اگر پاکستان نہ بنتا؟

اگر پاکستان نہ بنتاتوکیاہم دینی،اخلاقی،سیاسی، معاشی طورپرآج سے بہترہوتے،ہم دل جلوں کو یہ سوال سن کرشدید دکھ ہوتا ہے۔یہ سوال برعظیم پاک و ہنداورخصوصاً پاکستان کے عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا،وہ بیچارے تو سیدھے سادے مسلمان ہیں اور پاکستان کو اسلام کا گھر بلکہ ملجا وماویٰ جانتے ہیں۔ان سادہ لوگوں کے نزدیک پاکستان اللہ تعا لیٰ کا بیش بہا عطیہ ہے۔اللہ تعالیٰ جل شانہ وہ رحیم ذات ہیں جس نے ماہِ رمضان میں قرآن الفرقان نازل فرمایا،اسی خدائے ر حیم و رحمان نے ماہِ رمضان مبارک کی ستائیسویں رات کوپاکستان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔

’’اگر پاکستان نہ بنتا؟‘‘یہ الفاظ ہمارکلیجہ جلا دیتے ہیں۔یہ سوال کوئی بھی صاحبِ ایمان بآسانی نہیں سن سکتا اوروہ بھی اس عالم میں کہ پاکستان وجود میں آچکا'دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑا ہو چکا۔ ۶۷ سال ہونے کوہیں،پھرایساسوال کیوں؟کیاپاکستان کے وجودِمسعودکو مشکوک کرنے کیلئے؟جب تحریکِ پاکستان جاری تھی توخدا پرایمان رکھنے والاعام فردمسلمان جس کے پاس ساراعلم کلمہ طیبہ تک محدودتھا،وہ پورے یقین کے ساتھ اس تحریک کو دینی تحریک سمجھتا تھااورنعرہ زن تھا''لے کے رہیں گے پاکستان''اور ''پاکستان کا مطلب کیا 'لا الہ الا اللہ۔''ہاں ان سادہ دل مگر قوی الایمان عام مسلمانوں کے مقابل لغت ہائے حجازی کے ہزاروں قارون اپنے علم کلام اوراپنی منطق کے پیچ وخم میں الجھے ہوئے،تماشائے لبِ بام کے اسیراوررہین تھے،ان کے دماغ روشن تھے'انہیں قرآن حفظ تھے،ان میں سینکڑوں حفاظ بخاری ومسلم بھی تھے مگران کے قلب مقفل تھے ورنہ حقیقت کو کیوں نہ پاجاتے؟ان علمائے عظام میں مٹھی بھر وہ بھی تھے جن کا دین ان کے قلوب میں جا گزیں تھا، جن کے دلوں کے پٹ کھلے تھے،یہ تھے وہ خوش قسمت علماء امت جو براعظم پاک وہند کے عظیم ترین جہاد میں کود گئے اور سپاہیانہ لڑے مگرعلماء کی اکثریت محروم رہی۔یہ سوال کہ پاکستان کابننابہترہے یامضر،یہ انہی علمائے کرام کاسوال تھا جن کا دین ان کے دماغ کی متاع تھا' جن کا دین ان کے قلب کا سرمایہ نہ تھا۔قلب تومقفل تھے،قرآن الفرقان کاارشاد گرامی ہے کہ'' آنکھیں اندھی نہیں ہوجاتی،وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندرہیں''۔ دوسراگروہ روشن خیال متعلقین کاوہ طبقہ تھاجوخودکواعلیٰ رتبہ ادب وشعرپرفائز سمجھتاتھا،تیسراگروہ وہ کیمونسٹ حضرات کاتھااوران کاایک معتدبہ حصہ ادباء و شعراء میں شامل تھامگرعلماء کے سواان دونوں گروہوں کی مسلمانوں کے یہاں کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔

اگر ماضی اورحال کے روابط عقیدت کے بندھن سے آزادہوکر سوچیں کہ آخریہ کیاہواکہ ہمارے علماء مکرمین امت سے کٹ کراورہٹ کرکھڑے ہوگئے اورکھڑے کھڑے شورمچاتے رہے کہ مسلمانوں کا فائدہ متحدہ برعظیم میں ہندوغلبے کے تحت ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم مملکت میں،جس کے باعث برعظیم پاک و ہندکے مسلمانوں کی دوتہائی آبادی ہندوکی محکومیت کے عذابِ الیم سے بچ سکتی تھی اورکچھ بھی نہ ہواسہی،کیا اللہ کایہ احسان کم ہے کہ کروڑوں کی مسلم آبادی کوان کاآزادوطن میسرآ گیا؟وہ علماء اس زمانے میں یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زیرِسایہ اسلام کانفاذ زیادہ مشکل ہوگا،اس کے برعکس متحدہ ہندوستان میں اسلام کا نفاذ آسان ترہوگایعنی حکومت الہیہ اورنظامِ مصطفیٰ کاقیام حضرت امیرالمومنین والمومنات،امیرالاحیاوالاموات گاندھی خوش صفات کے زیرِاقتداراوران کے بت پرست دیگرورثاء کے زیرِحکومت بہترطریق پرعمل میں آسکتاہے۔ گاندھی جی کے ذریعے نظامِ اسلام کانفاذسہل ترجاننے والے کون لوگ تھے؟وہ علماء اکابرتھے جن کے نزدیک ہندو لیڈروں کی ہر بات حق تھی،مسلمان قائدین کی ہربات باطل۔اگرذراغورکرلیں تو ایمان کی خاطرجنگ اورجہاد کرنے والے عام مسلمان تھے جن کاعلم دین محدودتھا،ان کے مدمقابل سیکولرروش کے طالب لغت ہائے حجازی کے قارون تھے،شیوخ القرآن،شیوخ الحدیث، خطبائے اسلام،ائمہ دین متین،حد ہوگئی علماءسیکولر،غیرعلماء مسلمان بنیاد پرست،اسلام کے غلبے پربھرپورایمان کے مالک!

آج اسلامی بنیادپرستی کے معنی تویہی ہے نا ں کہ مسلمان کو اسلام کی حقیقت پریقین ہو۔اس کامطلب اسلام کا فراواں علم حتماً نہیں،اگرکوئی عالم بھی صاحبِ تصدیق ہوتوالحمدللہ،مگرعموماً جودیکھاجارہا ہے وہ متوسط طبقہ ہی مرادہے۔اہلِ دین اوراہلِ ایمان کا متوسط طبقہ وہ امت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس لئے کہ وہ غیرت والے ہیں۔اس متوسط طبقے کوقوم کی اکثریت کثیرہ کابھرپورتعاون حاصل ہے،خداکے فضل سے پاکستانی عوام کا ایمان نہیں ڈولتا،وہ پاکستان کواللہ کی عظیم نعمت جانتے ہیں اورپاکستان کے پروانے ہیں۔مجھے اچانک ایک کتاب یاد آ گئی ہے جس کا نام’’انڈین ڈیسٹنی‘‘(تقدیرِ ہند)،مصنف کانام تھا سرل مودک،مصنف عقیدے کی رو سے ہندو تھا۔اس نے اپنی کتاب میں متحدہ قومیت کے مخالفوں کی خوب کھال کھینچی ہے اور اس نظریے کے حامیوں کو خوب خوب اچھالا ہے۔ ماضی کے بہت سے اکابرمیں شہزادہ داراشکوہ کی بے حدتعریف کی ہے۔ وہی داراشکوہ جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
تخم الحادے کہ اکبر پرورید
بار دیگر در دل دارا ومید
(الحاد کا بیج جو اکبر نے بویا تھا وہ دوبارہ شہزادہ داراشکوہ کے دل میں پھوٹ پڑا)اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ مسٹر سرل مودک نے اس کتاب میں یہ بھی تحریرکردیا کہ داراشکوہ کے مقابل ایک تنگ دل اورمتعصب شخص اورنگ زیب تھا اور ہمارے دورمیں داراشکوہ کا جانشین ابوالکلام ہے اور اورنگ زیب کاجانشین مسٹرجناح۔یعنی اس کتاب میں سیکولر ذہن کاجانشین جس شخص کوبتایا گیا تھا وہ امام الہند'خطیب الہند۔ ''اورمتعصب تنگ دل مسلمان بتایا گیامسٹرجناح کو''۔ اور اورنگ زیب اورقائداعظم کے تعصب اورتشدد کوجن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے اس کا مطلب مہذب محاورے کے مطابق بنیاد پرست ہے۔ آپ سوچ لیں کہ یہ بیان ایک ہندواسکالرکاہے اور ساتھ ہی یہ یادرکھیں کہ حضرت علامہ شبیرعثمانی نے قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر جو کلمات ارشاد فرمائے ان میں یہ الفاظ بھی تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناح حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد برعظیم کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ ایمان وایقان کاتعلق دل سے ہے۔کلمہ طیبہ کے عربی حروف وہ مشرکین مکہ نہ سمجھ سکے جوابوجہلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے،کیاان کوعربی نہیں آتی تھی؟ان کو عربی آتی تھی اس کے باوجودکلمہ طیبہ کے الفاظ ان کیلئے غیرزبان کے اجنبی الفاظ تھے،بقول حضرت علامہ اقبال:
توعرب ہویاعجم ہو،ترالاالہ الاللہ
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی

ایمان کامسئلہ قلب سے تعلق رکھتا ہے اورکفر کابھی قلب سے۔ باقی رہاتعقل تووہ میان غیاب وحضورسراب یااعراف،وہ تیسری دنیاہے مذکراورمونث کے مابین ایک تیسری دنیا،کبھی امریکہ اورروس کے مابین ایک تیسری دنیا تھی۔وہ افرادجو لغت ہائے حجازی کے قارون تھے وہ ایمان کی منطق کی میزان پر تولتے رہے اور فرمایا:
عشق فرمودہ قاصد سے سبک کام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی

یہ منطق بازاورتعقل طرازطبقہ اس وقت بھی لبِ بام تھا،آج بھی لبِ بام ہے،لہندا یہ حضرات اس وقت بھی پورے برعظیم میں مسلمانوں کی محکومی کومسلمانوں کے حق میں اللہ کی نعمت جانتے تھے اورمسلمانوں کی ممکنہ آزادی کو،ان کے آزادوطن کو،ان کے اپنے آزادجھنڈے کو،ان کے اپنے ٹینکوں،اپنی توپوں اوراپنے سکوں کواوران کے اپنے اقتدارواختیارکوپرخطر جانتے تھے،حیف جب وقتِ جہادآیا تووہ جن کوائمہ مجاہدین بننا تھاان کیلئے گویاآیاتِ جہاد منسوخ ہوگئی تھیں۔ حضرت علامہ اقبال نے بجاہی توکہاتھا:
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا!

دسمبر١٩٤٦ء میں انگلستان سے لوٹتے وقت حضرت قائد اعظم مصر میں چندروزکیلئے رک گئے تھے،لیاقت علی خان بھی ہمراہ تھے۔مصرمیں وہ موتمرعالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے اورمصرکے اہلِ سیاست واہلِ صحافت کوتحریکِ پاکستان کے مطالب،مقاصداورمفادات سے آگاہ کرنے کیلئے گئے تھے۔جناب زیڈاے شیخ اورمحمدرؤف کی انگریزی تصنیف ''قائد اعظم اوراسلامی دنیا''میں کچھ کلمات درج ہیں جو قائداعظم نے مصر کے اکابرکی خدمت میں ارشادفرمائے تھے۔ قائداعظم نے وزیراعظم مصرنقراشی پاشا اورسابق وزیراعظم اوروفد پارٹی کے قائد نحاش پاشا کی ضیافتوں میں شرکت کی اوراہلِ صحافت کی دعوتوں میں بھی۔اے کاش قائد اعظم کے وہ سارے بیانات کوئی اکھٹے کرسکتاجوعربی اورانگریزی اخبارات میں ان دنوں شائع ہوئے۔دسمبر کے نصف آخر کے مصری انگلستانی اخبارات اورہندوستان کے خصوصاً ڈان اخبارکے تراشے ملاحظہ فرمائیں جوآج بھی برٹش لائبریری میں محفوظ ہیں۔

والپرٹ اورزیڈ اے شیخ وغیرہ نے جولکھا اس میں قائد اعظم کا اس امرپرزورتھا کہ'' تم مصروالے بلکہ سارے مشرقِ وسطیٰ والے اس بات سے واقف نہیں ہوکہ انگریز کے جانے کے بعد جومملکت انگریزی استعمار کی وارث بنے گی وہ کتنی بڑی اورطاقتورہوگی،تم لوگ ایک نئی مصیبت میں مبتلاہوجاؤگے، تمہاری نہرسویزآج انگریزکے اشارہً ابرو پرکھلتی اوربندہوتی ہے توکل ہندومملکت کاحکم نافذہوگا،ہاں!اگرہم وہاں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے توپھرہندو مملکت کی توجہ کا مرکزہم ہونگے،تم عیش کرنا۔اس لئے یہ امرذہن نشین رہے کہ ہم ہندوستان میں فقط وہیں کے مسلمانوں کی جنگِ آزادی نہیں لڑرہے ہیں۔ہم ہندو کی اجتماعی نفسیات کوسمجھتے اورجانتے ہیں،وہ غیرہندوعناصرکواپنے معاشرے میں زندہ نہیں رہنے دیتے،ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم وہاں ہارگئے توہم نہ صرف ازروئے تمدن مٹادیئے جائیں گے بلکہ ازروئے دین بھی نابود ہوجائیں گےاوراگر ہم وہاں مٹ گئے تو ہمارے ارد گرد کے مسلمان ممالک بھی مشرقِ وسطیٰ سمیت بربادہوجائیں گے۔آپ صفحہ ہستی سے محوہوجائیں گےلہندا یاد رکھیں کہ اگر ہم ڈوبیں گے تواکھٹے،تیریں گے تواکھٹے‘‘۔

قائداعظم جوہماری جغادری علماء اوردین کے قیادت کاروں کے نزدیک روحِ دین سے بے بہرہ تھےمحض صاحب بہادر تھے بلکہ فاسق وفاجرتھے،وہ تو سارے عالمِ اسلام کے باب میں پاکستان کی اہمیت سمجھتے تھے اوراس اہمیت کواہلِ مصر کے ذریعے سارے عالمِ عرب کے ذہن نشین کروارہے تھے مگرخودہندوستان میں بیٹھے علماء اکابراس بیچارے کی بات پر کان دھرنے کوتیارنہیں تھے اس لئے کہ وہ ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے زمرہ شیوخ،ائمہ اورخطبا ء وصلحاء میں شامل نظر نہیں آتے تھے اورنہ گاندھی کی طرح لنگوٹی باندھتے تھے۔ ظاہر بین حضرات کے نشہ خود بینی اورمرض خودفروشی نے قائداعظم کے قلب کاعالمِ اخلاص ونورنہ دیکھا۔ مرزاغالب نے کیا خوب کہا
قمری کف خاکستروبلبل قفس رنگ!
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟

قمری کا رنگ خاکستری،بلبل خوشنما رنگوں کا مجموعہ،بلبل برعظیم کے باشندوں نے دیکھا ہی نہیں،وہ سرسبزاورسرد منطقوں میں پایا جانے والا خوبصورت پرندہ ہے۔قمری بھی عاشق زاراوربلبل بھی جگرفگار،پھر کون سالباس عشق کی نشانی ہے؟غالب یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ عشق کاتعلق جان و دل سے ہے لباس سے نہیں،عاشق کالباس عاشقی ہے۔

بڑے دکھ کی بات ہے کہ اعلیٰ پائے کے ادباء وشعراء کی اکثریت تحریکِ پاکستان سے الگ رہی۔یہ بڑے شعراء اورادباء عموماً متعقل تھے اورفیشن کے طورپرقومی معاملات سے نفور،ہندوگانٹھ کاپکاتھا کہ وہ اپنی ہرپارٹی،ہرگروہ اورہرپلیٹ فارم پرہندوتھا۔ہندؤوں میں کیمونسٹ بھی تھے مگر ہندومفادات کے باب میں وہ بھی فقط ہندوتھے،ہندؤوں میں رائے بہادراور سربھی تھے مگروہ بھی اپنی قومی امنگوں سے ہم آہنگ تھے، خودان کی اپنی قوم نے ان کوہندوجاتی کے مفادات کادشمن کبھی نہ جانا،وہاں کانگرس اورمہا سبھائی معناً ایک تھے۔وہ سارے لیڈرقوم کے مشترک لیڈر تھے،وہ مشرک تھے مگر عملاً وحدت پسند،ادھرمسلمان موحدتھے مگرتفرقہ ہی تفرقہ، لہنداعملاًمشرک(قرآن نے امت میں تفرقہ پیداکرنے والوں کو مشرک قراردیا ہے)۔تحریکِ پاکستان پھیل کر فقط مسلم لیگ ہی کامسئلہ نہیں رہ گئی تھی تاہم ہمارے علماء کبار کی بھاری اکثریت کواس میں مسلمانوں کا مفاد نہیں بلکہ فساد نظر آتا تھا،ایسا کیوں تھا؟

سب سے بڑا باعث تو یہ تھا کہ ان کے بلند بام علمی مناصب کے نصاب کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں نہ تاریخ اسلام سے نہ تاریخ ہند سے۔اپنی معاصرارد گرد کی تاریخ سے بھی ناآگاہ،تاریخ سے بھی ناواقفیت،جغرافیے سے بھی لاعلم،اپنے محل و قوع کا سرے سے ہی علم نہیں ۔ ١٩٦٥ء کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔ میرے شہر فیصل آباد( لائل پور) کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب اعلیٰ اورمدرسہ کے سربراہ ( مسجداورمدرسے کانام بطوراحترام مخفی رکھنے پرمعذرت) نے پوچھا کہ یہ ہٹلر کا وطن جرمل (جرمنی) کہاں ہے؟میں کیسے بتاتا،لہندامیں نے شہر کے ایک کتب خانے سے دنیا کا نقشہ خریدلیا اورمسجد سے ملحق مدرسے کی لائبریری کی دیوارکے ساتھ لٹکادیا۔مدرسے کے سربراہ نے تمام معلمین اور سنئیر طلباء کوبلا لیا ۔وہ سب لوگ مجھ سے بے حدمحبت اور پیارکرتے تھے،مسجد ومدرسہ کے تمام بزرگ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج بھی ان کواپنامربّی سمجھ کران کوہمیشہ اپنی دعاؤں میں یادرکھتاہوں۔

مدرسہ کی تمام اہم شخصیات،اساتذہ اورطلباء نقشے کے سامنے دائرہ کی شکل میں بیٹھ گئے۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب مجھے معلوم ہواکہ وہ علماءاجل نقشے پرشمال اورجنوب نہیں بتاسکتے تھے۔جغرافیئے کایہ عالم،تاریخ ہندسے بالکل ناواقف،معاصرغیراقوام کے دھندوں سے قطعاً بے نیازیہ حضرات دینی علوم خصوصاً حدیث شریف اورفقہ میں طاق تھے،منطق میں طراراورصرف ونحومیں طیار.....!اس مدرسے کاعلمی درجہ ملک بھرمیں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھااوراب بھی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل آج بھی پاکستان کے ہرعلاقے میں معززعلماء وفضلااوراہل افتاء میں شامل ہیں اور کچھ توآج پاکستان کی صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے اراکین اوروزارت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔اس عظیم درسگاہ کا نصاب اگردیوبند شریف ہی کے مطابق تھاتوعیاں ہے کہ دیوبند شریف کے فارغ التحصیل حضرات شائدچندایک کوچھوڑکر حالات گردوپیش سے خواہ وہ معاشی تھے خواہ انتظامی تھے یا سیاسی،کس قدرآگاہ تھے؟اس کے باوصف اصرارتھاکہ مسلمان اپنے سارے فیصلے سیاسی امورسمیت،فقط علماء حضرات کے حسبِ فرمان کریں۔
(جاری ہے)
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 348879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.