اشرف قدسی (ممتاز شاعر‘ محقق اور ادیب)

جناب اشرف قدسی سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ یہ 1975ء کی بات ہے جب میں اردو سٹینوٹائپسٹ کا ٹیسٹ دینے کے لیے ان کے دفتر واقع 90 ریواز گارڈن لاہور پہنچا تو مجھے درمیانی عمر کے میانہ قد کے مضبوط جسمانی ساخت کے حامل انسان سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے بتایا گیاکہ یہ اشرف قدسی صاحب ہیں جو محکمہ تعلیم بالغاں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ یہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کے پندرہ روزہ رسالے "خدمت " کے ایڈیٹر بھی ہیں ۔یہ آپ کا ٹیسٹ لیں گے ۔یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صرف ایک شام پہلے میں بے روزگاری سے اس قدر تنگ آچکا تھا کہ میں نے ریواز گارڈن میں زیر تعمیر فلیٹوں کے بلڈنگ میٹریل کی چوکیداربننا بھی قبول کرلیا تھا جو ٹھیکیدار یہ فلیٹ تعمیر کررہا تھااس نے مجھے ایک دن بعد آنے کا کہا تھا کہ شام نگر میں واقع دفتر روزگار میں اردو سٹینوٹائپسٹ کی آسامی آگئی اور میں ٹیسٹ دینے کے لیے یہاں آپہنچا ۔میرے علاوہ اور بھی کچھ نوجوان انٹرویو اور ٹیسٹ دینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اشرف قدسی صاحب نے شارٹ ہینڈ کا ٹیسٹ لیا تو رفتار کے حساب سے میں سب سے اول آیا انہوں نے باقی امیدواروں کو فارغ کرکے میری اپائنمنٹ لیٹر کے لیے ایک آفس نوٹ بنا کر ڈائریکٹر تعلیم بالغاں ملک محمداشرف صاحب کو بھجوا دیا ۔ مجھے اشرف قدسی صاحب نے چند دن بعد آنے کا کہا ۔ میں خوشی خوشی گھر واپس آیا اور اﷲ کا شکر اداکیاکہ ملازمت مل گئی ہے وگرنہ ساری عمر میں چوکیدار ہی رہتا ۔ چند دن کے بعد جب میں دفترپہنچا تو مجھے یہ سن کر سخت پریشانی ہوئی کہ ڈائریکٹر تعلیم بالغاں ملک محمد اشرف صاحب جن کے دستخطوں سے میرا اپائنٹمنٹ لیٹر جاری ہونا تھا ایک نوجوان ان کا سفارشی رقعہ لے کر اشرف قدسی کے پاس پہنچ گیا اس رقعے میں ڈائریکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ سٹینوٹائپسٹ کی آسامی کے اس نوجوان کو ملازم رکھا جائے۔یہ رقعہ مجھ پر بجلی بن کر گرا اور میں پھر ذہنی پریشانیوں کی گہرائی میں اتر گیا ۔میری آنکھوں میں آنسو تھے جب میں دفتر سے گھر واپس آنے لگا ۔ میری کیفیت کو دیکھ کر اشرف قدسی صاحب نے کہا آپ فکر نہ کریں اﷲ نے چاہا تو یہ ملازمت آپ کو ہی ملے گی ۔اس کے باوجود اشرف قدسی نے مجھے دلاسہ تو دے دیاتھالیکن مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے سنئیر ڈائریکٹر کے فیصلے سے کیسے اختلاف کی جرات کرسکتا ہے جبکہ ملازمت نامے پر دستخط بھی ڈائریکٹر نے ہی کرنے تھے۔چند دن اسی رسہ کشی میں گزر گئے ایک ہفتے بعد جب میں ناامید ی کے عالم پھر 90 ریوازگارڈن پہنچا تو اشرف قدسی نے اپنے ڈائریکٹر سے اختلاف کرتے ہوئے میرے ملازمت لیٹر پر ان سے یہ کہتے ہوئے دستخط کروا لیے کہ یہ سٹینو ٹائپسٹ نے میرے ساتھ کام کرنا ہے میں جسے اس کام کااہل سمجھتا ہوں میں اسے ہی اپنے ساتھ کام کرنے کاموقع دوں گا۔ نہ جانے ملک اشرف کیسے مانے لیکن اس لمحے میرے دل میں اشرف قدسی صاحب کی عزت و تکریم میں حد درجہ اضافہ ہوگیا کیونکہ وہ میرے لیے نجات دہندہ کا روپ دھار چکے تھے ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب تعلیم بالغاں کی کتابوں میں عیسائیت کے پیوند لگانے کے لیے ایک مشینری ادارے کی خاتون ڈاکٹر مسز ستنام محمود کا راستہ روکنے کی پاداش میں اشرف قدسی صاحب کو معطل کردیا گیا ۔ اشرف قدسی صاحب اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے جب دفتر کے تمام افسر اور ملازمین ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے لیکن میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ان کے استفسار پر میں نے کہا سر جہاں آپ جائیں گے میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گے آپ نے میرے لیے ڈائریکٹر سے ٹکر لی تھی میں آپ کے لیے اپنی ملازمت قربان کرنے کو تیار ہوں ۔میری بات پرانہوں نے کہا مجھے خوشی ہے کہ میں نے تم جیسے اچھے انسان کاانتخاب کیا ہے ۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ افضل کہوٹ نے تعلیم بالغاں کی کتابوں میں عیسائیت پھیلانے والے ادارے کا کنٹریکٹ ختم کرکے اشرف قدسی صاحب کے موقف کو سچ تسلیم کرلیا ۔ اس طرح نہ صرف کروڑوں روپے کا نقصان بچ گیا بلکہ تعلیم بالغاں کی کتابوں میں عیسائیت کا پیوند لگنے سے بھی محفوظ رہا ۔ 1975ء میں ہی جب شدید ترین سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچائی تو سروے کرنے کے لیے اشرف قدسی صاحب کے ساتھ میں ہی چکوال ٗ کلرکہار ٗ گجرات ٗ لالہ موسی کے دورے پر گیا ۔تین چار دن کے دورے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ باکردار ہی نہیں نہایت ایماندار انسان بھی ہیں ۔دفتر میں بیٹھ کر سروے رپورٹ بنانے کی بجائے وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مجھے اپنے ساتھ لے کر خود پہنچے اور متاثرین کی حالت زار اور نقصانات کا تخمینہ لگاکر حکومت وقت کو پیش کیا ۔میں اشرف قدسی صاحب کے ساتھ1975 سے 1978ء تک کام کرتا رہا ۔ اس دوران میں نے دیکھاکہ وہ نہایت دیانت دار ٗ مضبوط کردار اور باصلاحیت انسان تھے ۔محکمہ تعلیم بالغا ں کو خیر باد کہنے کے باوجود ان سے والہانہ محبت کا رشتہ قائم رہا اور وہ مسلسل میری سرپرستی اور رہنمائی کرتے رہے ۔

نام کے حوالے سے بے شک اشرف قدسی صاحب کو زیادہ لوگ نہ جانتے ہوں لیکن انہوں نے گوشہ نشینی میں رہتے ہوئے شعر وادب کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جن کا اعتراف کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ اشرف قدسی صاحب نے ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں پانچ مرلے کے مکان میں تصنیف وتحریر کی ایک ایسی دنیا بسائے رکھی جس میں داخل ہونے والا باذوق انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا تھا۔ آپ کئی کتابوں کے مرتب اور شاعری کی کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ امہات المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر تحقیقی کام کر رہے تھے۔

2003ء میں ان کی شخصیت اور فن پر پنجاب یونیورسٹی (اورینٹل کالج) کی جانب سے ایم اے کی ایک طالبہ عائشہ صوفی نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ عائشہ صوفی‘ ادبی اور صحافتی حلقوں میں نیا نام نہیں ہے۔ وہ سیارہ ڈائجسٹ کے لئے قصص القرآن نمبر‘ اسلامی حکایات نمبر اور صحابیات نمبر تحریر کر چکی ہیں۔ سیارہ ڈائجسٹ نے ان کا شعری مجموعہ ’’کتنے لمحے بیت گئے‘‘ بھی شائع کیا ہے۔ یہ مقالہ جناب اشرف قدسی کی زندگی اور ان کے فن کا کماحقہ احاطہ کرتا ہے۔

اشرف قدسی کی ایک کتاب کا نام ’’شب گل‘‘ بھی ہے۔ جو ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ آپ 35 برس تک شاعری کرتے رہے لیکن شہرت سے دور بھاگنے والے اشرف قدسی اپنا کلام کسی بھی میگزین یا رسالے میں شائع کروانے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ دراصل انہوں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں نام ونمود کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ انہیں ابتدائی زندگی میں ہی ایسے شعرائے کرام کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع میسر آئے جو شہرت سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے۔ آپ کے والد چوہدری غلام محمد بھی بہت اچھے شاعر تھے ان کا تخلص مضطر جالندھری تھا ۔ انہوں نے اپنے دور کے بہترین اساتذہ سے تعلیم حاصل کی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا تخلص بھی اپنے استاد نشتر جالندھری کی تقلید میں رکھا ۔

اشرف قدسی بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر کے گاؤں "میاں وال الراعیاں " میں1938ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد کی بیاض تو 1947ء کی ہجرت کی نذر ہو گئی لیکن آخری دنوں میں وہ صرف حمدیہ اور نعتیہ اشعار تک محدود ہوگئے تھے اور تہجد کے بعد بآواز بلند گڑگڑا کر اﷲ تعالیٰ سے ایک ہی التجاء کیا کرتے ’’خداوند کریم اپنے گھر بلا لے‘‘ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ 1973ء میں فریضہ حج ادا کرنے گئے اور وہیں مکہ معظمہ میں جنت المعلیٰ میں آسودہ خاک ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہڑپہ کے قریب چک نمبر 10/2 گ ب ضلع ساہی وال میں منتقل ہوگیا جہاں آپ کے خاندان کو زمین الاٹ ہوئی تھیں۔ گاؤں کا ماحول بھی کچھ شاعرانہ سا تھا البتہ مڈل سکول ہڑپہ میں لے دے کے پڑھائی ہی پڑھائی تھی۔ 1952ء میں آپ نے ورنیکلر مڈل کا امتحان سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول میں جونیئر کلاس میں داخلہ لے لیا ۔

کلاس میں اشرف نام کے پانچ چھ لڑکے موجود تھے جو سب کے سب اپنے نام کے ساتھ چوہدری کااضافہ کرتے تھے اس لیے استاد کے حکم پر آپ نے اپنے نام کے ساتھ چوہدری کی بجائے قدسی لکھنا شروع کردیا ۔ 1956ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لے لیا۔ یہاں کی فضا ہی کچھ اور تھی۔ کالج کا اپنا رسالہ ساہیوال تھا۔ بزم ادب تھی جس کے موسم سرما میں پندرہ روزہ ادبی اجلاس ہوتے اور موسم گرما میں ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔ اس وقت پرنسپل میاں اصغر علی تھے جو کہ مثالی منتظم اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ وائس پرنسپل ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صوفی تھے۔ ان ادبی اور علمی شخصیات کی سرپرستی میں کی سرکردگی میں آپ کاادبی اور شاعرانہ ذوق پروان چڑھتا چلاگیا ۔آپ کے بعد اس کالج میں آنے والے اہم ترین افراد میں مجیب الرحمن شامی‘ سجاد میر‘ اقبال جوزی‘ مولوی محمد امین اور قیوم صبا شامل تھے۔

پھر جب لاہور سے ہفت روزہ" نصرت " نکلنا شروع ہوا تواس میں انٹرویو اور ڈائری لکھنے کا فریضہ آپ کے سپرد ہوا ۔ اس وقت سات روپے فی صفحہ معاوضہ ملا کرتا تھا ۔آپ نے یہ کام بہت دلجمعی سے انجام دیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ممتاز شاعراور ادیب مجید امجد دوبارہ ساہیوال میں آ گئے تھے۔ وہ بھی گاہے گاہے کالج کے مشاعرہ میں تشریف لاتے ۔ شہر کے دیگر شعرا میں سے حاجی بشیر احمد بشیر اور حاجی اکرم قمر بھی باقاعدگی سے کالج کی بزم ادب کو نوازتے رہتے۔ چنانچہ آپ اپنا زیادہ وقت مجید امجد کی خدمت میں گزارتے اورمجید امجد صاحب سے اصلاح لیتے ۔آ پ مجید امجد کو اپنا ادبی مرشد اور رہنما تسلیم کیا کرتے تھے ۔

پھر سید اسرار زیدی کے کہنے پر آپ نے سنگریزے کے عنوان سے ایک ادبی کالم بھی شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ لاہور کے جرائد واخبارات میں آپ کی نگارشات اور تحریریں شائع ہونے لگیں۔ اس ادبی ماحول نے آپ کے اندر چھپے ہوئے شاعر کو جگا دیا اور طالب علم کو ہمیشہ کے لئے سلا دیا۔ ایف اے کا نتیجہ نکلا تو آپ انگریزی میں فیل ہوگئے ۔پھر آپ نے لاہور کا رخ کیا ۔لاہور میں آپ کو سب سے پہلے روزنامہ آزاد اور پھر روزنامہ سفینہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ انہی اخبارات میں علامہ لطیف انور مرحوم اور مولانا وقار انبالوی مرحوم کی نگرانی میں کام کرنے کاموقعہ میسر آیا۔ انہی بزرگوں کی تربیت کا اثر تھا کہ مستقبل میں" منٹگمری گزٹ" اور" فردا " کی ادارت آپ کے حصے میں آئی۔گوہر ہوشیار پوری ٗ طارق عزیز ٗ اور سید عابد علی ٗ احسان دانش اور مرزا ادیب ٗ افضل احسن رندھاوا ٗ عباس اطہر ٗ خواجہ محمد زکریا اور ممتاز منگلوری کے ساتھ آپ کے دوستانہ مراسم تھے ۔پھر جب 1961ء میں آپ کی طویل نظم" آہنگ وطن " کتابی صورت میں شائع ہوئی تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور آپ کی شہرت کو مزید دوام حاصل ہوا۔

ضلع کونسل ساہیوال کی جانب سے جب ایک ہفت روزہ رسالہ منٹگمری گزٹ شائع کرنے کا پروگرام بنا تو آپ اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ مسعود نبی نور پہلے چیف ایڈیٹر بنے۔ بعد میں مصطفی زیدی جب ڈپٹی کمشنر اور چیئرمین ضلع کونسل ساہیوال مقرر ہوئے تو انہوں نے اس رسالہ کا نام" فردا " رکھ دیا۔ انہی کے زمانے میں اس رسالے نے ایک ادبی رسالے کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور بڑے معرکے کے نمبر نکالے۔ 1964ء میں آپ کو بزم فکر وادب ساہیوال کا سیکرٹری منتخب کیا گیا اور آپ دسمبر 1969ء تک ان دونوں عہدوں پر کام کرتے رہے۔ بزم کے سالانہ اور ماہانہ مشاعروں کا انتظام بھی آپ کے سپرد تھا۔

جنوری 1970ء میں آپ ملازمت سے استعفیٰ دے کر ایک بار پھر ساہیوال سے لاہور پہنچ گئے۔ اگست 1973ء تک مظفر قادر مرحوم کے پرنٹنگ پریس میں بطور منیجر مقرر ہوئے۔ اس دوران آپ نے مصطفی زیدی پر ایک ضخیم کتاب" المرحوم " ترتیب دی۔ ستمبر 1973ء میں جناب محمد حنیف رامے نے آپ کو پیپلز ورکس پروگرام تعلیم بالغاں کے پندرہ روزہ رسالے کا پہلا ایڈیٹر مقرر کیا ۔اس طرح آپ ایک بار پھر سرکاری صحافت سے وابستہ ہو گئے۔

اسی محکمہ میں مشہور افسانہ نویس جناب طارق محمود‘ مشہور شاعر جناب غلام رسول ازہر اور مشہور ادیب ونقاد اور شاعر ڈاکٹر انیس ناگی کے ساتھ بھی آپ کو کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سب حضرات کا ادب میں اپنا مقام ہے۔ یہاں پر ہی اسلم کمال سے دوستی کا آغاز ہوا۔اس محکمہ میں آپ نے تقریباً سوا گیارہ برس تک ایڈیٹر پندرہ روزہ خدمت‘ ایڈیٹر ماہنامہ مقامی قیادت‘ انفارمیشن افسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے 31 دسمبر 1984ء تک کام کیا۔ یکم جنوری 1985ء کو آپ نے پاسکو میں سینئر پبلک ریلیشنز افسر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور اپنی ریٹائرمنٹ (1997ء تک) تک پاسکو میں ملازمت کو جاری رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگئے لیکن آپ نے کبھی شہرت کواپنے دامن کا حصہ نہیں بنایا ۔ گھر کے ڈرائنگ روم میں اسلامی انسائیکلوپیڈیا اور احادیث مبارکہ کی کتابوں کے انبار لگے رہتے تھے لیکن ابھی تحقیق و تصنیف کا عمل جاری تھا کہ آپ کو سانس کے پرابلم نے نڈھال کرکے رکھ دیا اس کے باوجود جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی تو آپ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ہی دکھائی دیتے نہ کبھی معاشرے سے شکو ہ اور نہ ہی ادب و صحافت کے لوگوں سے کوئی گلہ ۔ گوشہ نشینی میں ہی آپ نے اپنے آخری کئی سال بسر کردیئے ۔ دن بدن آپ کی صحت گرتی جارہی تھی بالاخر آپ 7 فروری 2015ء کی صبح گیارہ بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ بے ہم شک اپنے رب کے بندے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

قدرت نے مجھے اشرف قدسی مرحوم کے ماتحت تین سال تک کام کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے پختہ اصولو ں پرسختی سے کاربند رہتے ہوئے دیکھا ۔ وہ کسی بھی غلط بات اور غلط فیصلے پر مخالفت کرنے والے پہلے شخص ہوا کرتے تھے۔ نہ خود اختیارات سے تجاوز کرتے تھے اور نہ ہی کسی اور ایسا کرنے میں معاونت کرتے تھے وہ ایک ذمہ داراور دیانت دار سرکاری افسر کی حیثیت سے مشہور تھے ۔کرپٹ اور بددیانت لوگوں کے لوہے کا چنا ثابت ہوتے اور یہ بھی درست ہے کہ استعفی ہر وقت ان کی جیب میں ہوا کرتا تھا جب بھی کوئی اعلی سرکاری افسر انہیں ناجائز کام کرنے کے لیے کہتا وہ فوری طور پر جیب سے استعفی نکال کر پیش کردیتے۔ ایسے باصلاحیت ٗ غیور اور جرات مند لوگ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھے ہیں ۔بلکہ ایسے لوگ اپنے پختہ عزائم اور وضع کردہ اصولوں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں انسان خود زندہ نہیں رہتا بلکہ اس کے اصول اور کردار زندہ رہتاہے ۔ اشرف قدسی صاحب انتہائی باضمیر اور شفاف کردار کے حامل ایک عظیم شاعر ٗ بہترین ادیب اور صالح انسان تھے ۔بے شک انہوں77 سال کی عمر پائی لیکن یہ عمر انہوں نے اپنے کردار اور گفتار سے معاشرے میں نیکی اور فلاح پھیلانے میں ہی صرف کیے رکھی ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.