پُر امن رہنے کی ضرورت

9/11کے کچھ روز بعد پاک سرزمین پر شروع ہونے والی دہشت گردی کے واقعات تاحال ابھی جاری ہیں۔دہشت گردی کے ان واقعات میں کہیں مسجدیں نشانہ بنیں تو کہیں چرچ،کہیں سڑک پر چلتے سوچ وافکار میں گم معصوم شہری تو کہیں روزگار کماتے لوگ۔ کہیں سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکارتو کہیں درسگاہوں میں علم کے متلاشی معصوم پھول۔

دہشت گردی کے واقعات میں زندگیوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں میں سے کوئی اپنے خاندان کا اکلوتا کفیل تھا تو کوئی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد۔کسی کا باپ جان سے گیا تو کسی جگہ جواں بہنوں کے اکلوتے بھائی،کسی گھر میں مردوں کا وجود ہی ختم ہو ا، تو کہیں بچوں کا شوروغل۔ظلم کی انتہا تو یہاں تک ہے کہ اس دہشت گردی نے گھر سے ماں کی دوا لینے کی غرض سے جانے والے نوجوان کو بھی نہ بخشا۔دہشت گردی کے باعث لوگ ہر جگہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔لیکن دہشت گردی کی بے شمار شرمناک کاروائیوں کے باوجود عوام باحوصلہ ہیں او دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
قارئین ،لاہور کے علاقے قلعہ گجرسنگھ میں ہونے والے دھماکے کو ابھی کچھ ذیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ 15/3/15کو لاہور کے علاقے یوحنا آبادمیں چرچ کے باہر دل کو دہلا دینے والا انتہائی افسوس ناک دھماکوں کا واقعہ پیش آیا۔یکے بعد دیگر دو دھماکے اس وقت کیے گئے جب چرچ میں اتوار کے روز دعائیہ تقریب جاری تھی۔پنجاب پولیس کی طرف سے تعینات چرچ کی سیکیورٹی پر مامور اہلکار کی جواں مردی کے باعث حملہ آور اندر دا خل ہونے میں ناکام رہا اور اس نے اپنے آپ کو مجبوراً چرچ کے باہر ہی اڑا ڈالا۔اورپہلے دھماکے کہ کچھ ہی دیر بعد دوسرے ؂ زور دار دھماکہ بھی ہوگیا۔دھماکوں کے باعث 19افراد جان سے گئے۔ 70کے قریب زخمی ہوئے۔دھماکے کے بعد ہر طرف خوف وہراس پھیل گیا۔ کچھ لوگ بھاگنے لگے، توکچھ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگے، اورکچھ امدادی کاروائیوں میں حصہ ڈالنے لگے۔دھماکے کے فوراً بعد سرکاری مشینری حرکت میں آئی۔ایمبیولنسس کچھ ہی لمحوں کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے لگیں۔جو مریضوں کو تیزی سے ہسپتالوں کی جانب منتقل کرنے لگیں۔اس واقعہ کے فوراً بعد ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف ،ڈی سی او لاہور ،ایس ایس پی سی آئی ایے سمیت بہت سے سرکاری افسران موقع پر پہنچ گئے۔انتظامیہ کی جانب سے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی،حکومتی نمائندے بھی لوگوں کے دکھ میں شامل ہونے اور امدادی کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے جنرل ہسپتال پہنچ گئے۔ہسپتالوں میں کہیں تکلیف میں مبتلا زخمیوں کی دل میں دہلا دینے والی آوازیں تھیں تو کہیں لواحقین کی پریشان حالت۔کہیں مریض بے بسی سے اپنے پیاروں کو تک رہے تھے تو کہیں لواحقین زخمیوں میں اپنے گمشدہ پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ہر چہرے پر بے بسی ، پریشانی اور دہشت گردوں کے لیے نفرت دکھائی دے رہی تھی۔لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں لاہور میں بسنے والے لوگوں نے اپنا کردار مکمل طور پر ادا کیا۔۔جہاں لوگ ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے پہنچے ،وہاں ساتھ ہی ساتھ ہر شہری کے دل میں مشکل کی اس گھڑی میں کرسچن کمیونٹی کے لیے اظہار تعزیت پایا جارہا تھا۔اس تمام صورتحال نے دہشتگردوں کو یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی کے خلاف تمام مذاہب یکجا ہیں۔

قارئین یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا ۔اب تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھنا ضروری ہے جو اس دھماکے کے بعد پیش آیا۔ جس سے ملک میں بسنے والا ہر شہری پریشان اور اسکی آنکھیں نم ہیں۔یوحنا آباد میں دھماکے کے فوراً بعد پولیس نے معمول کے مطابق دو مشکوک افراد کو پکڑلیا۔ موقع پر موجود لوگوں نے ان دونوں افراد کو پولیس سے چھین لیا۔اور بغیر کسی قسم کی پوچھ گچھ کے تشدد کرنے لگے۔تشدد کے باعث پہلے تو دونوں افراد بے ہوش ہوئے ،بعدازاں دونوں افراد جان سے گئے۔مشتعل افراد دونوں مشتبہ افراد کو ایک کلو میٹر تک گھسیٹے ہوئے لیے گئے۔اور ان مشتعل افراد نے بغیر کسی جانچ ،ثبوت ،گواہوں اور برآمدگی کے دونوں نوجوانوں کو مجرم قرار دے دیا۔اور ایک ایک کرکے دونوں نوجوانوں (بابر نعمان اور محمدنعیم) کو سڑک کے اوپر آگ لگا دی گئی۔آخر کیوں تشدد کرنے والے مظاہرین ( عورتیں،مرد) یہ بھول گئے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ دو نوجوان بھی چرچ دھماکوں میں مرنے والے معصوموں کی طرح معصوم ہوں۔تشدد کے بعد زندہ جلادینے والے بھی ہو سکتا ہے کہ اس ملک کے پرامن شہری ہوں۔وہ بھی تو کسی کے بھائی ،بیٹے ،باپ ہوں گے۔یا ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کسی نے ذاتی رنجش کا نشانہ بنا ڈالاہو۔،مشکوک افراد کو ایلیٹ فورس سے چھین کر تشد د کرنے اور جلانے والے خود ہی منصف اور خود ہی مدعی بن گئے۔۔اگر جلائے جانے والے انسان واقعے ہی مجرم تھے تو مشتعل افراد نے سیکیورٹی اداروں کی بہت ہی آسان تفتیش کو کئی سوالیہ نشانوں میں پھنسا دیا۔اور اگر جلنے والے دونوں لوگ پر امن شہری تھے ،جو اب تک کی تفتیش کے مطابق ثابت ہو چکا ہے۔ تو انکا مجرم کون ہوگا۔ان مشتعل افراد کا دو نوجوانوں کو زندہ جلا دینے کے بعد بھی دل نہ بھرا تو انہوں نے پنجاب پولیس کے خلاف نعرے بازی اور پتھراوٗشروع کر دیا۔اسی پنجاب پولیس کے خلاف جس کے اہلکار وں نے خود دوران ڈیوٹی چرچ کی حٖفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے۔ اگر پولیس کے جوان حملہ آور کو چرچ کے اندر داخل ہونے سے نہ روکتے تو یقینا حالات کچھ اور ہوتے۔ پنجاب پولیس کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنیکی بجائے پنجاب پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی اور پتھراوٗ کے بعد مظاہرین نے پنجاب پولیس کے جوانوں کی قربانی مٹی میں ملا دی۔ مظاہرین کی جانب سے میٹرو بس کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کرکے خزانے کوسینکٹروں لاکھ کا نقصان پہنچایا گیا۔مظاہرین کی جانب سے یوحنا آباد سے وابستہ فیروزپور روڈ کو نوگوایریا کی شکل دے دی گئی۔یہاں تک کے کچھ شرپسند عناصر کے باعث وفاقی وزیر کامران مائیکل سمیت ،پولیس افسران اورپوری کی پوری سرکاری مشینری کو دھماکے کی جگہ تک پہنچنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔قارئین یوحنا آباد میں موجود دونوں چرچوں میں پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی کے اعلی عہدیداروں سمیت کرسچن حقوق کی تنظیموں کے اعلی عہدیدار بھی موجود ہوتے ہیں۔اس واقعہ کے فوراً بعد چرچ میں موجود تمام اعلی عہدیداروں کو آگے بڑھتے ہوئے مشتعل مظاہرین کو پرامن رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔اور لاہور پولیس کے خلاف نعرے لگانے والوں کوتسلی دیتے ہوئے سمجھانا چاہیے تھا کہ اس پولیس کے جوان بھی ان کے چرچ کی حفاظت پر ماموراپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

سانحہ یوحنا آباد میں مرنے اور زخمی ہونے والوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈال دیا،اسکی اہمیت اپنی جگہ،۔لیکن زندہ جلائے گئے نوجوانوں کو جلانے والے لوگوں کا جرم اپنی جگہ۔

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم یا گروپ اپنے لیڈر کے بغیر بے قابو ہو جاتے ہیں۔اور لیڈروں کا کسی بھی احتجاج کے موقع پر سب سے آگے ہونا اور مثبت اعلانات کرتے رہنا ہی نقصانات سے بچاتا ہے۔اگر کیتھولک اور کرائسسٹ چرچ کی انتظامیہ ،پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی کے لوگ بھی دھماکوں کے فوراًبعد مظاہرین کے ساتھ ہی فیروز پور روڈ پر باہر آجاتے اور مثبت اعلانات کرتے رہتے تو شایدزندہ جلنے والے بچ جاتے۔اور سرکاری املاک کا سینکٹروں لاکھ کا نقصان بھی نہ ہوتا۔اور انکا یہ عمل ہمیں باشعور اور پرامن قوم ظاہر کرتا۔لیکن اب وقت کی ضرورت کے مطابق یوحنا آباد میں واقع چرچ انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ برمنگھم میں ہونے والے واقعات کی طرح سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دو نوجوانوں کو زندہ جلانے والے مجرموں اور سرکاری املاک توڑنے والوں کو ویڈیوز کی مدد سے قانون کی گرفت میں لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔تاکہ زندہ جلنے والوں کے لواحقین کو بھی انصاف مل سکے۔اگر حکومت وقت چرچ دھماکوں میں مرنے والوں کے ساتھ ساتھ شرپسند لوگوں کی جانب سے جلائے گئے دو نوجوانوں ( حافظ محمد نعیم اور بابر نعمان ) کی روحوں اور انکے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی تو یقینا حافظ محمد نعیم اور بابر نعمان روز حشر حکمران وقت کو معاف نہیں کریں گے۔
Abdul Rauf Chohan
About the Author: Abdul Rauf Chohan Read More Articles by Abdul Rauf Chohan: 3 Articles with 1858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.