ہیں ۔منظر نگاری میں اُن کے جوہر خوب کُھل کر سامنے آتے ہیں ۔ وہ اپنے قارئین کو ساتھ لیے پھرتے ہیں اور کہیں بھی بور نہیں ہونے دیتے۔ یہ تمام مناظربطریق احسن ان کے سفر نامے ؛خوشبو کا سفر ؛اور ان کے افسانوں کے مجموعہ ؛تلاش راہ ؛ کے صفحات پر جا بجا ملتے ہیں۔

اُن کا سفر نامہ: خوشبو کا سفر:اس لحاظ سے منفرد بھی ہے اور ممتاز بھی ٗ کہ انہوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا سفراسی غرض کے لیے اختیار کیا تھا ۔ا ُ س سیاحتی سفر میں طارق مرزا نے جو کچھ دیکھا ٗمحسوس کیا اور جن جن افراد سے وہ ملے نیز جس قسم کے حالات و واقعا ت سے انہیں سابقہ پیش آیا ٗان سب کو کمال مہارت اور خوش اسلوبی کے ساتھ حوالہ قرطاس کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے سفر نامے میں حدت اور شدت کے ساتھ ساتھ سادگی و متانت بھی دکھا ئی دیتی ہے۔یورپ کے دلفریب مناظر اور ترقی و خوشحالی کے پہلو بہ پہلو نوجوان نسل اور بزرگوں کے درمیان دُوریاں اور معاشرتی و خاندانی مسائل کے تذکرے قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس تناظر میں کہیں وہ اسلام کی آ فا قیت اور کہیں اپنے پیارے وطن اور اپنے گاؤں کے بزرگوں کے تذکرے بڑے فخر کے ساتھ کرتے ہیں۔درد دل سے لکھی ہوئی تحریریں اور سوزو گدازمیں ڈوبی ہوئی کہانیاں اپنے قارئین سے ضرور داد پاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ: خوشبو کا سفر:کو علمی اور ادبی حلقو ں میں بھی زبر دست پذیرائی ملی ہے۔ اُ مید ہے کہ اُن کے لکھے ہوئے افسانوں کی کتاب : تلاش راہ:بھی قارئین سے داد سمیٹے گی۔

طارق محمود مرزا:تلاش راہ : کے پیش لفظ میں اپنا تعارف خود کراتے ہیں۔:یوں تو میں نے اخباری کالم ٗسماجی ٗ سیاسی ٗ معاشرتی ٗ فکائیہ اور طنز یہ مضامین ٗسفر نامہ ٗڈرامہ اور شاعری سمیت مختلف ادبی میدانوں میں طبع آزمائی کی ہے۔لیکن بنیادی طور پر میں کہانی نویس ہو ں۔ سب سے پہلے میں نے کہانیاں ہی لکھنا شروع کیا تھا۔میرے سفر نامہ یورپ خوشبو کا سفر میں بھی روایتی سفر ناموں سے ہٹ کر مختلف کردار اور کہانیاں شامل ہیں۔جس سے یہ سفر نامہ عام سفر ناموں سے مختلف اور مقبول ثابت ہوا۔کہانی اصناف ادب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور سب سے قدیم صنف ہے۔جب کتابیں نہیں ہوتی تھیں ٗتو اُس وقت بھی کہا نیاں سنی اور سنائی جاتی تھیں۔جو صدیوں تک سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل آگے منتقل ہوتی رہتی تھیں۔اب بھی بڑی بوڑھیوں کے پاس بیٹھ کر ایسی کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔جو کسی کتاب میں نہیں ملتیں۔شاید اسی لئے بر صغیر پاک و ہند کے نامورافسانہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ میں نے کہانی نویسی اپنی دادی سے کہانیاں سن کر سیکھی ہے:۔

عصر حاضر کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔:یہ اُردو ادب کی بد قسمتی ہے کہ ہمارے ادیب مختلف گروپوں میں بٹ کر صرف محدود موضوعات پر قلم آزمائی کرتے رہے۔اس سے ان کو اپنا کوئی پیغام دینے میں تو شاید کوئی آسانی ہوئی ہو لیکن بحیثیت مجموعی کہانی کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔اسی لئے آج کا قاری مستند ادیبوں کو پڑھنے کے بجائے ڈائجسٹوں سے دل بہلاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ادیب معاشر ے کے مسائل سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا۔لیکن قاری تک پہنچنے کے لئے اس کی دلچسپی کا سامان یعنی حقیقت سے قریب ٗ اچھی اور دلچسپ کہانی لکھنا ضروری ہے۔وہ بھی سادہ اور عام فہم زبان میں۔عربی اور فارسی کے نامانوس اور ناقابل فہم ثقیل الفاظ کی بھر مار سے شاید ادیب کا قد تو بلند ہوتا ہو لیکن قاری تک رسائی نہیں ہوتی۔اس ادب کا کیا فائدہ جو الماریوں میں سجا رہے لیکن قاری کو تسکین نہ پہنچا سکے ۔اسی طرح لکھاری کے مشاہدے ٗ تجربے اور سوچ میں جتنی زیادہ گہرائی ہوتی ہے ٗ وہ اس کی تحریر میں جاذبیت اور اثر آفرینی پیدا کرتی ہے۔بد قسمتی سے آ ج کا لکھاری بند کمرے کا لکھا ری ہے۔اس کی بہترین مثال آج کل کے ٹی وی ڈرامے ہیں۔یہ ڈرامے دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ ڈرامہ نگار کا مشاہدہ اور تجربہ انتہائی محدود ہے۔اسی لئے یہ ڈرامے بہت سارے سلگتے مسائل کو نظر انداز کر کے صرف ساس بہو کی تکرار تک محدود ہوتے ہیں۔آ ج کل ایسے سفر نامے بھی منظر عام پر آ رہے ہیں جن کے مصنفین نے متذکرہ ملک کا سفر ہی نہیں کیا ہوتا۔ ایسے تخیلاتی سفر نامو ں کے قارئین پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔ اس کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے:۔

تلاش راہ کے متعلق لکھتے ہیں۔:تلاش راہ میں شامل زیادہ تر افسانے میرے مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہیں۔ان کہانیوں کے موضوعات ٗ کردار اور مسائل عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں۔ان میں ملکی اور بین الاقوامی کردار اور ان کی کہانیاں شامل ہیں۔میری نظر میں کہانی سے زیادہ اہم اس کا کردارہے۔کہانی اس کے لئے لکھی جاتی ہے ٗ وہ کہانی کے لئے نہیں ہوتا ہے۔میں ان کرداروں سے ملا ہوں۔ ان سے باتیں کی ہیں۔ ان کے جذبات اور احساسات سنے ہیں۔ ان کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔پھر جو تصویرمجھے نظر آئی ہے ٗ اس کو ہو بہو اور من و عن صفحہ قرطاس پربکھیرنے کی کوشش کی ہے۔میں نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کوشش نہیں کی۔اسی لئے یہ کہانیاں مو ضو عات اور مواد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور جُدا ہیں۔ایسے کردار اور کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری ہوتی ہیں۔انہیں سمیٹنے اور مربو ط کرنے کے لئے عمیق مشاہدہ کرنے والی آنکھ ٗ حساس دل اور سوچنے والا ذہن درکار ہوتا ہے۔خود کو کہانی کے کردار کی جگہ رکھ کر اس کا درد محسوس کرنا پڑتا ہے۔یہ کہانیاں لکھتے ہوئے کئی دفعہ میرے ہی آنسوؤں نے میری تحریر کو بھگو دیا:۔

رنگوں کا سفر کے عنوان سے صادق عارف(سڈنی)لکھتے ہیں۔جناب طارق مرزا کا نام ادبی اور صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔آپ کی پہلی کتاب خوشبو کا سفر 2008ء میں اسلام آبادسے شائع ہوئی۔ یہ کتاب یورپ کے پانچ ممالک کی سیاحت کا سفر نامہ ہے۔بقول ڈاکٹر محمود الرحمان ۔ ۔ ۔ گوجر خان کے سپوت نے آ سٹریلیا کے وسیع و عریض بر اعظم میں اپنی افسانہ نگار ی ٗ کالم نو یسی اور صحافتی فنکاری سے اردو زبان کا پھریرا تو لہرا ہی دیا تھا۔اب دیگر مغربی ممالک کی خاک چھان کر ایسا سفر نامہ پاکستان کی قومی زبان کی جھولی میں ڈال دیا ۔ جو ضخیم بھی ہے ٗ پُر اثر بھی ہے ٗ مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی۔آگے چل کر لکھتے ہیں۔طارق مرزا کا طرز تحریر سادہ اور زبا ن عام فہم ہے۔ان کی کہانیوں کے کردار جانے پہچانے اور زندگی کے بہت قریب ہیں۔ اسی لئے ان کا ہرافسانہ سچی کہانی لگتا ہے ۔صدر اُردو فورم آ سٹریلیا ڈاکٹرشبیر حیدر رقمطراز ہیں۔طارق مرزا کے خوبصورت افسانوں کا مطالعہ کیا۔ ہر افسانے کو انتہائی دلچسپ پایا ۔ طارق مرزا کی تحریر میں قوس قزح کے رنگ ہیں۔وطن کی دھرتی سے محبت ٗ وطن کے مکینوں کی جفاکش زندگی کے شب وروز۔ محنت کے بعد پھل سے محرومی اور اس کے اوپر صبراورخندہ پیشانی سے قربانیوں کو جاری رکھنے کی سچی کہانیاں۔ جن کو طارق مرزا نے اپنے افسانوی فن سے اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ افسانے کو شروع کرنے کے بعد قاری اس کی دلچسپی میں کھو جاتا ہے۔مفلسی کے دکھ ٗ بے انصافیوں کے آنسو ٗ ہجر کا کرب اور وطن کی محبت ٗ یہ ایسے مضامین ہیں ٗ جن میں طارق مرزا نے کمال مہارت سے ایسی تصویریں کھینچی ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا کردار سمجھنے لگتا ہے ۔ملکی اور غیر ملکی ٗسماجی اور معاشی مسائل ٗ سفر نامے ٗ منظرکشی کا طلسم ٗ اس خوبصورتی سے ان کہانیوں میں قلم بند کئے گئے ہیں کہ ان میں مطالعے کی تسکین ٗ معاشرے کے دُکھتے مسائل سے آگاہی اور مقامی اور بین الاقوامی معاشرت کی معلومات بھی ملتی ہیں ۔صدر اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا عباس گیلانی اُچھوتی کاوش کے عنوان سے لکھتے ہیں۔: ان کے افسانوں کا مجموعہ تلاش راہ نہ تو ترقی پسندوں کی لہر میں لکھے گئے افسانوں کی طرح صرف روٹی ٗ کپڑے اور مکان کے گرد چکر لگاتا ہے ۔ نہ ہی ان کے افسانے خیال افروز کہانیا ں ہیں بلکہ مرزا صاحب کا قاری سوچ کے گرداب میں غرق ہونے کے بجائے احساس کے حسیں سبزہ زاروں میں اتر جاتا ہے۔ جہاں اسے سب انسان ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ آسٹریلیا کا بُروس ٗسوئٹزر لینڈ کی میری یا پاکستان کی شبانہ ہو۔ گویا مرزا صاحب کی دنیا دلوں کے اندر بسنے والی دنیا ہے ۔ تلاش راہ اسی دنیا کا نام ہے:۔

گیارہ خوبصورت افسانوں پر مشتمل 192 صفحات کی یہ معنی خیز سر ورق والی کتاب مکتبہ خواتین میگزین منصورہ ملتان روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔پاکستان میں اس کی قیمت 300 روپے جبکہ آ سٹریلیا میں پندرہ ڈالر میں دستیاب ہے۔شائقین کتاب کے حصول کے لئے ناشر ملک عباس اختر اعوان سے موبائل نمبر 03214708024 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 46966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.