فرشتوں پر ایمان ضروری ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اورجن آگ کے شعلہ سے پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ فرشتوں پر ایمان لانا ضروری ہے، قرآن کریم و احادیث اور سابقہ کتب آسمانی میں فرشتوں کا ذکر کثرت سے موجود ہے۔فرشتوں کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔فرشتے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، نور سے پیدا کئے گئے ہیں، ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہے، نرومادہ سے پاک ہیں، لطیف جسم والے ہیں جو نظر نہیں آتے، مختلف شکلوں میں ظاہر ہوسکتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے تکوینی امور ان کے ذمے لگا رکھے ہیں۔کوئی فرشتہ کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے بلکہ سب اﷲ تعالیٰ کے حکم کے محتاج ہیں۔

فرشتوں میں بھی فرق مراتب ہے، بعض فرشتے دوسروں سے افضل ہیں۔سب سے زیادہ مقرب چار فرشتے ہیں،حضرت جبرائیل علیہ السلام بہت زیادہ طاقتور، امانت دار اور مکرم ہیں، ہر زمانہ میں انبیاء کرام ؑ پر وحی لانے کے لئے مقرر تھے۔حضرت میکائیل علیہ السلام، بارش برسانے، غلہ اگانے اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مخلوق کو روزی پہنچانے پر مقررہیں۔حضرت اسرافیل علیہ السلام جو قیامت کے دن صور پھونکیں گے جس کی آواز کی شدت سے ہر چیز فنا ہوجائے گی، سب جاندار مرجائیں گے، دوبارہ پھر صور پھونکیں گے جس سے سب مردے زندہ ہوکر اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔حضرت عزرائیل علیہ السلام، یہ مخلوق کی جان نکالنے پر مقرر ہیں اور وقت مقرر پر ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔کل فرشتے کتنے ہیں؟ ان کی حتمی تعداد اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

فرشتے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے ، انہیں جو حکم دیا جاتا ہے ، اسے بجا لاتے ہیں، ہر قسم کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے مختلف کاموں پر مقررہیں اور ان کاموں کی بجا آوری میں مشغول رہتے ہیں مثلاً بعض فرشتے انسانوں کے اعمال لکھنے پر مقرر ہیں، بعض فرشتے انسانوں کی حفاظت پر مقرر ہیں، بعض فرشتے دن رات اﷲ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہیں، بعض فرشتے اﷲ تعالیٰ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں، بعض فرشتے جنت کے خازن اور بعض دوزخ کے خازن ہیں، بعض فرشتے عرش کے اردگرد صف بستہ کھڑے ہیں، بعض فرشتے بیت المعمور کا طواف کررہے ہیں، بعض فرشتے امت کی طرف سے پڑھا جانے والا درودوسلام سر کار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اثرمیں پیش کرنے پر مقرر ہیں۔ بعض فرشتے قبر میں میت سے سوالات کرنے پر مقررہیں بعض فرشتوں کے دو، بعض کے تین اور بعض کے چار چار پر ہیں، بعض فرشتے لوگوں کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں، بعض فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ غزوۂ بدرمیں ہوا، بعض فرشتے نافرمان لوگوں کو عذاب دینے کے لئے بھی آسمانوں سے نازل ہوتے رہتے ہیں جیسے قوم لوط ، قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب کے لئے آسمانوں سے فرشتے نازل ہوئے، بعض فرشتے جنت کے اندر جنتیوں کی خدمت کے لئے مقررہوں گے اور بعض فرشتے دوزخ میں دوزخیوں کو طرح طرح کا عذاب دینے کے لئے مقرر ہوں گے، ان میں سے بڑے فرشتے انیس ہیں۔چار مشہور فرشتوں کے علاوہ بعض دوسرے فرشتوں کے نام بھی قرآن و سنت میں بتلائے گئے ہیں، مثلاً ھاروت، ماروت، رضوان، مالک اور منکر نکیر وغیرہ۔اﷲ تعالیٰ نے جب بھی کسی فرشتے کو انسانی شکل عطا فرمائی تو اسے مردانہ شکل عطا فرمائی، کسی فرشتے کو نسوانی شکل میں ظاہر نہیں فرمایا، حتیٰ کہ حضرت مریم علیہا السلام کے جلوت میں ان کے پاس آنے والا فرشتہ بھی مرد کی شکل میں آیا تھا۔فرشتوں کے بارے میں مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ اﷲ کی بیٹیاں ہیں(نعوذبا اﷲ )اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا اس غلط عقیدے کی تردید فرمائی ہے۔فرشتے لاتعداد ہیں،حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ میں کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ہو اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ہو۔ آسمان چرچراتا ہے اور اس کے لائق یہی ہے کہ وہ چرچرائے۔ آسمان پر چار انگلیوں کے برابر بھی کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ اﷲ تعالیٰ کے لئے اپنی پیشانی کو ٹکائے ہوئے سجدہ نہ کررہا ہو۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا (معراج کے موقع پر جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا) تو میرے سامنے ابراہیم علیہ السلام تھے جو اپنی پشت بیت معمور کے ساتھ لگائے بیٹھے تھے۔ اس بیت معمور میں ہر روز ستر ہزار (یعنی بڑی کثیر تعداد میں) فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ کبھی ان کی باری نہیں آتی۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سر کار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی اوپری سطح اور تہہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک ہے۔ پھر اس کے اوپر آٹھ (فرشتے) پہاڑی بکرے (کی شکل کے) ہیں ان کے پاؤں اور ان کی پشت کے درمیان کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان کا ہے۔ پھر ان فرشتوں کی پشت پر عرش (الٰہی) ہے۔ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں عرش الٰہی کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک (بڑے) فرشتے کے بارے میں یہ بیان کروں کہ اس کے کان کی لو اور کندھے کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت ہے۔

حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں نکلے اور قبر تک پہنچے۔ ابھی قبر کھدی نہ تھی تو سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے آپ نے فرمایا مومن بندے کی جب دنیا سے روانگی اور آخرت کی طرف جانے کا وقت آتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے فرشتے اترتے ہیں جن کے چہرے سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے اور وہ مومن بندے کی حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں۔

پھر ملک الموت (یا ان کے کوئی معاون فرشتے) آتے ہیں اور بندے کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے پاکیزہ روح اﷲ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف نکل۔ تو وہ روح ایسی سہولت سے نکلتی ہے جیسا کسی مشکیزے سے قطرہ سہولت سے بہہ جاتا ہے اور ملک الموت اس روح کو قبض کر لیتے ہیں۔ جونہی وہ قبض کرلیتے ہیں تو دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کے بقدر بھی ان کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑتے بلکہ فوراً ہی ان سے لے لیتے ہیں اور (جنت سے لائے گئے) کفن اور خوشبو میں اس روح کو لپیٹ دیتے ہیں اور اس روح کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں۔ جن فرشتوں کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں یہ پاکیزہ روح کس کی ہے، یہ جواب دیتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کی ہے اور دنیا میں جو اس کا سب سے اچھا نام لیا جاتا تھا وہ لیتے ہیں۔ جب آسمان دنیا پر پہنچتے ہیں اور دروازہ کھلواتے ہیں تو دروازہ کھولا جاتا ہے تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اﷲ رب العزت فرماتے ہیں میرے بندے کا نام علیین (یعنی نیک بندوں کے رجسٹر) لکھ دو ، اور اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے (یعنی اس کے جسم کے ساتھ تعلق قائم کردیا جاتا ہے) اور میت کے پاس دو فرشتے (منکر و نکیر) آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے۔ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اﷲ ہے۔ وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ’’وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں یہ صاحب کون ہیں جو تم میں بھیجے گئے تھے۔ قال من قال محمد وہ شخص پوچھتا ہے کس کے بارے میں سوال کررہے ہو وہ کہتے ہیں محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے بارے میں وہ جواب دیتا ہے یہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں تجھے کیسے علم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نے اﷲ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور بلاواسطہ یا بالواسطہ مجھے علم ہوا۔ اس پر آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لئے جنت کا بستر بچھادو اور اس کو جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو۔ تو جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں اس کے پاس آتی ہیں اور اس کے لئے اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔
اور کافر بندے کا جب دنیا سے منقطع ہونے اور آخرت کی طرف جانے کا وقت آتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس ٹاٹ ہوتا ہے۔ وہ اس کی حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آتے ہیں اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث روح اﷲ کے غصہ کی طرف نکل۔ وہ روح کافر کے جسم میں خوفزدہ ہوجاتی ہے اور بچنے کی کوشش کرتی ہے تو ملک الموت اس طرح کھینچتے ہیں جیسے سیخ کو گیلی روئی میں سے کھینچا جاتا ہے اور اس روح کو قبض کر لیتے ہیں۔ جونہی وہ قبض کرلیتے ہیں تو دوسرے فرشتے اس کو ان کے ہاتھ میں پلک جھپکنے تک بھی نہیں چھوڑتے ان سے لے لیتے ہیں اور اس کو ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور روئے زمین پر کسی مردار سے جو سخت ترین بدبو نکلتی ہے اس طرح کی بدبو اس سے نکلتی ہے۔ فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو جن فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ خبیث روح کس کی ہے۔ لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے اور دنیا میں اس کے لئے جو سب سے برا نام لیا جاتا تھا اس کو ذکر کرتے ہیں۔ پھر وہ آسمان دنیا تک پہنچائی جاتی ہے اور اس کے لئے دروازہ کھلوایا جاتا ہے لیکن دروازہ کھولا نہیں جاتا اﷲ رب العزت فرماتے ہیں اس کا نام سجین (یعنی برے بندوں کے رجسٹر) میں لکھ دو پھر اس کی روح کو (اس کے ٹھکانے کی طرف) دھتکار دیا جاتاہے اور اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے (یعنی اس کے جسم کے ساتھ تعلق قائم کردیا جاتا ہے) اور اس کے پاس دو فرشتے منکر نکیر آتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے۔ وہ جواب دیتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ وہ پوچھتے ہیں یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے تھے تو وہ جواب دیتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ اس پر آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا لہٰذا اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو تو اس کے پاس جہنم کی تپش اور لو آتی ہے اور اس پر اس کی قبر کو تنگ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے مقرر کیا گیا ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اﷲ آپ کے ساتھ بھی۔ آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اﷲ نے جن کے معاملہ میں میری مدد کی تو میں اس سے محفوظ ہوگیا ہوں ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ان کے چھ سو پر تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اپنی اصلی صورت میں جس پر وہ پیدا کئے گئے ہیں میں نے صرف دو مرتبہ دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ آسمان سے نیچے ہیں اور ان کی عظیم خلقت آسمان و زمین کے درمیان کی ساری جگہ کو گھیرے ہوئے ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ کے کچھ فرشتے راستوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور (اﷲ کا) ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں اور جب وہ کچھ لوگوں کو اﷲ کاذکر کرتے پاتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں کہ اپنے مطلوب کی طرف آجاؤ۔ پھروہ فرشتے اپنے پروں سے آسمان دنیا تک ان کو گھیر لیتے ہیں۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کی طرف سے مجھے سلام پہنچاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ایک برص والا، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ کیا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ (آدمی کی صورت میں پہلے) برص والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس نے جواب دیا (جلد کی) اچھی رنگت اور صحیح سالم جلد اور یہ کہ مجھ سے یہ (برص کی بیماری) دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔ فرشتہ نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو اس سے اس کی گندگی جاتی رہی اور اس کو اچھی رنگت اور صحیح سالم جلد دی اور اس سے پوچھا کونسا مال تجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس نے بتایا کہ اونٹ تو فرشتہ نے اس کو دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دی اور کہا اﷲ تمہیں اس میں برکت عطا فرمائیں۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور پوچھا تمہیں کونسی چیز سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اچھے بال اور یہ کہ مجھ سے یہ (گنجا پن) دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ فرشتہ نے اس کے ہاتھ پھیرا تو اس کا گنجا پن دور ہوگیا اور اس کو اچھے بال عطا کئے۔ فرشتہ نے پوچھا تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے۔ گنجے نے جواب دیا گائیں۔ فرشتہ نے (اس کو) ایک حاملہ گائے دی اور کہا اﷲ تمہیں اس میں برکت دے۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا سب سے زیادہ کونسی چیز پسند ہے۔ اس نے جواب دیا یہ کہ اﷲ تعالیٰ مجھے میری بینائی واپس لوٹادے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اﷲ نے اس کو اس کی بینائی لوٹادی۔ فرشتہ نے (اس سے) پوچھا کونسا مال تمہیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس نے جواب دیا کہ بھیڑ بکریاں۔ تو فرشتہ نے اس کو ایک حاملہ بکری دی۔ ان دو (یعنی اونٹنی اور گائے) نے بچے جنے اور اس (بکری) نے بھی بچہ جنا۔ (رفتہ رفتہ) برص والے کے پاس اونٹوں سے بھری وادی ہوگئی اور گنجے کے پاس گائے بیلوں سے بھری وادی ہوگئی اور اندھے کے پاس بھی بکریوں سے بھری وادی ہوگئی۔پھر وہی فرشتہ برص والے کے پاس اپنی (سابقہ) صورت و ہیئت میں آیا (کہ شاید پہچان کر احسان مند بھی ہو) اور کہا میں مسکین آدمی ہوں۔ سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے تو آج منزل پر پہنچنے کا کوئی ذریعہ اﷲ کے سوا اور پھر تمہارے سوا نہیں رہ جا تا تو تمہیں اس ذات کا واسطہ جس نے تمہیں اچھی رنگت اور اچھی جلد دی اور مال میں اونٹ دیئے میں تم سے ایک اونٹ کا سوال کرتاہوں جس سے میں اپنا سفر پورا کرلوں۔ برص والے نے کہا (مجھ پر تو پہلے ہی) بہت سے حقوق ہیں۔ فرشتہ نے کہا لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ کیا تم وہی برص والے نہیں ہو جس سے لوگ گھن کرتے تھے اور تم وہی فقیر نہیں ہو جس کو اﷲ نے مال عطا کیا۔ برص والے نے جواب دیا یہ مال تو میں نے نسل در نسل وراثت میں پایاہے۔ فرشتہ نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تو اﷲ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کردے جیسا تو تھا۔ پھر فرشتہ (اپنی) اسی صورت میں گنجے کے پاس آیا اور جو برص والے سے کہا تھا وہی گنجے سے کہا۔ اس نے بھی برص والے کا سا جواب دیا۔ فرشتہ نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اﷲ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کردے جیسا تو تھا۔ پھر وہ فرشتہ اپنی (سابقہ) صورت و ہیئت میں اندھے کے پاس آای اور کہا میں مسکین اور مسافر آدمی ہوں۔ میرے سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے۔ آج منزل تک پہنچنے کے لئے میرے پاس سوائے اﷲ کے اور پھر سوائے تمہارے کوئی آسرا نہیں ہے۔ اس ذات کا واسطہ جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس لوٹائی میں تم سے ایک بکری کا سوال کرتا ہوں تاکہ میں اس کے سہارے اپنا سفر پورا کروں۔ اندھے نے جواب دیا کہ (ہاں ہاں) میں اندھا تھا۔ اﷲ نے مجھے میری بینائی واپس لوٹائی تو تم جو چاہو لو اور جو چاہو چھوڑو اﷲ کی قسم آج تم اﷲ کے نام پر جو کچھ لوگے میں اس میں تم سے مزاحمت نہیں کروں گا۔ فرشتے نے کہا تمہارا مال تمہیں سلامت۔ تمہاری تو فقط آزمائش کی گئی۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ تم سے راضی ہوا اور تمہارے دونوں ساتھیوں پر ناراض ہوا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو جہل نے (ایک مرتبہ) پوچھا کیا محمد ﷺ تمہارے سامنے اپنے چہرے کو خاک آلودہ کرتے ہیں (یعنی کیا وہ تمہارے سامنے نماز پڑھتے ہیں؟) بتایا گیا کہ ہاں، تو ابوجہل نے کہا لات و عزیٰ کی قسم اگر میں نے ان کو ایسا کرتے دیکھا تو میں ان کی گردن روند دوں گا۔ ایک دفعہ جب آپ نماز پڑھ رہے تو ابو جہل آیا اور ارادہ یہ تھا کہ آپ کی گردن کو روندے۔ مگر اچانک وہ واپس اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تجھے کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ میرے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان آگ کی ایک بڑی خندق تھی اوروہ بڑی ہولناک تھی اور بہت سے پر تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم (کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ) نے فرمایا اگر وہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کواٹھا کر ٹکڑے ٹکڑے کردیتے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اے اﷲ کے رسول کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو جنگ احد کے دن سے زیادہ سخت ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ،جو سخت ترین دن میں نے پایا وہ (دسویں ذوالحجہ یعنی) جمرہ عقبہ کی رمی کا ایک دن تھا جب میں ابن عبد یالیل کے پاس خود (دعوت اسلام لے کر) گیا لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے اس کو قبول نہیں کیا۔ تو میں غمزدہ اپنے رستہ پر چلا اور صرف قرن ثعالب میں ہی جاکر غم سے افاقہ ہوا (اور آرام ملا) میں نے جو اپنا سراٹھایا تو ایک بادل مجھ پر سایہ فگن تھا۔ میں نے جو دیکھا تو اس بادل میں جبرئیل تھے جنہوں نے مجھے پکار کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات کو اور جو جواب انہوں نے آپ کو دیا ہے اس کو سنا ہے اور آپ کے پاس پہاڑو ں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کے بارے میں اس کو جو چاہیں حکم دیں۔ آپ نے فرمایا پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا اور مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ مجھے حکم دیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر دو پہاڑوں کو ملادوں۔ اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی اولاد نکالیں گے جو فقط اﷲ کی عبادت کرے گی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی۔

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب (اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہوگا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لیکر پیدا ہو تا ہے ۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 718922 views Journalist and Columnist.. View More