لیہ میں روزگار کے طریقے

زمانہ قدیم میں انسانی ضروریات زندگی نہایت ہی قلیل تھیں۔ انسان غاروں میں زندگی بسر کیا کرتا تھا ۔ کھانے کو جانوروں کا گوشت اور جسم ڈھانپنے کیلئے پتے مِل جایا کرتے تھے ۔ رفتہ رفتہ خوراک حاصل کرنے کے نِت نئے طریقے دریافت ہونے لگے ۔ یہاں تک کہ موجودہ مشینی دور آ پہنچا۔

بیروزگاری موجودہ دور کا سب سے بڑا عفریت ہے جو عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ دُنیا کا کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے خصوصاً پاکستان میں یہ مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے یہاں تک کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹاشہر بھی اس سے محفوظ نہیں ۔

لیہ بھی اُن شہروں میں سے ایک ہے جہاں آبادی میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے بیروزگاری جیسے مسائل خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ 1881ء کی مردم شماری کے مطابق لیہ شہر کی کل آبادی چھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی جو کہ اب بڑھ کر پانچ لاکھ تک جا پہنچی ہے جبکہ مجموعی طور پر ضلع لیہ کی آبادی 15لاکھ ہے جس میں سالانہ اٹھائیس ہزار افراد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ لیہ میں بیروزگاری کی شرح 93فیصد ہے جبکہ مجموعی طور پر 15فیصد لوگ خطہ ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اسی طرح 50فیصد لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔ شہروں میں نوجوانوں کی اکثریت روزی کمانے کی خاطر مختلف شعبوں سے منسلک ہے جن میں الیکٹرونکس ‘ الیکٹرک سٹورز ‘ آئرن سٹور ز ‘ زرعی ٹریکٹر ورکشاپس ‘ ٹیلرز ماسٹرز ‘ ڈرائی کلینرز‘ جنرل سٹورز ‘ آٹو سروس ‘ آراء مشین ‘ کلاتھ ہاؤس ‘ پنسار سٹور ‘ زرعی ادویات ‘ پولٹری شاپس ‘ ٹینٹ سروس ‘ کریانہ سٹورز ‘ شو رومز وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے ان نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے اگر ہمارے نوجوان مایوس ہونے کے بجائے ہمت سے کام لیں تو سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں مثلاً اور کچھ نہیں تو پرائیویٹ اکیڈمی سسٹم سے بھی نوجوان اچھا خاصی روزی کما سکتے ہیں ۔
لیہ شہر میں 39سرکاری سکول ہیں جہاں 1500سے 2000تک اساتذہ کام کر رہے ہیں ۔ اتنے زیادہ سرکاری وسائل نہیں کہ تمام نوجوانوں کو سرکاری اداروں میں کھپایا جا سکے ۔ اس ضمن میں ہمارے ارباب اختیارکو چاہیئے کہ نوجوانوں میں محنت کی عظمت کو اُجاگر کریں کیونکہ ہاتھ سے روزی کمانے والے کو اﷲ کا دوست کہا گیا ہے۔

نوجوانوں کی مختلف شعبہ جات میں اگرچہ بہتر رہنمائی کی جائے تو وہ معقول روزی کمانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
1۔آج کل انٹرنیٹ پر آن لائن جاب سسٹم ایسا سسٹم ہے جس سے نوجوان گھر بیٹھے ہزاروں روپے با آسانی کما سکتے ہیں۔
2۔سٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے کم سرمایہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔
3۔bT-M-Pکے ذریعے نوجوانوں کو ٹھیکے دلوائے جا سکتے ہیں۔
4۔محکمہ لائیوسٹاک کی بدولت شہر میں زیادہ سے زیادہ بھانے کھولے جا سکتے ہیں۔
5۔سرکاری سطح پر پولٹری فارمنگ کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے ۔
6۔گھریلو صنعت کاری جیسے ٹوکریاں بنانا ‘ ماچس سازی ‘ اور کرسیوں کی بنائی وغیرہ جیسے کاروبار کو وسعت دی جا سکتی ہے ۔
7۔فرنیچر مارکیٹنگ پر بھرپور توجہ دینے سے اس صنعت کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں محکمہ جنگلات کے تعاون سے پانچ سو سالہ منصوبہ کے تحت دیہاتوں میں شجرکاری مہم کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور مستقبل میں اس کاروبار کیلئے اچھی خاصی لکڑی حاصل کی جا سکتی ہے۔
8۔ بوتل فیکٹری ایسا بزنس ہے جو کم سرمایہ سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
9۔بنجر زمین کو آباد کرنے والے کسانوں کو بیج ‘ کھاد اور دوسری زرعی ادویات میں سبسڈی دی جا سکتی ہے۔
10۔شہری علاقوں سے دیہات تک سڑکوں کا جال بچھانے سے منڈیوں تک مال لانے میں آسانی ہو گی۔
11۔ایم این اے ‘ ایم پی اے یا دوسرے بڑے کاروباری حضرات کے تعاون سے فیکٹریاں لگائی جا سکتی ہیں۔
12۔ لیہ کی 70فیصد آبادی دیہاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہے وہاں تعلیم و فروغ دینے سے پڑھا لکھا کسان پیدا کیا جا سکتا ہے۔اگر کسان پڑھا لکھا ہوگا تو فصل بھی اچھی ہوگی۔
13۔کسانوں کو بلاسود قرضے دلوائے جاسکتے ہیں۔
14۔دیہاتوں میں شہد کے کاروبار کو وسعت دی جا سکتی ہے۔
15۔ہر علاقے میں محدود پیمانے پر بجلی پیدا کرکے کسانوں کو بآسانی مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے ۔ کچے کے علاقوں میں گوبر سے گیس کم لاگت پر پیدا کی جا سکتی ہے ۔اسی طرح تھل کے علاقوں میں ونڈ ٹیکنالوجی یا شمسی توانائی سے گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اسی طرح ہیڈ محبوب اور ٹیل انڈس جیسے چھوٹے چھوٹے پوائنٹس پر پانی کے پریشر سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
16۔تھل کے علاقوں میں حکومتی توجہ سے نہری نظام کو دوبارہ فعال بنایا جا سکتا ہے۔
17۔غربت ختم کرنے کے سلسلہ میں این جی اوز کا کردار مزید مثالی بنایا جا سکتا ہے۔
18۔میڈیکل ریپ کو حکومت کی جانب سے مراعات دی جا سکتی ہیں۔
19۔نئی صنعتوں کی حوصلہ افزائی اور ان کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے سے بیروزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
20۔دیہاتوں میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور نرسنگ سکولز کھولنے سے بہت سارے پڑھے لکھے دیہاتی مرد و خواتین کو بیروزگاری سے بچایا جا سکتا ہے۔
21۔لیہ میں صنعتوں کو بآسانی گیس فراہم کی جا سکتی ہے۔

تھل کے علاقوں میں اچھی فصلوں کے حصول کیلئے بارشوں کا وقت پر آنا لازمی ہے اور دنیا میں ایسی کوئی ٹیکنالوجی دریافت نہیں ہوئی جو بارش لاسکے۔ سوائے نماز کسوف کے ۔ شاید ہمارے نوجوان اس راز کو پانے سے عاری ہیں ۔ قرآن حکیم کے مفہوم کے مطابق ’’تمہارا رزق آسمانوں میں ہے تم اسے زمین میں تلاش کرتے ہو‘‘۔

حوالہ جات :
Demograpky of layyah Dr. Gul Abbass Awan.
(1)
#w.w.w Eliminate unemployment . com
(2)
Shaikh Iqbal Hussain
About the Author: Shaikh Iqbal Hussain Read More Articles by Shaikh Iqbal Hussain: 23 Articles with 20372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.